مفتی شفیع عثما نیؒ کا معا شی مسا ئل پر تبصرہ
محمد عبد اللہ صدیق ۔
اسلا م کا نظا م بنیا دی طو ر پر ایک اخلا قی اور رو حا نی نظا م ہے اور اسکا مقصد انفرا دی اور اجتما عی سطح پر انسا نو ں کی تر بیت اخلا قی اور رو حا نی تر بیت ہے خاندا نو ں کی تر بیت بھی ، معا شرو ں کی تر بیت بھی اور حکو متو ں کی تر بیت ، قانون کی تر بیت بھی اور نظا م معا شرت کی تر بیت بھی ، ان سب پہلووں کو اخلا ق اور روحا نیت کے دا ئرے میں کیسے لا یا جا ئے ۔ اللہ کی رضا کی خا طر انسا ن کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ کیسے سکھا یا جا ئے یہ اسلا م کا بنیا دی مقصد ہے ظاہر با ت یہ ہے کہ تجا رت اور ما لیا ت اسلا م کے نزدیک انسا نی زندگی کے بہت سے شعبو ں میں سے ایک شعبہ ہے کل نہیں ہے انسا نی زندگی کے اور بھی بہت سا رے شعبے ہیں ان میں سے ایک شعبہ معیشت ہے اور ما لیا ت بھی ہے ،اور اس معیشت کے نظا م کے اندر ہی سود کا نظام آ تا ہے ۔اللہ تعا لی نے سو د کے نظا م کی جگہ اور نظا م بھی دیے ہیں ۔اور وہ نظام مسلمانوں کیلئے بلکہ انسا نیت کیلئے بھی فا ئدہ مند ہے،
نمبر1)شراکت۔دو یا دو سے زیا دہ افراد کا کسی کا رو با ر میں متعین سر ما یہ کے سا تھ نفع کے حصول کیلئے اکھٹا ہو جا نا کا رو با ر کے نفع و نقصا ن میں پہلے طے شدہ نسبتوں کے سا تھ شریک ہوں تو اسے شراکت کہتے ہیں ۔
عن ابی ہریرہ ؓ،قال”ان اللہ یقول:انا ثالث شریکین ما لم یخن احدھما صاحبہ،فاذا خانہ خرجت من بینھم۔؛
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روا یت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشا د فر ما یا کہ اللہ تعا لی فر ما تا ہے کہ میں دو شریکوں کا تیسرا ہو ںجب تک کہ ان میں سے ایک دو سرے کے سا تھ خیا نت نہ کرے جب ان میں سے ایک دو سرے کے سا تھ خیا نت کرے تو میں ان کے درمیا ن سے ہٹ جا تا ہو ں ۔ ( جا ری ہے)