آئس کریم گھر پر بنائیں

آئس کریم گھر پر بنانے کا طریقہ ۔۔۔۔۔ اجزا دودھ چینی کسٹرڈ پستہ سب سے پہلے ڈہائی چمچ کسٹرڈ ادھے کپ دودھ میں اچھی طرح مکس کریں ۔۔۔پھر ایک برتن لیں ۔۔۔۔اس میں دو کپ دودھ ڈالیں ۔۔۔ دودھ نیم گرم ہو جاۓ تو سوا تین کپ چینی ڈال دیں ۔۔۔۔۔چمچ ہلاتے ہوے چینی جب مکس ہو جانے دیں تب تک دودھ کو انچ پے رکھیں جب تک دودھ میں ابال نہ آجاۓ ۔۔۔۔جب دودھ میں ابال آجاے تو دودھ میں ملا ہوا کسٹرڈ ڈال دیں چمچ ہلاتے ہوے اسکو ابالیں.. ۔تھوڑا گڑھا ہو جایں پھر انچ بند کریں ۔۔۔کمرے کے درجہ حرارت پر اسکو رکھیں ۔۔۔پھر کریم لیں اسکو بیٹر کے ساتھ مکس کریں ۔۔۔۔پھر کسٹرڈ میں ڈال دیں پھر ان کو آپس میں بیٹر کے ساتھ مکس کریں ۔۔۔۔اب اس مکسچر کو آٹھ سے بارہ گھنٹے فریج میں رکھ کر نکال لیں ۔۔اس میں پستہ ملا لیں اس پیش کریں ۔۔۔بہت مزیدار ہوگا ۔۔۔۔

چین نے مصنوعی سورج بنا لیا ! دنیا حیران

آپ کو یہ بات سن کر شوک تو لگے گا پر یہ سچ ہے کہ چین نے مصنوعی سورج بنا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کر لیا ہے اور اسے زمین کا مصنوعی سورج کہا جا رہا ہے آئیے خبر کی تفصیل کی طرف چلیں . کہا یہ جا رہا ہے کہ توانائی کے اعتبار سے یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے یعنی آنے والے وقتوں میں یہ ایک بہت سستی توانائی کا زریعہ ہے یہ ایک بہت بڑی بات ہے کہ انسان اس لیول پر پونچ گئے کہ سورج جس طرح توانائی پیدا کر رہا ہے روشنی دے رہا ہے حرارت پیدا کر رہا ہے اسکو بنیاد بناتے ہو اسے کاپی کرتے ہوئے چین مصنوعی سورج بنانے کی طرف آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے .بیجنگ سے یہ خبر شائع کی گئی ہے کہ چینی سائنسدانوں نے تجرباتی فیوژن ری ایکٹر میں پلازما کو مسلسل 101 سیکنڈ تک 12 کروڑ ڈگری کے درجہ حرارت پر برقرار رکھ کر ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے اب آپ کو بتاتے ہیں کہ فیوژن کہتے کسے ہیں ، فیوژن وہ جاری عمل ہے جس میں ہائیڈروجن کے مرکزے آپس میں جڑتے ہیں ،ہیلیئم کے مرکزے بناتے ہیں اور زبردست توانائی خارج ہوتی ہے اور سورج کے اندرونی حصہ میں یہ عمل ڈیڑھ کروڑ ( 15 ملین ) ڈگری سینٹی گریڈ اور سطح زمین کے مقابلے میں 265 ارب گنا جیسے شدید دباو پر ہوتا ہے یہ وہ توانائی ہے جو اربوں سال سے زمین تک مسلسل پونچ رہی ہے اور اسی کی بدولت یہاں زندگی کا سلسلہ بھی جاری ہے فیوژن کا عمل استعمال کرتے ہوئے انسان نے ہائیڈروجن بم بنا لیے ہیں جن کی دھماکہ خیز طاقت ایٹم بم کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہوتی ہے لیکن ان سے تابکاری یعنی ریڈیو ایکٹیویٹی کا اخراج بہت کم ہوتا ہے مختلف ممالک پچھلے ستر سال سے کوشش کر رہے ہیں کہ فیوژن ری ایکشن کو کنٹرول کر کے تجارتی پیمانے پر بجلی بنانے کے قابل ہو جائیں لیکن اب تک کامیاب نہیں ہوئے. البتہ اگر یہ کوششیں کامیاب ہو گئیں تو شاید دنیا میں صاف ستھری یعنی آلودگی سے پاک توانائی کے حصول کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے فیوژن ری ایکشن سے بجلی گھر بنانے کے حوالے سے چین کی یہ پیش رفت اسلیے اہم ہے کیونکہ پلازما کا اب تک اتنا زیادہ درجہ حرارت صرف چند سیکنڈ تک ہی برقرار رکھا جا سکا تھا لیکن اب چین کے تجرباتی فیوژن ری ایکٹر ” ایکسپیریمنٹل ایڈوانس سپر کنڈکٹنگ ٹوکامیک ” ( ایسٹ ) اس کو چین کا مصنوعی سورج بھی کہا جا رہا ہے ، اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ماڈل چائنیز اکیڈمی آف سائنس کے زیلی ادارے انسٹیوٹ آف پلازما فزکس میں بنایا گیا ہے جو چینی شہر ہیفی میں واقع ہے اب امریکہ اور روس سمیت مختلف ممالک میں فیوژن ری ایکٹر بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اس سلسلہ میں 35 ملکوں کا مشترکہ منصوبہ انٹرنیشنل تھرمو نیوکلئیر ایکسپیریمنٹل ری ایکٹر کہلاتا ہے جس کا ری ایکٹر فرانس میں زہ زیر تعمیر ہے . ( نوٹ ) یہ بات زہن مین رکھ لیں جو ملک جتنی زیادہ سستی بجلی بناتا ہے وہ اتنی ہی زیادہ ترقی کرتا ہے اور آجکل ساری دنیا میں یہ دوڑ چل رہی ہے کہ سستی سے سستی بجلی بنائیں تاکہ ملک ترقی کر سکے سوائے پاکستان کے ، کیونکہ یہاں پر آج بھی بھٹو زندہ ہے ( تحریر از اسامہ ظہور اسفرائینی )

اس دنیا کی عمر کتنی پرانی ہے ؟ اور قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

سائنس دانوں کے مطابق یہ دنیا ایک دھماکے کے باعث وجود میں آئی ہے جسے سائنسی زبان میں بگ بینگ کا نام دیا گیا ہے ، سائنس دانوں کے مطابق بگ بینگ دھماکہ ہونے کے بعد ایک آسمانی سوراخ سے مادہ تقسیم ہونا شروع ہوا اور دنیا میں کئ طرح کی کہکشائیں پیدا ہوتی رہیں ، یہ مادہ آسمان میں انتہائی تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوا اور کہکشاں بنتی گئی اس آسمانی سوراخ سے نکلنے والے مادے نیوٹرونز ایک دوسرے سے ٹکرائے بھی اور بہت سے مادوں کے سیلز ٹکراؤ کی وجہ سے ٹوٹتے بھی رہے ، اور ان کہکشاؤں کا پھیلنا اب تک جاری و ساری ہے ، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہماری زمین بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بگ بینگ کا دھماکہ ، یعنی کے ساڑھے چار ارب سال پرانی ! سائنس دان آج تک اس تحقیق میں بےبس نظر آۓ ہیں کہ وہ بیان نہیں کرسکے کہ آیا یہ دنیا آخر کتنی پرانی ہے ، اور یہ کب وجود میں آئ ، کیونکہ ماضی میں جھانکنا ، تجربات اور مشاہدات کے زریعے دنیا کی موجودگی کا پتہ لگانا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے ، اب بات کرتے ہیں کہ قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے ، قرآن مجید میں سورہ الانبیاء میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ ” اور کیا یہ اہل کفر غور نہیں کرتے کہ یہ تمام دنیا پہلے ایک اکائی کی شکل میں تھی اور پھر ہم نے اسے پھیلا دیا” ( الانبیاء 30) جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے کہ سائنس کا کہنا ہے کہ دنیا ایک دھماکے سے وجود میں آئی ، تو اس بات پر ہمیں قرآن اور سائنس دونوں ہی متفق نظر آتے ہیں ، پھر اللہ نے قرآن میں واضح فرما دیا کہ “ہم نے آسمان اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا” لیکن سائنس اس تحقیق میں بےبس نظر آتی ہے کہ آیا کائنات چھ سو ہزار سال میں بنی ہے ، چھ سال میں بنی ہے یا چھ دن میں ؟ اور کب سے وجود میں آئ ہے۔ یعنی کہ اس مرحلے میں سائنس بھی بےبس نظر آتی ہے ، قرآن نے واضح الفاظ میں یہ تو بتا دیا کہ کائنات چھ دنوں میں بنی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کائنات اپنے وجود کے بعد کتنے عرصے سے قائم ہے ، اس حوالے سے سائنسی تحقیقات اور مشاہدے بھی صرف زبانی کلام میں موجود ہیں کیونکہ آج تک کوئی بھی سائنس دان یہ ثابت نہیں کرسکا یہ کائنات چار سو ارب سال پرانی ہے یا چھ سو ارب ، کیونکہ یہ سب نتائج قیاس پر مبنی ہیں ،

ذہنی دباؤ سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں ؟

آج کل کے دورمیں ہر انسان کسی نا کسی الجھن کا شکار ہے ۔کوئی دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور کوئی شہرت اور عیش و آرام کے پیچھے ہے۔انسان نےاپنی صحت اور آرام کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ایسے حالات میں انسان ذہنی تناؤ کا شکآر ہوتا جا رہا ہے ۔ذہنی تناؤ کے متاثرین افراد بہت سی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔دن بہ دن ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔چنانچہ اس بیماری پر جب ڈاکٹروں نے تحقیقات کیں تو ذیل نقطہ ہاۓ نظر سامنے أۓ ہیں بعض ڈاکٹروں کے مطابق متواتر جسمانی ورزش ،چکنآئی سے مبرا متوازن غذا کا استمال ،سگریٹ اور دیگر نشاط اشیا ءسے پرہیز ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے ۔لیکن بعض ڈاکٹر وں کے نزدیک صرف یہی اقدامات کافی نہیں ہیں ۔بلکہ وہ انسان کی خود اعتماد ی کو بنیادی بناتے ہوۓ آرام ،اور غور و فکر کو ذہنی دباؤ سے نجات کا راستہ بتاتے ہیں ۔ان کے نزدیک مریضوں کااپنے اوپر یقین اور بھروسہ، بڑھتے ہوۓبلڈ پریشر ،خون میں شکر کی مقدار اور دل کی دھڑکن کم کر سکتا ہے۔ لیکن کچھ ڈاکٹر اسے بھی قابل قبول قرار نہیں دیتےاور یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کا عمل صرف سطحی طور ذہنی دباؤ کم کرتا ہے ۔اور وہ انسان کے رویے کی تبدیلی جیسے علاج پر یقین رکھتے ہیں۔لہٰذا فرد کو اپنے آپ کو اس صورت حال سے نکالنے کے لئے اپنا رويه تبدیل کرنا پڑے گا ۔مثال کے طور پے اگر کوئی انسان کسی لمبی قطار میں کھڑا ہونے سے گهبراتا ہے تو اسے چاہیے کہ یا تو وہ لمبی قطا روں میں جانا ہی چھوڑ دے یا پھر وہ صورت حال کا مثبت پہلو سوچے کہ دوسرے لوگ بھی آرام سے قطار میں کھڑےاپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔چنانچہ اس کی یہ سوچ اس کے حق میں کافی بہتر ثابت ہو سکتی ہے ۔تا ہم یہ ذہنی تبدیلی ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو ہمہ وقت ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ایسے لوگوں کو ہر چیز کا مثبت پہلو دکھایا جاتا ہے تا کہ وہ اپنی سوچ اور رویے کو بدل سکیں ۔ اگر چہ رویے کی تبدیلی بہت افراد کے حق میں بہتر ثابت ہوئی پھر بھی اس میں بہت نقصانات ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کا رویہ تبدیل کرنا آسان نہیں ہے ۔اس سے مریض پر برے اثرات پڑ سکتے ہیں ۔لیکن ایک بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسانی خیال کی قوت ایک حقیقت ہے جسے جانا جا سکتا ہے چاہے اس سے ذہنی دباؤ میں کمی ہو یا نہ ہو ۔ لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی طرح کا جذبہ اور احساس جسم میں کئی طرح کی سرگرمیاں شروع کر دیتا ہے ۔ ہر چیز کو مثبت پہلو سے سوچ کر اگر ذہن میں ایک بار اس کا سامنا کرنے کا سوچ لیا جائے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے ذہنی اذیت میں نہیں ڈال سکتی ۔کیونکہ انسان جب تک اپنے اندر خود اعتمادی پیدا نہیں کرے گا اسے کوئی ڈاکٹر نہیں ٹھیک کر سکے گا ۔

آنکھوں کی حفاظت کیلئے سن گلاسز ضرور استعمال کریں۔

آنکھیں انسان کے لیے قدرت کا ایک ایسا عظیم تحفہ ہیں. جس کے زریعے انسان اپنے رب کی پیدا کئ گئ تمام اشیاء اور دنیا کے تمام رنگ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے ، لیکن ہر ایک کو اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہوۓ اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے ، آنکھوں کی کئ بیماریاں سورج کی خطرناک شعاعوں کی وجہ سے بھی لاحق ہوتی ہیں ، اسی لیے ماہرین تلقین کرتے ہیں کہ گرمیوں میں اپنی آنکھوں کو سورج کی خطرناک ریڈی ایشنز سے بچائیں . گرمیوں کے موسم میں دھوپ کے سب سے زیادہ منفی اثرات ہماری آنکھیوں پر پڑتے ہیں ، خاص کر دن میں دوپہر کے 12 بجے جب آپ کو گھر سے کسی ضروری کام کی وجہ سے نکلنا پڑ جاۓ تو دھوپ آنکھوں کو جھلسا کر رکھ دیتی ہے ، اس گرمی کا کوئ علاج ممکن تو ہے نہیں لیکن سن بلاک جس طرح ہماری چہرے کی جلد کو سورج کی خطرناک شعاعوں سے بچاتے ہیں اسی طرح ہم اپنی آنکھوں کو بچانے کیلئے سن گلاسز یا دھوپ کے چشمے کا استعمال کر سکتے ہیں ، اپنی آنکھوں کو سورج کی خطرناک شعاعوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ایسے سن گلاسز استعمال کریں جن میں یہ قوت ہو کو وہ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو آپ کی نازک آنکھوں تک پہنچنے تک روک سکے ، لیکن مارکیٹ میں کچھ ایسی کوالٹی کے بھی چشمے ہیں جو صرف آرٹیفیشل کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں اس لیے چشمے لیتے وقت اس چیز کا خاص خیال رکھیں کہ آیا آپ اچھے اور پائیدار سن گلاسز لے رہے ہیں . اپنے گلاسز کا فریم میٹل میں ہرگز مت بنوائیں نہ ہی ایسے سن گلاسز لیں جنکا فریم لوہے یا میٹل کا ہو کیونکہ ایسے میٹل کے فریم آپ کی ناک کے اوپر والے حصے یعنی کے آنکھوں کے پاس نشان ڈال دیتے ہیں ، کوشش کریں ہمیشہ پلاسٹک کے فریم استعمال کریں ، پلاسٹک کے فریم والے سن گلاسز آپ کو استعمال کرنے میں بھی آسانی مہیا کرینگے اور کسی قسم کا برا نشان بھی چہرے پر نہیں چھوڑینگے اس کے علاوہ گرمیوں میں روزانہ اپنی آنکھوں کو گلاب کے عرق کے دھوئیں ، اپنی آنکھوں کے اوپر کھیرے کے سلائس لگائیں ، ایسا کرنے سے ایک تو آپکی آنکھوں کے اندر سے گرمی نکل جاۓ گی ، آنکھیں تازہ دم ہوجائینگی اور آنکھوں کے اندر موجود میل بھی نکل جاۓ گا ،

پاکستان اور عمران خان کی پچیس کامیابیاں ، تحریر پارٹ 1

کہتے ہیں کہ جس قوم کو شکست دینی ہو اس کے ہمت و حوصلہ کو پست کرو. ان میں جھوٹی خبریں پھیلا کر یا ان کو آپس میں لڑوا کر یا ان کو مایوسی دلا کر . جو قومیں ہمت ہار جاتی ہیں وہ سب کچھ ہار جاتی ہیں “ تو میڈیا پر ہمیشہ نیگیٹو خبریں چلتی رہتی ہیں کچھ اچھی خبریں بھی ہونی چاہیے چلیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس حکومت نے جو کامیابیاں پاکستان کے حق میں حاصل کی ،، ہیں تو بہت ساری پر ان میں سے پچیس آپ کے سامنے رکھتے ہیں ( ایک ) پاکستان 4 سپیشل اکنامک زون بنانے جا رہا ہے نمبر ایک، رشکئی نوشہرہ نمبر دو ، ڈھابھیجی ٹھٹھہ سندھ میں نمبر تین ، علامہ اقبال انڈسٹریل آف پنجاب نمبر چار ، بوستان بلوچستان میں فوائد ان اکنامک زون سے 15 لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا ). فارن رمیٹنس ( یعنی بیرون سے جو) لوگ پاکستان پیسہ بھیجتے ہیں ) وہ گزشتہ ایک سال سے 2 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جو وہ لوگ ہر مہینے بھیجتے ہیں یہ بہت بڑی کامیابی ہے . زرعی آمدن اس سال 11 سو کروڑ کی اضافی آمدن پاکستان کو ہوئی جو کسان کے لیے بہت زیادہ منافع بخش تھی اور تحریک انصاف کے تینوں سالوں میں کسان کی کوئی فصل نہیں ڈوبی ، کریڈٹ تو جاتا ہے اس حکومت کو ملکی و غیر ملکی 19 کمپنوں کو لائسنس جاری کر دیے گئے جو پاکستان میں آ کر موبائیل فون بنائیں گی اور پاکستان اس سے ٹیکس کولیکشن کرے گا بہت بڑی اچیومنٹ ہے پاکستان کے لیےکامیاب پروگرام میں بیوہ اور غریب خواتین کو آگے بڑھنے اور محنت کر کے اپنے بچوں کو پالنے کے لیے 1 ارب کا قرضہ دیا جا چکا ہے جس سے وہ اپنا کاروبار کر کے اپنے لیے کوئی روزی روٹی کا بندوبست کر لیں گی انشاءاللہ . ایمازون نے پاکستان کو سیلر کی لسٹ میں ڈال لیا ہے جس سے پاکستانی تاجر اور ملکی معیشت کو فائیدہ ہو گا . سٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق 3.9 % شرح نمو پاکستان کی ہے ترقی کے اعتبار سے اس سال کی جو بڑھ کر اگلے سال یہ شرح ساڑھے چار % سے بھی اوپر جاے گی انشاءاللہ نیب نے گزشتہ 18،19 سال میں جو پیسہ ریکور کیا وہ صرف 290 ارب روپے تھا اور اس حکومت نے ڈھائی سال میں جو پیسہ ریکور کیا وہ ہے 484 ارب روپیہ ( یعنی اتنے کم عرصہ میں ڈبل پیسہ ریکور کیا کہاں 18،19 سال اور کہا ڈھائی سال ) کریڈٹ تو جاتا ہے ویسے ” سوچنے کی بات ” نواز شریف کی جائیداد کی نیلامی بہت بڑا ثبوت ، کہیں نا کہیں تو ہاتھ ڈلنا شروع ہو گیے. پاکستان کے نیشنل گرڈ میں پہلی مرتبہ ایٹمی بجلی شامل کر دی گئی ہے اور 105 میگاواٹ وہ نیشنل گرڈ میں چلی گئی ہے 1100 میگاوٹ k2 اٹامک پاور گھر بنایا گیا ہے جو سستی بجلی دے گا اور k3 بھی 2021 کے آخر تک مکمل ہو کر اس کے ساتھ منسلک ہو گا وہ بھی اتنی ہی بجلی دے گا اور یہ ماحول دوست بجلی ہو گی ، اب بات آتی ہے کہ پچھلی حکومتیں یہ کام کیوں نہیں کرتی تھی تو ہم آپ کو بتاتے ہیں ۔ کیونکہ اس بجلی میں کمیشن نہیں ہوتا تھا مثلا تیل کا کمیشن یا جو پاور پلانٹ لگتے تھے ان کا کمیشن نہیں ہوتا تھا اس لیے پچھلی حکومتیں یہ لگنے نہیں دیتی تھی صدر ایوب خان کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے بڑے ڈیم بننا شروع ہو گئے ، داسو ڈیم ، دیامیر بھاشا ڈیم ، مہمند وغیرہ ، آپ خود اندازہ لگائیں ان سے ہمیں کیا کیا فائدہ ہو گا اس کے لیے مجھے علیحدہ لکھنا پڑے گا فلحال مختصر ہی … سی پیک مکمل ہونے جا رہا اور یہ ایشاء کی تجارت کا سب سے بڑا مرکز بننے جا رہا اور اس سے کتنے روزگار کے مواقع آئیں گے یہ تاریخ ہی بتاے گی سیپیک جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا اور اب اس پر مزید تیزی سے کام جاری ہے افغان بارڈر کے ساتھ 17 نئے بازار تعمیر کئے جا رہے ہیں اور وہاں جو لوگ سمگلنگ کر کے ناجائز طریقہ سے تجارت کر رہے تھے ان کے لیے باڑ لگا کر وہ راستے بند کر دئیے گئے ہیں تاکہ وہ جائز طریقہ سے پیسے کمائیں جس سے تاجر اور حکومت دونوں کو فائدہ ہو اور عام آدمی کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار ہو. ( نوٹ ) انشاءاللہ بقیہ، اگلی تحریر از اسامہ اسفرائینی میں

ہندوؤں کی رسومات جو مسلمانوں نے اپنا لی ہیں

  مسلمانوں اور ہندوؤں کے باہم میل جول اور رہن سہن  کی وجہ سے ہندوؤں کی بہت سی  رسومات جو مسلمانوں نے اپنا لی ہیں جن کا اسلام میں کوئی تصور موجود نہیں ہے۔آج کے دور میں  ان فرسودہ رسومات کی  آگاہی ہر مسلمان کو ہونا ضروری ہے ۔مثال کے طور پررسم تیجا ہندوؤں کی رسم ہے اس سے ملتی رسم مسلمانوں نے رسم فاتحہ یا پھول ہے۔پھول ہندوؤں میں مردے کی جلی ہڈیوں کو کہتے ہیں جس کو متبرک ندی میں بہا دیا جاتا ہے اور مسلمان اسی دن مردے کی قبر پر پھولوں کی چادر نچھاور کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔ بچے کی پیدائش ایک خوشی و مسرت  کا باعث ہوتی ہے ۔اسلام میں بچے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرنا، بچے کے کان میں آذان دینا، نام رکھنا، عقیقہ اور ختنہ کرنے کی رسومات کو سادگی سے ادا کرنے کی رسمیں ہیں ۔ہندومت میں رسومات کا آغاز بچے کی پیدائش سے شروع ہوتی ہیں  جیسی گود بھرائی کی رسم جو کہ تیسرے یا ساتواں مہینہ کی جاتی  ہے جس میں میکے والے مختلف قسم کے پھل ، سبزیاں، میوے اور مختلف پکوان لاتے ہیں جو کہ دلہن کی طرح سجی سنوری  ہوئی عورت کی گود میں ڈالے جاتے ہیں ۔یہ رسم بھی مسلم معاشرے میں رائج ہوچکی ہے  اس رسم کا اسلام میں کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وضع حمل اور پیدائش کی بے شمار رسومات ہے جو کہ مسلمانوں نے ہندوؤں سے لی ہیں۔مثلا دردزہ کے موقع پر بی بی مریم کا پنجہ نامی پتہ جو کہ ہاتھ کے مشابہ ہوتا ہے وہ پانی کے گھڑے میں یقین کے ساتھ ڈالا جاتاہے کہ پانی میں حل ہو جانے سے زچگی میں آسانی ہوگئی۔زچہ کے  کمر پر تعویذ باندھا دیا جاتا ہے یا اس کے کمرے میں اذان دی جاتی ہے تاکہ زچگی میں آسانی ہو۔یہ تمام رسمیں ہندوؤں کی رسومات ہیں ۔ بچے کی ولادت کے بعد بھی ایسی بہت سے رسومات ہیں جو کہ ادا کی جاتی ہیں۔مثلا دورانِ ولادت جس بچے کے پاؤں پہلے آجاتے ہیں اس کے بارے میں یقین رکھا جاتا ہے کہ اس کی چند مرتبہ ٹانگیں چلانے سے کمر کا درد دور ہو جاتا ہے ۔اسی طرح ولادت کے دن ماں کے قریب کوئی لوہے کی چیز رکھ دی جاتی ہے تاکہ بلائیں قریب نہ آئیں اور نظر بد اور جنات سے بچا جا سکے۔ بچے کا نام بھی ولادت کے دن اور مناسبت سے رکھا جاتا ہے ، اس کے لیے فال نکالی جاتی ہے ۔عقیقہ میں سارے بال منڈوانے کی بجائے کسی بزرگ یا پیر فقیر کے نام پر بالوں کی  لٹ چھوڑدینے کا رواج بھی اکثر علاقوں میں پایا جاتا ہے۔یہ ہندوؤں کی بودیرسم سے مشابہت رکھتا ہے۔ ہندوؤں میں لڑکیوں کو منحوس  خیال کیا جاتا ہے اگرچہ اب زمانہ ماضی کی نسبت  لڑکیوں کے لیے  حالات بہتر ہیں لیکن مکمل طور پر  ٹھیک نہیں ہیں۔ آج بھی لڑکیوں کو ہندوؤں میں منحوس خیال کیا جاتا ہے اور انڈیا میں ایسے بہت سے علاقے موجود ہیں جو کہ لڑکی کی  پیدائش کا سن کر ابارش کروا دیتے ہیں ۔یہ عمل نام کے مسلمان بھی اپنا رہے ہیں جو کہ ظلم ہے ۔ہندوؤں کی دیکھا دیکھی مسلم معاشرے میں بھی لڑکیوں کی پیدائش پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔لڑکے کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں ، مٹھایاں تقسیم کی جاتی ہیں، اس سلسلے میں کافی روپیہ خرچ کیا جاتا ہے ۔بچے کی پیدائش کے تیسرے دن نومولود کے ننہال اور ددیال دونوں طرف سے لوگ جمع ہوتے ہیں اور طرح طرح کے کھانوں  سے مہانوں کی ضیافت کی جاتی ہے۔ دلہن کے  میکےسے خاندان کے تمام افراد کے لیے کپڑے اور دلہن کے سونے کے زیورات ، نومولود کے لیے ڈھیر ساری اشیاء دی جاتی ہیں جس پر کافی اسراف کیا جاتا ہے۔یہ رسومات بادشاہوں اور امراء کے ہاں اعلیٰ پیمانے پر کی جاتی تھی۔مختلف علاقوں میں رہنے والے مسلمان ان رسومات کو مختلف طرح ادا کرتے ہیں جیسے پانچویں یا ساتویں دن زچہ غسل کرتی ، نیا لباس پہنتی اور خاندان کے تمام افراد میں روٹی اور حلوہ تقسیم کیا جاتا ، یہ رسمدھن کہلاتی  ہے۔ جب بچہ سات دن کا ہوجاتا تو اس کے سر کے بال منڈوائے جاتے اور ان بالوں کے ہم وزن سونا وچاندی مستحق افراد میں تقسیم کیا جاتا  ۔ زچہ چالیس دن بعد نہاتی ، نیا لباس زیب تن کرتی اور پھر نومولود کو کر میکے جاتی ہے۔نومولود کے پہلے دانت نکالنے پر جو رسم کی جاتی ہے اس میں ننہال والے نومولود کو کوئی تخفہ یا تحفے  دیتے ہیں۔ نومولود کے چلنےپر بچے کی پھوپھیاں میٹھی چیز بانٹتی ہیں ۔آج بھی پنجاب کے اکثر علاقوں میں یہ رسم ادا کی جاتی ہے۔عام طورپر موڑونڈا یا ٹافیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔آپ اپنا جائزہ لیں کیا ہندوؤں کی رسومات جو مسلمانوں نے اختیار کر لی ہیں آپ کے اندر بھی موجود ہیں یا نہیں ہیں؟

گردن توڑ بخار کیا ہے ؟

گردن توڑ بخار ایسا بخار ہے جس کے نتیجے میں مریض کی قوت سماعت اور دماغ پر اثر پڑتا ہے ، یہ بخار کسی بھی عمر کے انسانوں کو ہوسکتا ہے ، چاہے بچے ہوں یا بڑے یا بوڑھے ، سب کو گردن توڑ بخار کی نشانیوں کا خیال رکھنا ہے کیونکہ کچھ لوگ اس بخار کو معمولی بخار یا نزلہ زکام سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں ، اگر اسی طرح اس بخار کو نظر انداز کیا جاۓ تو خطرہ بڑھ سکتا ہے اور مریض کی جان بھی جاسکتی ہے. اس بخار کی علامات میں دماغ کے آس پاس یا ریڑھ کی ہڈی میں سوجھن ہوتی ہے ، بخار اچانک حملہ آور ہوتا ہے ، شدید سردرد رہتا ہے ، تھکاوٹ ، بھوک کی کمی ، نیند کے مسائل ، دماغی سوزش کی وجہ سے روشنی سے آنکھوں کو تکلیف ، مریض کا بے ہوش ہوجانا ، دماغی دورہ پڑنا ، کانوں میں گھنٹیاں بجنا یا ایسا محسوس ہونا کہ کان بند ہورہے ہیں ، جی متلانا اور الٹی کا آنا ، گردے ناکارہ ہوجانا، بولنے میں دشواری ہونا اور یاد داشت کا کمزور ہوجانا اس کی علامات میں شامل ہیں ، اگر مریض منہ کے آگے رومال رکھے بغیر کھانستا یا چھینکتا ہے تو اس کی وجہ سے دوسرے لوگوں تک گردن توڑ بخار کا وائرس پہنچ سکتا ہے ، متاثرہ شخص کے ساتھ بیٹھ کر ایک ہی برتن میں کھانے پینے سے گریز کریں ، گلے لگنے سے پرہیز کریں ، اس بخار کی روک تھام کیلئے بنیادی حل یہی ہے کہ بچے بڑے بزرگ سبھی گردن توڑ بخار کی ویکسین لگوائیں ، چونکہ ریڑھ کی ہڈی میں گردن سے لے کر کمر کے آخر تک درد ہوتا ہے ، کیونکہ ریڑھ کی ہڈی کے گرد مواد جمع ہوتا ہے جسے سی ایس ایف کہا جاتا ہے . Also Read: https://newzflex.com/32972 معالج یہ پتہ لگوانے کیلئے کہ آیا گردن توڑ بخار یعنی کے سی ایس ایف مواد کس قدر خطرناک ہے ! اور اس کا علاج کیسے ممکن ہے ، اس مقصد کیلئے ڈاکٹر ریڑھ کی ہڈی کے اندر سرنج لگاتے ہیں ، تاکہ سی ایس ایف مل جاۓ اور ٹیسٹ کئے جائیں اور پتہ لگوایا جاۓ کہ بخار کس قدر خطرناک ہے ابتدائی مراحل میں یہ بخار نزلہ زکام کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے لہذاء ایسی صورتحال میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کریں ، بھیڑ میں جانے سے گریز کریں کیونکہ گردن توڑ بخار کا یہ وائرس بہت جلد ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے ، زیادہ طبیعت خراب ہونے کی صورت میں اس کو بالکل نظر انداز مت کریں فوراً اپنے معالج سے رابطہ کریں ۔

صحت و تندرستی

ایک اچھی زندگی گزارنے کے لئے اچھی صحت کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔کیونکہ اگر صحت اچھی نہیں ہو گی تو ہمارا جسم بہت سی بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔لہذا اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا:۔ عین وقت پر صحیح کھانا کھا نا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ ہم کسی غذا کے ماہر یا غذائیت کے ماہر سے بھی مدد حاصل کرسکتے ہیں جو ہمارے معمول کے مطابق کھانے کی کافی مقدار میں ہماری مدد کرسکتا ہے۔ یہ ہمارے فریم کو صحت مند اور صحت بخش رکھنے میں مدد فراہم کرے گا۔ سبز پتوں والی سبزیاں ضرور کھائیں۔ متوازن کھانے کی ترکیب ضروری ہے۔ مناسب مقدار میں فائبر ، پروٹین اور غذا لینا چاہئے ، اور ہمیں عام ورزش کرنی ہوگی۔ باضابطہ جسمانی کھیل انتہائی اہم ہیں کیونکہ یہ کام کو برقرار رکھنے اور آپ کی طاقت کو بڑھانے کے قابل بناتا ہے۔ اچھا صحت مند کھانا اور دن بہ دن کھیل کھیلوں سے آپ کو صحت مند اور صحتمند رہنے میں مدد ملے گی۔ ہمیں صحت مند کھانے کے علاوہ صحت مند ہونے کو بھی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ وقت کے کچھ عوامل پر ، ہمارا ٹائم ٹیبل یا زندگی کا کشیدہ طریقہ ہمارے کھانے کی ترکیب اور جسمانی رکاوٹوں کا باعث ہے۔ اس طرح ہمیں اپنے آپ کو صحت مند رکھنے کے لئے تبدیلی کے طریقوں کو دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم لفٹوں کی بجائے سیڑھیوں کے استعمال کر سکتے ہیں یا گاڑی لے جانے کے بجائے ٹہل سکتے ہیں۔ صحت مندانہ زندگی گزارنے کے لئے صحت کو بھی برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ اسکول کی عمر کے بچوں یا نو عمر بالغوں کو کم سے کم نو بجے تک سونا چاہئے ، اور بالغوں کو نو گھنٹے کی نیند لینا چاہئے۔ تاہم ، اس کے علاوہ صحت مند رہنے سے ہماری بیشتر توانائی کی صلاحیت کے استعمال میں بھی مدد ملتی ہے۔ وہ لوگ جو ذہنی طور پر تندرست نہیں ہیں یا انہیں احساسات کو مستقل طور پر بتانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کا ان کی فٹنس پر اثر پڑتا ہے ، جس کے نتیجے میں گھبراہٹ سے ان کا توازن بگڑ جاتا ہے یا کسی اور فٹنس پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ لہذا صحت بہترین فٹنس میں ختم ہوتی ہے۔ ایک صحت مند انسان بیماریوں پر فتح حاصل کرسکتا ہے اور ایک خوشگوار اور دباؤ سے دوچار زندگی گزار سکتا ہے۔ اس طرح ہمیں اپنی تندرستی پر توجہ دینے ، بہترین غذائیت سے بھرپور کھانا کھانے ، اچھی طرح سونے اور باقاعدگی سے ورزش کرنے کی ضرورت ہے۔

مولی کا پانی جسمانی صحت کو بحال کرسکتا ہے !

مولی کا پانی پیٹ سے جڑی کئ بیماریوں کا علاج ہوسکتا ہے ، مولی ایک ایسی سبزی ہے جس کے اندر بے شمار قدرتی منرلز پاۓ جاتے ہیں جن میں آیوڈین ، کیلشیم شامل ہیں ، مولی کا پانی پیٹ کی کئ بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے جیسے کہ اگر آپکو پیٹ کے اندر گیس محسوس کو ، ہچکی لگی ہو ، پیٹ پھولا ہوا اور بھاری محسوس ہو ، بواسیر کی شکایت ہو ، پیشاب رک رک کر آۓ ، یا جلن کے ساتھ پیشاب آۓ ، گردوں کے اندر پتھری کی شکایت ہو ، یرقان ہو ، جگر خون بنانا چھوڑ دے تو ایسی صورتحال میں مولی کا جوس پیا جاۓ . دمہ کیلیے بھی مولی بے حد مفید ثابت ہوتی ہے . مولی ہمارے جسم کے اندر خون کو صاف اور پتلا کرتی ہے ، مولی کے اندر پایا جانے والا پوٹاشیم کا عنصر بلڈ پریشر کو کنٹرول رکھنے میں مدد کرتا ہے ، اگر آپ کے جسم پر کہیں بھی کوئ کیڑا یا زہریلا رینگنے والا حشرات کاٹ جاۓ تو فوراً اس کے کاٹے جانے والی جگہ پر مولی کا پانی لگائیں جن لوگوں کے خون کے سرخ خلیے ختم ہونے کا اندیشہ ہو وہ مولی کو استعمال کریں ، مولی خون کے اندر موجود ریڈ سیلز کو ختم ہونے سے بھی بچاتی ہے ، اگر آپکو مسوڑھوں کے درد- یا مسوڑھوں سے خون آنے کا اندیشہ ہے تو مولی کو کاٹ کر اس پر کالا نمک لگائیں ، اور کھا لیں ، آپکو دانتوں کے کئ امراض میں مولی شفاء دینے ک باعث بنے گی بہت سی خواتین کو ماہواری کے دوران درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس درد کو کم کرنے کیلئے مولی کے بیج کو دو چمچ شہد میں ڈال کر پکائیں اور دن میں دو سے تین مرتبہ کھلائیں ، جو لوگ اپنی نظر کو تیز کرنا چاہتے ہیں وہ روزانہ یا تو مولی کھایا کریں یا مولی کے پانی کا ایک گلاس پیا کریں . اگر آپ سارا دن کام کر کے تھکاوٹ سے چوڑ ہیں تو آپ ایک مولی کھا لیں یا مولی کا جوس پی لیں ، یہ بہت مددگار ثابت ہوگا ، یرقان کی بیماری میں مولی مددگار ہوتی ہے ، اگر آپ کے چہرے پر ، خاص کر لڑکیوں کے چہرے پر کیل مہاسے نکلتے ہیں تو روزانہ کی بنیاد پر مولی کے سلائیس کاٹ کر اپنے کیل مہاسوں پر کچھ ہی دیر لگا کر رکھیں ، اس کے بعد تازہ پانی سے چہرہ دھوئیں ، چند دنوں بعد کیل مہاسے ختم ہوجائینگے ،

چکن کڑاہی ۔۔

ایک کلو چکن کے لیے اجزا ۔۔۔۔۔۔دو عدد پیاز چار عدد ٹماٹر دو چمچ چکن کڑاہی مصالحہ ایک چمچ دنیا پاؤڈر تازہ دنیا نمک ۔۔۔۔۔۔ چکن کڑاہی کو بنانے کا آسان طریقہ ۔۔۔ سب سے پہلے دو بڑھے عدد پیاز لیں ۔۔۔پیاز کو براؤن کرلیں ۔۔۔۔پیاز براؤن ہو جاۓ تو اس میں چکن ،ٹماٹر ،لہسن ادرک کا پیسٹ ، یہ ساری چیزیں ایک ساتھ ڈال دیں ۔۔۔۔پھر میڈیم انچ پر دو منٹ تک پکایں ۔۔۔۔پھر چکن کڑاہی مصالحہ ،دنیا پاؤڈر ،نمک حسب ضرورت ڈال کر تھوڑا سا پانی ڈال کر ہلکی آنچ پر پکائیں ۔۔۔۔ چولہا بند کرنے سے ایک منٹ پہلے تازہ دنیا ڈال دیں ۔۔۔۔

میتھی دانہ کے استعمال سے ہمارے جسم کو کیا کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے ؟

میتھی ایک سبز پتوں والی سبزی یا ترکاری ہے ، اس میں آئرن وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کچھ لوگ میتھی کو گرم سمجھ کر نہیں کھاتے ، میتھی کے پتے بنا کر اس کا سالن بھی بنایا جاتا ہے اور اس کے پتوں کو دھوپ میں سکھا کر بھی استعمال کیا جاتا ہے ، جب یہ سوکھ جاتی ہے تو دور دور تک اس کے پتوں کی خوشبو پھیلتی ہے جو سونگھنے میں اچھی محسوس ہوتی ہے ، میتھی کے بہت سے فائدے ہیں یہ بہت سی بیماریوں کے خلاف لڑتی بھی ہے ، میتھی کے بیج یعنی جن کو میتھی دانے بھی کہا جاتا ہے ، ان کو طب میں کافی اہمیت حاصل ہے ، اور معالج اکثر اوقات انکا استعمال کرنے کی تلقین کرتے ہیں ، جن عورتوں کو ماہواری کا مسلہ درپیش ہوتا ہے ، اگر وہ عورتیں میتھی دانوں کو ایک کپ پانی میں ڈال کر ، ایک چمچ شہد ڈال کر اس کا قہوہ بنا کر پئیں گی. تو ان کا ماہواری کا مسلہ حل ہوجاۓ گا ، میتھی کا یہی قہوہ اگر وہ افراد استعمال کریں جن کے گلے میں سوزش اور کھانسی رہتی ہے ، تو ان کو بھی آرام مل سکتا ہے ، اس کے علاوہ یہ میتھی اور میتھی دانے بواسیر ، سینے کی جلن ، معدے کی جلن ، خاص کر پرانی کھانسی کو دور کرنے کیلئے تریاق کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں ، اگر کی لڑکی کے بال گرتے ہیں تو وہ سرسوں کے تیل کے اندر میتھی کے دانے ڈال کر محفوظ کرلے اور اس تیل کو اپنے بالوں میں لگا کر اچھے سے مساج کرے ، اور دو گھنٹے بعد سر دھو لے ، ایک ہفتہ استعمال کرنے بعد فرق واضح نظر آۓ گا ، گرمیوں میں رات بھر میتھی دانوں کو ایک گلاس پانی میں بھگو کر رکھ دیں اور صبح اس کو استعمال کریں –   یہ پانی گرمیوں میں پیاس شدت کو کم کرنے کیلئے موزوں ثابت ہوتا ہے , میتھی دانے اندر پاۓ جانے والے فائبر اور دوسرے قدرتی منرلز جسم کے مدافعتی نظام کو درست کرتے ہیں ، جن بچوں یا بڑوں کا پیٹ خراب یا ہاضمہ خراب رہتا ہے ، جو لوگ تھوڑا سا کام کرلیں تو وہ تھک جاتے ہیں یا انکا سانس پھول جاتا ہے تو ایسے لوگ میتھی دانہ کا قہوہ یا چاۓ استعمال کریں ، سردیوں کے اندر ہونے والی چھوٹی چھوٹی نزلہ و زکام ، بخار اور سردی لگ جانے والے امراض سے میتھی دانہ حفاظت کرتا ہے ، سب کو چاہیے کہ سردیوں میں میتھی دانہ کے قہوہ اور چاۓ لازمی پئیں ۔

؟How to get 20000 Free Traffic on Your blog without SEO

HOW TO GET 20K FREE TRAFFIC ON YOUR WEBSITE WITHOUT SEO? Hello guys today I am just going to tell you how you can get free 20k organic traffic on the website. Its completely free free free ! As all of us know that the economic condition of every one is worse just because of Covid-19. So if you want to earn money you can also start a blog for getting money and if you have an issue regarding traffic on it so do not worry about it, I just came out with a solution of your problem . The method I am just going to tell you about is completely free and that you will get completely organic traffic and you will not have any problem regarding ads limit in Google Adsense . So I am just going to tell you the method in detail : You can get this traffic from the question answering website and other websites but you just have to be patience and consistent in your doings it is one of the greatest rule in online earning . The list of the websites from where you will get free organic traffic: Quora Pinterest Tumbler Reddit LinkedInSo guys first of all I am just going to tell you one of the best question answering website on the internet and one of the best method to get traffic on your website.. The Process of it is to create profile on the Quora and you just have to answer 5-10 questions daily relating to your niche and you should put link in only one answer but keep in mind you just have to answer question properly. But if you put more links frequently in your answers then you will be blocked from Quora . So its a best method to get organic traffic .There is another benefit of this website is that you can rank your blog on the google through this site if you answer properly. Pinterest Pinterest is also a very good site through which you can get free traffic. Its a social site and on this site you can get your blog rank on the google if your pin is good. The Procedure of this site is to create an account on the pinterest that is very easy and you can also do it in a seconds . After creation of account you just have to create a board according to your category and you can create more than one boards at a time relating to different category. After creating board you just have to create a pin of your blog where you just have to put following information; Title of the blog Description of the blog Link to the blog post Featured Image from the blog Then you just have to publish in the relating board and then you will get more visitors to your blog if you have more following on it. Tumblr Tumblr is also a social site and you can also get more free traffic from over there. The procedure of this site is also very simple, you just have to open the Tumblr and create a profile on it and you can also get your followings from here. In the top left corner you will get an option of text where you can put your blog title and description and after this you have to put a link to your blog post which will direct readers to your blog and you will get more traffic. Reddit So guys here comes your fourth number website from where we will get free of cost organic traffic its similar to Qoura. You just have to create an account using various registering options likely using email or Facebook and many other options like this after creating your profile you have to join communities relating to your blog and its niche where you will be allowed to post and you will then put title and description of your blog along with the link redirecting to your blog . LinkedIn LinkedIn is also a platform where you are able to create your profile and you will also get a chance to be hired if you are looking for a job but if you are a blogger then you just have to create strong posts so that you can get more followers and after you just have to put a link to your blog where you will get more clicks and more visitors to your website.

تمباکو نوشی اور دل کی بیماریوں کی نشوونما

دل کی بیماری پوری دنیا میں موت اور معذوری کی ایک اہم وجہ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تمباکو نوشی کے خطرات کے بارے میں جو تھوڑی سی حقائق سے متعلق معلومات ہیں ان کی وجہ سے تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد اب بھی بہت زیادہ ہے۔ سگریٹ تمباکو نوشی دل کی بیماری کی ایک بڑی وجہ ہے اور تمباکو نوشی سے وابستہ اموات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ صرف امریکہ میں ، سگریٹ ہی دل کی بیماری سے ہونے والی زیادہ تر اموات کا ذمہ دار ہے۔ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ، دل کی بیماری سے ہونے والی ہر سال ہونے والی ہلاکتوں میں سے تقریبا 4 440،000 تمباکو نوشی کی وجہ سے ہیں۔ ایک دن میں سگریٹ کی صرف چند لاٹھی دل کی بیماری کی ترقی کے خطرے کو دوگنا کرسکتی ہے۔ سگریٹ نوشی دل کے لئے ہونے والے نقصان کی وجہ سے ، تمباکو نوشی چھوڑنے کی ضرورت صحت کا ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے جو ممکنہ طور پر لاکھوں جانوں کی جان بچاسکتا ہے۔ تمباکو نوشی کی وجہ سے ہونے والی متعدد اموات اور بیماریاں جلد نہیں ہوتی ہیں۔ سگریٹ میں کیمیکل کچھ افراد پر پڑنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ سگریٹ نوشی کی وجہ سے دل کی بیماریاں ایک سست اور تکلیف دہ عمل ہوسکتی ہیں۔ تمباکو نوشی کرنے والے افراد کو دل کی بیماری لاحق ہوسکتی ہے کیونکہ سگریٹ نوشی سے جسم کا خون بہاؤ نیکوٹین سے آلودہ ہوجاتا ہے ، سگریٹ کا فعال جزو جو دماغ کو متحرک کرتا ہے اور ایڈرینالین کا رش مہیا کرتا ہے۔ ایڈنالائن کا رش بہت زیادہ احساس فراہم کرتا ہے یا اچانک رش یا توانائی کا شاٹ۔ تاہم ، جبکہ تماکو نوشی کے ذریعہ یہ لمبے لمبے لمحے لطف اندوز ہو رہے ہیں ، لیکن وہ پہلے ہی دل کو سنگین خطرہ سے دوچار کر سکتا ہے۔ نیکوٹین کی وجہ سے ایڈرینالائن دل کی شرح کو تیز ، شریانوں کو سخت اور دل کو دباؤ ڈال سکتا ہے۔ جب باقاعدگی سے تمباکو نوشی کرنے والوں کی نیکوٹین سطح گرتی ہے تو ، وہ عام طور پر انخلا کے علامات کا تجربہ کرتے ہیں جس میں بےچینی ، چڑچڑاپن ، اضطراب ، توجہ میں دشواری اور دوسرے دھواں کے لئے ترس شامل ہیں۔ تمباکو نوشی کرنے والوں کو عام محسوس کرنے کے لئےباقاعدگی سے تمباکو نوشی کرنے کی ضرورت ہے ، یہ ایسی حالت ہے جس کی وجہ سے نشے کا سبب بن سکتا ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں میں 4،000 سے زائد کیمیکلز شامل ہیں ، 60 یہ کیمیکل کارسنجینک ہیں اور دوسرے دھواں میں بھی موجود ہیں۔ فارمیڈہائڈ ، آرسنک ، کیڈیمیم ، بینزین اور ایتھیلین آکسائڈ سگریٹ میں پائے جانے والے صرف کچھ مادے ہیں – یہ سب کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ خطرناک اجزاء گھنٹوں ہوا میں رہ سکتے ہیں اور بہت سے طریقوں سے کسی کی صحت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ کیمیکل آرتروسکلروسیس کی ترقی کو تیز کرسکتے ہیں ، ایک بیماری جو بڑی اور درمیانے شریانوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ حالت خون کی نالیوں کو نقصان پہنچاتی ہے جس کی وجہ سے انہیں آرام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ سگریٹ نوشی بھی شریان کی دیواروں کو شریان کی دیواروں کو سخت کرنے اور تختی کے ٹکڑوں کو کچھ شریانوں کو روکنے کا سبب بن سکتی ہے۔ ایک بار جب یہ تختی شریانوں کو روکتا ہے تو ، آکسیجن کے لئے دل بھوکا ہوسکتا ہے۔ طویل مدت میں ، ان حالات سے دل کی بیماریوں جیسے کورونری دل کی بیماری اور انجائنا (سینے کا شدید درد) کی نشوونما ہوسکتی ہے۔ سگریٹ نوشی کے ذریعہ موتیابند ، میکولر انحطاط ، چنبل ، دانت میں کمی ، آسٹیوپوروسس ، اور بہت ساری چیزوں کے حصول کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ تاہم ، تمباکو نوشی چھوڑنے میں کبھی دیر نہیں کرتی ہے۔ عادت کو روکنے سے کسی کے دل کی فٹنس اور مجموعی صحت میں تیزی سے بہتری آسکتی ہے۔ وہ افراد جن کو عادت کاٹنے میں سخت مشکل پیش آرہی ہے وہ بازار میں سگریٹ نوشی سے متعلق مصنوعات کو استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یہ مصنوعات ، تاہم ، تمام کام نہیں کرسکتی ہیں۔ سگریٹ نوشی ترک کرنے کا بہترین اور موثر عزم ، نظم و ضبط ، اور عادت کو مستقل طور پر روکنے کا عزم شامل ہے۔ سگریٹ کے بغیر زندگی میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے سگریٹ تمباکو نوشی کرنے والوں کو زیادہ آرام دہ اور خوش کن بناکر ان مصنوعات کو استعمال کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ تمباکو نوشی سے متعلق بہت ساری مصنوعات کاؤنٹر پر دستیاب ہیں ، بہتر ہے کہ صحت سے متعلق ماہرین سے ان ضمنی اثرات اور منشیات کے تعامل کو واضح کیا جائے جو ادویات کے تحت تیار کی جاسکتی ہیں۔ صحیح آلات اور رویے سے سگریٹ نوشی چھوڑنا اور دل کی بیماریوں کی نشوونما کم کرنا دوسروں کے خیال سے آسان ہے۔

SOLAR TECHNOLOGY BY: ZAINAB ZAHRA

SOLAR TECHNOLOGY BY: ZAINAB ZAHRA Exactly when you imagine the energy of what might be on the horizon, sun-based power is in all likelihood in the picture. Taking everything into account, it’s reliable, it is fantastic, moreover, and it empowers by a long shot the greater part of life on Earth. Lately, under two percent of the politically influential nations has come from the daylight based power—yet developments are likely going to change that. So here are five distinct ways sun-arranged energy could help power what’s to come. You May 1, 2021 feel that massive, dried deserts are the ideal spot to present sun-based properties. Taking everything into account, desert sunlight is outrageous, and you don’t for the most part need to worry about fogs. Moreover, there’s a great deal of huge regions. However, there is one issue: Solar sheets aren’t devotees of warmth. Sun-based sheets work by changing over light clearly into power: Right when they hold light, that energy pounds electrons free — and those free electrons make an electrical flow, which can be gotten and moved to a wire. The thing is, sun-situated sheets, do that most beneficially at temperatures under 25 degrees Celsius? That is on the grounds that, when the sun-situated sheets get blistering, the electrons get that extra energy from their present condition, which places them in a more invigorated state. Additionally, when they’re stimulated, they have less space to ingest energy from the Sun. Hence, they work best in moderate conditions—where, incredibly, it can sometimes be hard to find the space to set up a goliath field of sun-fueled loads up. In any case, since the 2000s, countries all throughout the planet have been completing what is apparently a commonly gainful course of action: a system called a grivoltaics. In a grivoltaics, sun-based sheets get presented over crop fields. That way, there’s no convincing motivation to clear additional room just for the loads up, likewise, also, the harvests help keep things cool as they release water through their leaves. That appearance of waterworks especially like sweating: Dispersing water wipes out heat from a plant, what chops down the plant’s temperature and moreover cools the incorporating an area. So it can help keep things calm relieving for the sun-based sheets. Moreover, it makes them recognizably more capable! Researchers centered at the University of Arizona found that, among May and July of 2019, sun-fueled sheets over croplands were three percent more compelling than daylight based sheets in the very district that was not over croplands. That most likely will not appear to be like a ton, yet completed time, those little obtains add up. For a house or building work on daylight based force, it would amount to approach three days of control over those three months. Experts have in like manner extended a relative plan to a course of action called glide voltaic, in which floating sun-controlled sheets are set on streams, which are besides typically cooler than the air and help keep the sheets cool, furthermore, working gainfully. To improve upon the arrangement much further, a grivoltaics and buoy voltaic moreover open up heaps of extra freedoms with respect to finding space for massive assortments of sheets. Courses of action like these as of now exist all things considered the world, likewise, they’re getting all the more notable. If that returns, a grivoltaics, and buoy voltaic could deliver a basic piece of the world’s energy later on. Experts are persistently endeavoring to get so a great deal of energy out of sun-based sheets as they can. Besides, something they need to consider is all around what heading a board should go up against. It’s self-evident, sun based sheets produce the most energy exactly when the Sun’s shafts are hitting them head-on, rather than at a point. Hence, by and large, people have presented these sheets at a fixed point that gets the most prompt Daylight at their specific extension. Notwithstanding, that is anything but an ideal plan, in light of the fact that the place of the Sun’s light is constantly changing relying upon the hour of day besides, the season. That is the explanation engineers created something many refer to as photovoltaic trackers, or then again PV trackers. PV trackers move sun-situated sheets along tracks that follow the roundabout portion of the Sun. The trackers guarantee that the Sun’s pillars are reliably hitting the sheets head-on, so they’re by and large performing at their zenith. To run, these structures do use around 5 to 10 percent of the energy they produce, yet the energy gained surpasses those setbacks. Undoubtedly, these mounts can help the amount of force a sun-situated block makes by to 45percent, dependent upon the geographic region. In places far from the equator, where the mark of light moves generally among summer and winter, PV trackers can be especially significant. They’re overall still too strong to even consider evening consider being practical on rooftops, which should be developed to pass on something so significant, nevertheless, they are being used in various settings. Today, most daylight based sheets have a lovely clear see, furthermore, they don’t just regularly blend into their ecological elements or of course the designing they’re associated with. Regardless, there’s simply such a ton you can do about that on the grounds that the most notable sun-based sheets are made of silicon, which is just ordinarily lumbering and significant. Silicon is unimaginable for transforming light energy into power — since its electrons are coordinated figuratively speaking that simplifies it for sunlight to pound them free—yet it’s not using any and all means the solitary other option. A couple of engineers are examining alternatives, checking sun-arranged cells that could be introduced straightforwardly in your windows. Like, the contemplation is that you could be perched by a window on a brilliant day, and light and warmth are hitting you. Notwithstanding, a segment of that sunlight could in like manner be changed over into electrical energy… straightforwardly in the glass.

Hopelessness, a pit

It was the time when the covers of imaginations unveiling from deep corners of my mind and the realities of life disclosing behind me. Off course, nobody accepts them at once and goes into a state of hopelessness and becomes despair from the very situation happening in front of him. Hopelessness is such a situation when your high  expectations from this world or even from yourself break and you don’t anticipate any good further. You see people of every age either elder or younger than you becoming successful, you thought that you haven’t any skill or talent or you don’t have any power to become successful as you have faced a lot of failures despite of your full efforts and hard work. This is a situation when darkness prevails around you and you find no way to come back. I associate this situation with mental health because of hopelessness you can drag into a state of anxiety and depression as you find no goodness from anyone. You lose your courage and strength to move ahead and can’t make your life a welfare.Here I like to share a quote by Martin Luther King as he said : “Everything that is done in this world is done by hope “ Hopelessness is such a pit in which you just step in, you goes on felling into it own its own. You goes on emboging in this swamp without knowing its adverse impact on your mental health. It also affects one’s behavior and attitude as he has negative views about his incoming life. He also pays no heed to important things of his life, in this way he destroys not only his present but also his future. He losses his inspiration, motivation and optimistic approach towards his future. Hopelessness is such a dreadful feeling that even if you see any motivation, people doing great even in their worse conditions and achieving a better outcome by their own efforts even then you don’t pay attention and not learn anything from it. Your mind is begin stuck in lowering your self-esteem and you start ruminating your problems. A big change in person’s behavior is also observed. You become angry on little things. Annoyance prevails in your attitude towards people and even your akins. This problem needs to be addressed but even a person himself not understand that he is falling in a ghastly pit. This problem needs a special attention as way back is difficult but not impossible. Detecting the cause or failures, thinking positive about you and believing in yourself that you have the ability to make your paths easier can alleviate the feeling of hopelessness.

نجی ایئر لائن میں جوڑے کی نازیبا حرکات

پاکستان کی ایر بلو لائن میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے سوشل میڈیا  پر ہلچل مچا دی ۔ہر کوئی اس واقعہ کے بارے میں جاننا چاہتا ہے ۔یہ ایسا واقعہ ہے جس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔یہ  آزادی اظہار کی آڑ میں ایک شرم ناک واقعہ ہے۔2 مئی کو نجی ایئر لائن میں دوران پرواز ایک جوڑے نے بوسوں وکنار شروع کر دی ۔ یہ واقعہ کراچی سے اسلام آباد آنے والی نجی  فلائٹPA-200 میں پیش آیا۔ج جوڑے کی نازیبا حرکات پرمسافروں نے ایئر ہوسٹس کو شکایت کی  ۔ ایئر ہوسٹس نے جوڑے کو نازیبا حرکات نہ کرنے کی درخواست کی لیکن جوڑے  نے نظر انداز کر دیا. اور منع کرنے والوں سے سخت لہجہ اختیار کیا۔ ائر ہوسٹس  نےآخر میں جوڑے کو کمبل لا دیا  تاکہ وہ اپنے فعل کو ایک پردے میں جاری رکھیں۔ اسی فلائٹ میں ایڈوکیٹ  بلال فاروق علوی  بھی موجود تھے. انہوں نے ائر لائن کے  عملے کے خلاف کاروائی کے لیے درخواست دے دی جو کہ جوڑے کو نازیبا حرکات سے منع کرنے میں ناکام رہا تھا۔اب اتھارٹی اس واقعہ پر تحقیق کر رہی ہے۔ انہوں ایک پیغام سوشل میڈیا پر  بھی جاری کیا جوکہ  سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ۔ سوشل میڈیا صارف کے درمیان اس موضوع کو لے کر طنز و مزاح  کا بازار گرم ہو گیا ۔ایک نے  قرآن کی سورۃ النور کی آیت نمبر انیس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ یہ ان کےلیےہےجوایسی نازیبا حرکات کو سپوٹ کر رہے ہیں۔ایک نے لکھا  :مجھے لگتا ہے کہ ہوائی جہاز میں بوسہ لیتے ہوئے جوڑے کے بارے میں پاکستان کی عوام کے سخت رویے کی واحد وجہ یہ ہے کہ انہوں نے صرف اپنے والدین کو لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔دوسرا انہوں نے صرف پاکستان میڈیا پر تشدد دیکھا ہے۔ ایک اور نے  ٹویٹ کیا  :یار جہاز میں ڈیڑھ گھنٹہ پپیاں چلتی رہی اور کسی ایک پاکستانی کو بھی وڈیو بنانے کی توفیق نہیں ہوئی یار کیا ہم لوگ اپنی روایات سے دور نہیں ہوتے جا رہے ہیں۔اس واقعہ کی کوئی وڈیو منظر عام پر نہیں آئی ،کسی نے کارٹون کرداروں کی وڈیو کو اصل وڈیو قرار دیا۔  دنیا میں بہت سے ممالک موجو د ہیں جن کے قانون میں  پبلک جگہوں پر ایسی نازیبا حرکات کرنے پر پاپندی ہے اور ایسے فعل کو ناپسندگی سے دیکھا جاتا ہے۔ایسی حرکات کرنے والوں کو سزا دی جا سکتی ہے۔ ان ممالک میں دبئی، چائنا، قطر، انڈیا اورانڈونیشیا وغیرہ  شامل ہیں۔ایک اسلامی ملک میں ایسی نازیبا حرکات کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔اس لیے سوشل میڈیا پر اس واقعہ پر تنقید کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ دیکھی جا سکتی ہے۔اسلام میاں و بیوی کو بوس وکنار کی اجازت بلکل دیتا ہے لیکن اسلام   کی اخلاقی تعلیمات کو دیکھا جائے تو ایسا فعل  پبلک  میں کرنے کی اجازت بھی نہیں  ہے۔

کریمی چکن

کریمی چکن بنانے کے لئے جو اجزا چاہیے وہ نوٹ کر لیں چکن تین سو گرام ایک کپ دہی تین سے چار ہری مرچیں ایک عدد پیاز دس سے بارہ کاجو عدد ثابت کالی مرچ 20 نمک حسب ضرورت ایک چمچ ادرک لہسن کا پیسٹ   ترکیب چکن میں ایک کپ دہی ادرک لہسن کا پیسٹ تھوڑا سا نمک اور کالی مرچ ڈال کر میری نیٹ کر لیں. آپ ایک پین میں حسب ضرورت تیل ڈالیں. پیاز اور ہری مرچ ڈال کر فرائی کرلیں. ہلکہ فرائی ہونے پر ایک کپ پانی ڈال کر تھوڑی دیر پکا لیں. اس میں کاجو بہی ڈال دے ٹھنڈا ہونے پر پیس دیں. اب تیل گرم کریں اور اس میں اس پیسٹ کو اچھی طرح بھون لیں اب اس میں چکن ڈال کر اچھی طرح چکن کو پکا لین اس میں ایک چمچ مکھن اور دو چمچ کریم ڈال کے دس منٹ تک اور پکائیں . لیجیے کریمی چکن تیار ہے

ملالہ کا شادی کے حوالے سے شرم ناک بیان

“مجھے سمجھ نہیں آتی لوگ شادی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟” یہ بیان ملالہ یوسف زئی کا ہے ۔ ووگ میگزین جو کہ ایک بہت بڑا میگزین ہے ۔جس نے حال ہی میں ملالہ یوسف زئی کا انٹر ویو کیا ہے۔ اس میگزین کا انٹرویو کرنا بہت بڑی بات سمجھی جاتی ہے ۔ملالہ یوسف زئی کا نہ صرف اس میگزین  میں انٹرویو شائع ہوا ہے  بلکہ میگزین کے کو رفوٹو پر ملالہ کی تصویر بھی لگائی گئی ہےجو کہ ایک اعزاز تصور کیا جا رہا ہے ۔یہ ایک ملالہ کا اعزاز ہے لیکن ملالہ نے اس انٹرویو میں ایک عجیب بات کہہ دی۔ میگزین کے انٹرویو میں جب ملالہ سے محبت و شادی کے بارے میں مختلف سوالات کیے گئے۔ محبت کی زندگی کسی ہونی چاہئے؟ ایک پارٹنر کیسا ہونا چاہئے؟اپنی محبت کی زندگی کسی ہے؟وغیرہ ۔۔انٹرویو لینے والا کہتا ہے ، ملالہ ان سوالات پر شرما رہی تھی اور جواب نہیں دے سکی۔لیکن جب انٹرویو اپنے اختتام پر جا رہا تھا تو ملالہ  کو جانے کیا خیال آیا اور یہ قصہ دوبارہ چھڑ دیا۔ملالہ نے جب اس موضوع پر دوبارہ بات کی تو اسی مواقع پر انہوں نے شادی کے بارے میں ایک نہایت عجیب بات کر دی۔ جب پوچھا گیا  آپ کو محبت کرنا پڑی تو آپ کس کا انتخاب کرے گئی؟ ملالہ کا جواب:”آپ جانتے ہو، سوشل میڈیا پر ، ہر کوئی اپنے تعلقات کی کہانیاں شیئر کر رہا ہے اور آپ پریشان ہو جاتے ہیں۔”۔۔۔۔”اگر آپ کسی پر اعتبار کر سکتے ہیں یا نہیں ، آپ کو کیسے یقین ہو سکتا ہے” جب بات آگے بڑھی اور ملالہ کے والدین کی شادی پر آئی کہ انہوں نے بھی ایک دوسرے پر اعتبار کیا اور چانس لیا اور شادی کی تو آپ کیوں نہیں لے رہی ۔جس کے جواب میں ملالہ نے نہایت عجیب بات کی جو کہ وجہ تنازعہ بن رہی ہے۔ملالہ نے کہا: “l still don’t understand why people have to get married. If you want to have a person in your life , why do have to sign marriage papers, why cant it just be a partnership?” ” مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہی ہے کہ لوگوں کو شادی کیوں کرنا  ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی میں کوئی فرد رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو شادی کے کاغذات پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے ، کیو ں  یہ صرف شراکت نہیں  نہ بن سکتاہے؟” ملالہ ایک مسلم لڑکی ہے ۔ ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی ہے اور اسلامی تعلیمات اور مسلم روایات کو بخوبی جانتی ہیں۔لیکن ملالہ کا شادی  کے بارے میں یہ بیان اسلامی تعلیمات کے  خلاف ہے ۔قرآن مجید میں شادی کے احکامات موجو د ہیں۔ حضرت محمد ؐ    کی حیات طیبہ  کو دیکھ لیں شادی کرنے کی تعلیمات موجود ہیں۔جب کہ ملالہ جو بات کر رہی ہے وہ مغربی سوچ   کو پروان چڑھا رہی ہے۔مغرب کی سوچ ہے کہ شادی کی ضرورت نہیں ہے  بلکہ بغیر شادی کے رہے اور بچے پیدا کریں۔

THE THIRST OF LEADERSHIP IN POLITICIANS OF PAKISTAN BY: ZAINAB ZAHRA

THE THIRST FOR LEADERSHIP IN POLITICIANS OF PAKISTAN BY: ZAINAB ZAHRA Today in the new century the Thirst of Leadership in Politicians of Pakistan has the dangers to our country’s solidarity, steadiness and power proceed to develop and extend at a disturbing speed. The opportunity and security of Pakistan rely upon Pakistan’s authority. Without Pakistan’s legitimate administration our nation can turn into a more hazardous spot—both for its residents and their well-deserved opportunity. Whenever left unchecked, the developing perils will just deteriorate and may arrive at where Pakistan’s very presence can be in question. While the Pakistani public progressively needs better answers and arrangements, they are getting a greater amount of trademarks and guarantees. Perceiving this need, Foundation for Progress has embraced – A mission for an opportunity, another push to ration and advance majority rule government and vote based qualities and a lucid public initiative with projects and strategies pointed toward modifying a maintainable establishment whereupon our future rests. This is our Leadership for Pakistan Initiative. An initiative shortfall is maybe Pakistan’s most squeezing issue. Get any paper or magazine, turn on the TV or ask the individual sitting close to you, and they will concur that Pakistan has a SERIOUS DEARTH OF LEADERS. While there is a concession to the presence of our authority issue, an answer is infrequently recommended. This shortfall of an answer isn’t a mishap; it exists since the initiative is hard to characterize. The initiative is not so much science but rather more workmanship. It isn’t something you can make with the right arrangement of fixings; the total is by and large more noteworthy than the parts and there is, lamentably, no equation. Indeed, there are many genuine instances of administration however consolidating them doesn’t prompt an exquisite, one-size-fits-all arrangement. Powerful initiative fluctuates dependent on conditions. While there is no sweeping solution to Pakistan’s authority issue, there is something to be acquired by thinking about Pakistan’s particular conditions. In the event that you have lived in Pakistan for any measure of time, you realize that inside our lines, things can change in a moment. A politician should be NIMBLE ACROSS SITUATIONS, disregarding consciences and permitting realities to the best characters. Undoubtedly, Pakistan has never been a country for the cowardly. Our flexibility is lauded and as it should be. Pakistanis suffer (and will proceed to do as such for quite a long time to come), yet the equivalent can’t be said about our authority. Boldness isn’t something that can be effortlessly ingrained. But, it is the need of great importance. Striking choices must be made, and intense people are the ones in particular who can settle on those choices. An adaptable and gallant politician may get us far, yet without fundamental knowledge, the bundle is fragmented. Crude insight and enthusiasm for rationale and thinking are required, however similarly as significant is an elevated degree of enthusiastic knowledge. Enthusiastic insight is needed to swim through the labyrinth of government. Our chiefs must have the option to manage leaders of state at the UN gatherings similarly as serenely as they can manage a huge landowner in Baluchistan who may have overstepped the law. The Pakistani public and the remainder of the world are slaves for mystique. On occasions such as these, we need a famous leader; not a Punjabi or a Sindhi chief, but rather a public one. The inquiry that normally follows from the piece above is how we might foster these characteristics later than leaders of our country. First and foremost, a Foreign Politician says, “understudy yourself to an expert skilled worker.” He accepts there is a lot to be gained from noticing experienced political leaders arranging the labyrinth of government. Also, he urges hopeful leaders to “wash up”. According to him, leaving your country for an impermanent period can refresh your viewpoint and help you break out of the endless loop of failure our administration framework has made. Third, He urges public authorities to practice. There is a characteristic inclination for public authorities to leave alternatives open as this is the thing that is best for their political aspirations. In any case, thus, government officials neglect to have an effect. To leave your imprint, you should zero in on something in which you can have an effect. All throughout the planet, residents are worried about their public initiative. Yet, there is trust. Streams’ appraisal of America holds here in Pakistan: “We live in a country of good individuals and insufficient government.” This situation is a condition of disequilibrium. Any understudy of financial aspects will reveal to you that disequilibrium is a shaky state over the long haul. As we anticipate the day we arrive at harmony — the day our country of good individuals is represented by viable administration — let us search for the three qualities above in the leaders of our future.

Current situation covid-19 in pakistan

COVID-19 As we all known about the current situation of pakistan. Pakistan has also bear coronavirus (covid-19) disease. As of now, it appears that COVID-19 is being spread by people who have been infected when they either sneeze, cough or exhale. The virus can spread from person to person through small droplets from the nose or mouth, as the droplets land on objects and surfaces around the person. When healthy people touch the objects or surfaces and then touch their eyes, nose or mouth they can catch the virus. They can also catch the virus if they breathe in droplets from a person with COVID-19 who coughs out or exhales droplets. Hence it is important to stay more than 1 meter (3 feet) away from a person who is sick. Research on other ways that the virus is being spread is ongoing at the moment. COVID-19 is an ongoing infectious global pandemic caused by the most recently discovered coronavirus. The virus was unknown until the outbreak began in Wuhan, China in December 2019. As of March 12, 2020, over 4500 people had perished from the disease and there were over 130,000 reported cases from around the world. Before the coronavirus outbreak in Pakistan, the first Pakistani student was registered COVID19 positive, he was studying in China, later five other cases were registered positive. All of them were successfully recovered after two weeks of treatment. Apart from China, another Pakistani was not only reported positive also die from the virus infection in Italy on 11th March 2020. Till date few other Pakistani were reported positive at different countries including Afghanistan (12th March 2020), Palestine (20th March 2020) and Gaza (21st March 2020). In Pakistan, from 3 January 2020 to 10:39am CEST, 26 May 2021, there have been 905,852 confirmed cases of COVID-19 with 20,400 deaths, reported to WHO. As of 20 May 2021, a total of 4,956,853 vaccine doses have been administered. The government announced a second spell of Covid-19 in Pakistan on October 28, 2020, when a daily increase in cases reached 750 compared to 400 to 500 a few weeks ago. Sudden increase in active cases from 6,000 to 11,000 and hospital admissions with critical cases of 93 on ventilators were recorded across the country [2]. The data released by the National Command and Operation Centre (NCOC) indicate that the current percent positivity rate is closed to 3 compared to the previous figure of less than 2 and the average number of deaths is exceeding 11 per day.The government is censuring the public for the rise and worsening situation of the pandemic in Pakistan by not observing standard operating procedures (SOPs)–apparently to mask its failure in not taking appropriate steps and decisions which led to the current situation. Now this time of The COVID-19 situation in Pakistan is once again getting precarious. Since the last two weeks the daily average death rate is near 125/day and daily confirmed cases have been above 4500. While the national positivity rate is +10%, many large cities show much higher positivity rates (Faisalabad 18%, Mardan 17%, Peshawar 16%, Karachi 14%, Lahore 13%, Multan 10.5% Rawalpindi 9%, Islamabad 9%) Major hospitals in larger cities are approaching full capacity. The 3rd wave, the government has announced re-imposition of the following social restrictions to avoid huge congregations during the End of Ramadan festivities: complete lockdown in all the larger cities from 8 May to 16 May; all commercial markets, amusement parks closed – complete ban on local tourism; all restaurants, community centers, marriage halls closed for indoor service, 50% work from home policy imposed – All sports, cultural and other social events banned – Schools closed till 23 May – local public transport shut down – Intercity travel shut down. Inbound international flights to be reduced by 80%. All inbound passengers will undergo a rapid antigen test on arrival. Those testing positive will be moved to government designated quarantine facilities for 10 days. Those testing negative will still have to self-isolate at home. Pakistan’s already fragile economy had only just been moving towards stability when the health crisis struck. Experts fear that the pandemic’s economic fallout will considerably derail the country’s recovery process. The pandemic has also taken a devastating blow on the Pakistani economy.”Pakistan’s economy is shrinking, unemployment is rising and various sectors are in crisis”. Pakistan’s exports primarily comprise of textile products. These exports are down since the COVID-19 crisis started, with some orders even being canceled. “All of this will negatively impact foreign reserves and ultimately the currency value. In the long run, financial markets will also be negatively affected,”  When Khan took power in 2018, Pakistan’s GDP growth was around 5.8%; now it is 0.98% and is likely to decline further. The country’s fiscal deficit is almost 10% and revenues have plummeted in the past two years.

How much taxes are applicable on transfer of property in pakistan

How much Taxes & Expenses are payable on transfer of property in Pakistan .Full detail of corruption of Revenue Department & Patwaries. On property transfer, the buyer has to pay different types of government taxes which have been increasing and decreasing in different periods. This article will cover this topic in detail. After the establishment of Pakistan, only limited stamp duty was paid on the property registry through stamp papers with 1% municipal tax and no other tax was levied but later various other taxes were also levied along with stamp duty. The federal government has started levying some taxes on the registry. The provincial government and local government ie TMA Municipal Committee / Corporation / Metropolitan and FBR i.e. Federal Board of Revenue have also levied taxes on property transfer. In 2010, the federal government also introduced a new type of tax, the CVT. The reason for this was that in order to give more autonomy to the provinces, the 18th Amendment to the Constitution of Pakistan was made, which transferred many other powers and resources to the provincial governments which were previously vested in the federal government. The amendment also gives the provinces the power to collect all taxes on property transfers. Taxes from property transfers were a major source of revenue for the federal government. Due to low revenue, the federal government illegally imposed first CVT and then FBR duty on transfers. Because only one type of tax can be imposed constitutionally, but the federal government used the excuse of its own income. But the cost of transferring property to the public has skyrocketed. Which went up to 7 to 8 per cent which was unbearable for the people which made a huge difference in the business of property transfer and also reduced the tax revenue collection of the government. A year ago in 2020, when the government realized its wrong planning, these taxes were halved. CVT was withdrawn . The new rates on transfer under the Finance Act 2020 is as follows. That is 1% stamp duty, 1% for tax filers and 2% for non-filers, percentage. TMA etc 1% duty .. Total 4/3%.For example, a transfer will cost a total of Property worth Rs. 1 million is Rs. 30,000 to Rs. 40,000. As the value of the property increases or decreases, the payment of taxes will also change. Property transfers are subject to 3% or 4% government taxes but other than that the registry cannot be done without paying a bribe in lacs of rupees to the finance department & Patwari . Even those with computerized land centers get their hands dirty with corruption and bribery. Sometimes they are caught red handed and later acquitted by most of the courts. Awareness about the rampant corruption and legal action in property transfer. ???? YouTube link. https://youtu.be/AHqH6dg8Yqg. Author … Arif karim advocate supreme court. 03225881820.

8 صحت مند چیزیں جو آپ کو اپنی روزانہ کھانے میں شامل کرنا چاہئے

ہمارے لئے کون سے کھانے کی چیزیں بہترین ہوسکتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ صحت مند زندگی کے لیے ہم کون سے کھانے کو اپنے روزمرہ کے کھانے میں شامل کرسکتے ہیں۔ ہمیں بار بار کہا گیا ہے کہ ہم اچھی غذا کھائیں ، اچھی خوراک لیں اور ہماری کیلوری کو متحرک کریں۔ جب کہ ہمیں پھلوں اور سبزیوں کی شکل میں بہترین کھانے پائے جاتے ہیں ، ہمیں خاص قسم کے صحت افزا کھانوں کا بھی پتہ چلتا ہے جو اچھے فائبر ، پروٹین اور صحت کی تشہیر کرتے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے محسوس کیا کہ باہر کا کھانا ہمارے لئے کبھی بہترین نہیں ہوتا ہے! پابند وقت کے ساتھ اور بہتر کھانے میں کچھ پوشیدہ عناصر ہوتے ہیں جو اکثر ہمارے جسم کو متوازن کرتے ہیں۔ متوازن قسم کا کھانا اور مناسب توانائی اور صلاحیت کا کھانا ایک اچھی زندگی گزارنے کی کلید ہے۔ اپنے یومیہ کھانے کو خوشگواربنانے کے لیے آپ کو عجیب پھل ، سبزیاں اور بیج ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آئیے ایک روزانہ صحت مند غذاوں پر ایک نگاہ ڈالیں جو آپ کی فٹنس کو متوازن رکھتا ہے۔ یہاں 8 صحت بخش کھانے ہیں جو آپ کو اپنی روزانہ کے کھانوں میں شامل کرنا چاہیئے:۔ 1. پالک: جیسا کہ ہم سب دیکھتے ہیں کہ پالک پروٹین ، فائبر اور معدنیات کی بہترین اصل ہے ، یہ سبز سبزی پودوں پر مبنی اومیگا تھری اور فولیٹ میں بھی بہت اچھی ہے ، یہ دونوں ہی دل کی بیماری ، ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر بہت سارے ایسے افراد ہیں جو پالک کے ذائقہ کا شکریہ ادا نہیں کرتے ہیں اور اسے کھانے کے بجائے چھوڑنے کے ذرائع ڈھونڈتے ہیں۔ 2. دہی: یہ ایک گھنا فائبر فوڈ ہے جو اپنی صحت کی مختلف نعمتوں کے لئے مشہور ہے۔ کیلشیم کی مقدار بہت زیادہ ہے ، اس سے ہماری ہڈیوں کی صحت مستحکم رہتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں ، یہ آپ کے لییکٹوز کی طاقت کو بڑھاتا ہے ، وزن کم کرسکتا ہے ، اور صحت کے مختلف پہلوؤں کو پروبائیوٹک حیاتیات سے ہم آہنگ کیا کرتا ہے۔ 3. انڈے: بہت سارے لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ آیا انڈے اچھے ہیں یا نہیں۔ اس کو حل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ غذا کی مقدار دیکھیں جو ہم انڈوں سے حاصل کرتے ہیں۔ مطالعہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ، ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ذریعہ ، ایک مکمل انڈے کی زردی 200 ملی گرام کولیسٹرول دیتا ہے وہ اضافی غذائیت بھی مہیا کرتے ہیں جو دل کی بیماری کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ 4.اخروٹ: گری دار میوے متعدد صحت مند عادات کی عادات کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ اخروٹ میں پولیوسنٹریٹ فیٹی ایسڈ بہت زیادہ ہیں . دلچسپ بات یہ ہے کہ اخروٹ میں الفا-لینولینک اور لینولک تیزاب ہوتا ہے جس میں انسداد سوزش عناصر ہوتے ہیں جو اندرونی اعضاء کی صحت کو متوازن رکھتے ہیں۔ 5. (oats)جئ: زیادہ جئ کھانا آپ کے فائبر کو بڑھانے کا ایک آسان طریقہ ہے۔ فائبر آپ کے آنتوں کے لئے بہترین ہے ، کولیسٹرول کو کم کرتا ہے ، بلڈ شوگر کو متوازن کرتا ہے اور آپ کو بھر پور رکھتا ہے۔ جئ کامل اناج ہیں ، اور روزانہ جئوں کو کوئی اضافی چینی مہیا نہیں ہوتی ہے ، جو آپ کے دن کا آغاز کرنے کے لئے بہتر خوراک بنتی ہے۔ Also Read 6. میٹھے آلو: یہ بیٹا کیروٹین سے بھرا ہوا ہے ، ایک اینٹی آکسیڈینٹ جو خون میں وٹامن اے کی سطح کو مناسب طور پر فروغ دیتا ہے۔ میٹھے آلو غذائیت سے بھرے ہوئے ہیں ، فائبر سے بھرپور ہیں اور محض سحر انگیز ہیں۔ انہیں مختلف طریقوں سے ، سیزلنگ ، بیکنگ ، ابلتے اور پین کے ساتھ بنایا جاسکتا ہے۔ ایک طرح سے میٹھا آلو وٹامن سی کی روزانہ مقدار میں تقریبا چار گنا مہیا کرتا ہے ، جس میں وٹامن سی ، بی 6 ، پوٹاشیم ، مینگنیج اور لوٹین شامل ہیں۔ 7. بروکولی: بروکولی سب کی پسند نہیں ہوسکتی ہے لیکن یہ ریشہ ، پروٹین ، پوٹاشیم ، کیلشیئم ، سیلینیم ، اور میگنیشیم کے علاوہ وٹامن اے ، سی ، ای ، کے اور بی وٹامنز کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ مختلف غذائی اجزاء بروکولی کو ایک ایسی سپر فوڈ بناتے ہیں جو ہڈیوں کی طاقت ، جلد ، اور آپ کے جسم میں انفیکشن کو کم کرنے کے لئے جانا جاتا ہے۔ 8. سنترے: سنترے ایک ایسا پھل ہے جس کو استعمال کرنے میں ہم سب لطف اٹھاتے ہیں۔ یہ وٹامن سی کا بہترین ذریعہ ہے ، جو سفید خون کے خلیوں اور اینٹی باڈیز کی تیاری کے لئے اہم ہے جو جنگ سوزش کی حمایت کرتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں ، یہ نرم پھل ایک غالب اینٹی آکسیڈینٹ بھی فراہم کرتا ہے جو خلیوں کو ورثے کی وجہ سے ہونے والے بربادی سے بچاتا ہے اور جلد کو چمکانے والے لچک کی تعمیر میں ایک لازمی حصہ رکھتا ہے۔

خالی بوتل کے بدلے سو روپے ملیں گے !

پولیوشن کے سبب تو شہروں میں بہت زیادہ ہیں .جن سے روز بروز مختلف بیماریاں جنم لے رہی ہیں. اور اس کو ختم کرنا بھی انسان کی اپنی ذمہ داری ہے ،، انہیں میں سے ایک خاص چیز، وہ ہیں ہماری مشرابات کی بوتلیں جو استعمال ہونے کے بعد پھینک دی جاتی ہیں اور جگہ جگہ کچرا ہو جاتا ہے اب اس کا حل بھی نکل آیا . پاکستان میں ،، پرائم منسٹر آف پاکستان ( عمران خان ) کی طرف ایک ویڈیو بھیجی گئی سنگاپور سے تو عمران خان نے وہ ویڈیو معاون خصوصی برائے محولیات امین اسلم صاحب کو فاروڑڈ کر دی اور کہا کہ اس حوالے سے پاکستان میں بھی کچھ ہونا چاہیے وہ ویڈیو کیا تھی آئیے آپ کو بتاتے ہیں آپ لوگوں نے اکثر ویڈیوز میں دیکھا ہو گا کہ کئ ایڈوانس ممالک میں پلاسٹک ری سائکل کرنے کے لیے بہت ساری ایسی مشینیں لگائی گئی ہیں جن میں آپ پلاسٹک کی بوتل پھینکتے ہیں اور بدلے میں آپ کو پیسے یا کسی بھی قسم کا انسینٹیو ملتا ہے جیسے آپ نے دیکھا ہو گا ایک مشین ہوتی ہے جس میں آپ پیسے ڈالیں تو اس کے بدلے کوئی بھی بوتل خرید سکتے ہیں اس کے اوپوزیٹ یہ مشین ہے ، تو اب پاکستان میں بھی سب سے پہلی ایسی مشین لگا دی گئی ہے جس میں آپ پلاسٹک کی بوتل پھینکے گے اور بدلے میں آپ کو سو روپے ملیں گے یا کچھ اینسنٹو ملے گا ، کس طرح یہ ہم آپ کو آگے چل کے بتائیں گے پہلے مشین کا کچھ تعارف ضروری ہے ، یہ سب سے پہلی مشین ہے جو ایکوافینا کی طرف سے اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں افتتاح کے طور پر لگائی گئی ہے اور آہستہ آہستہ سارے ملک میں لگانا شروع کر دی جائے گی اور خاص بات یہ کہ وقت کے ساتھ اس اینسیٹو میں کمی بھی نہیں آئی گی اگر سو روپے ہے تو سو روپے ہی رہے گا کم نہیں کیا جائے گا . نمبر1. اس مشین کا نام ہے( reverse vending mashine ) اور اس کا موٹیو ہے why waste when you can recycle ) نمبر2).پاکستان میں جو سب سے پہلی مشین بنائی گئی ہے اس مشین کو استعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی بھی خالی بوتل پلاسٹک کی اس مشین کے بنے ہوئے سوراخ میں ڈال دیں اور ساتھ ہی سٹارٹ کا بٹن دبا دیں تو وہ بوتل اندر چلی جائے گی اور اس کے بدلے مشین سے ایک کوپن نکلے گا جو وؤچر کے طور پر استعمال ہو گا اور اس پر لکھا ہوا ہو گا “we thank you for partcipating in aquafina,s sustain ability lnitiative . you may use this voucher to claim rps 100 off at any kfc outlet islamabad , recycle for tomorrow , terms and conditions apply “ اب اس کوپن کو آپ kfc میں لے جا کر استعمال کریں گے تو جو چیز بھی خریدیں گے تو 100 کا ڈسکاونٹ آپ کو مل جاے گا اور مزید اس کو سمجھاجارہا ہے ۔ نمبر3. اس کا فائدہ یہ ہے کہ جتنا بھی ویسٹ جنریٹ ہوتا ہے وہ ہم صرف ویسٹ ہی نہ کریں بلکہ اسے پک کریں دوسرا انوائرمنٹ صاف ہو گا تیسرا لوگوں میں اویرنس پیدا ہو گی چوتھا اینسینٹو ملے گا .بہرحال کلایمٹ چینج کے حوالے سے یہ بہت ہی کارآمد ثابت ہو گا جو کہ پاکستان کا گلوبلی ویژن ہے اور ہم اس پر پرائم منسٹر آف پاکستان اور تمام پاکستانیوں کو مبارک باد دیتے ہیں ! نوٹ ! میرا خیال یہ ہے کہ اس کا فائدہ ایک غریب آدمی کے بچے کو ہونا چاہیے جو kfc پر جا کر برگر نہیں کھا سکتا بلکہ سارا دن لگا کر کچرے سے بوتلیں اکھٹی کر کے 25 سے 30 روپے کلو کے اعتبار سے بیج دیتا ہے بھلا وہ کہاں kfc پر جا کر ڈسکاونٹ پر برگر کھائے گا تو یہ انسینٹو صرف امیروں کے لیے ہوا نہ کہ غریبوں کے لیے تو لہزا ایسا انسینٹو لایا جاے جس سے غریب کو بھی فائدہ ہو .شکریہ ( تحریر از اسامہ ظہور اسفرائینی )

کامیاب کاروبار کے راز

کاروبار سے کیسے پیسےکمائے جائیں؟؟ حضرت عبدالرحمان بن عوف بۂت بڑے تاجر تھے انھوں نے اپنا کاروبار پنیر کے دو ٹکڑوں سے شروع کیا تھا لیکن جب ان کی وفات ہوئی تو کئی ہزار من سونا ان کی ملکیت میں تھا .اور وہ سخاوت میں بھی بھت مشہور تھے. ان سے جب کاروبار کی ترقی کا پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں سامان ادھار نھیں لیتا ،سامان ادھار نھیں بیچتا ،اور کل سامان مہنگا ہونے کی امید پر سامان جمع نہیں کرتا ،تھوڑا سا بھی منافع ہو تو سامان بیچ دیتا ہوں. سبحان اللہ

قرض ۔۔۔۔۔ایک لعنت

میر ا پیا ر اوطن پا کستان اس وقت کئی مختلف مسائل اورمشکلا ت میں گھر ا ہواہے ۔اس کو غربت ، بےروزگاری ، مہنگائی، دہشت گردی اور تعلیم کے فقدان جیسے کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ اسکے علاوہ روز بہ روز بڑھتا ہوا بیرونی قرضہ ایک ایسا نا سور ہے جو کم یا ختم ہونے میں نہیں آرہا بلکہ ہماری حکومت تو اس قرض کے اوپر جو سود دینا ہے اس کی اقساط بھی دینے سے قاصر نظر آتی ہے ۔ ہما را دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہما رے مو جودہ وزیراعظم عمر ان خان صا حب نے دین اسلام کو اپنا تے ہو ئے پاکستان کو ریا ست مدینہ بنا نے کا دعویٰ بھی کیا تھا اور ابھی تک اکثر و بیشتر وہ اپنی تقاریر میں یہ بات دہراتے ہو ئے نظرآتے ہیں کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنا کر رہیں گے۔ لیکن ان کے اس دعوے کی کو ئی معمو لی سی جھلک بھی کہیں پر نظر نہیں آتی ۔ کیونکہ ریاست مدینہ یا کسی اسلامی ریاست میں صاحب استطاعت لو گوں پر اڑھا ئی فیصد کی شرح سے زکوٰۃ واجب تھی اور اسی سے تما م حکو متی امو ر کو چلا یا جا تا تھا اوراسی زکوٰۃ سے ہی بیت الما ل اور کئی دوسرے فلاحی اداروں سےیتیم، مسکین اور نادار لو گوں کی مدد کی جا تی تھی اور سرکاری اداروں کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی بڑی خوش اصلو بی سے ہوجا تی تھی۔ ہمار ی عوام جو کہ زکوٰۃ دینے سے دل چراتی ہے وہی عوام کئی قسم کے ٹیکس (بلواسطہ یا بلا واسطہ ) بڑی خوشی سے دے رہی ہے جس کی شرح زکوٰۃ سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ہروقت ہماراحکمران طبقہ اسی بات کا رونا رو رہا ہے کہ ہمار ے پاس کوئی وسا ئل نہیں ہیں اورہماری معاشی حالت اتنی مخدوش ہے کہ کوئی سرما یہ کاری کرنے کوتیا رنہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکمر ان کام ہی اپنے وسائل سے بڑھ کر کر تے ہیں بہت ساری غیر ضروری وزارتوں اور اخراجا ت کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ۔حکو مت کو چا ہیے کہ اپنے اخراجات اور آمدنی کا توازن برقراررکھے تاکہ ملکی معاملا ت چلا نے کے لئے کسی قسم کے بیرونی قرضے کی ضرورت ہی نہ پڑے – ہم بڑے دعوے سے خود کو مسلما ن کہتے ہیں یہ اوربات ہے کہ ہم نے خود کو ان تما م خوبیوں سے دور رکھا ہوا ہے جو مسلما نوں کا خا صہ تھیں ہم میں نہ تو صدق و صف با قی ہے اورنہ فقروغنا ۔ نہ کو ئی ابوذر  ہے نہ عثمان غنی  اور نہ ہی ہما رے حکمر ان عمر فاروق  یاعلی جیسے ہیں ۔ یہ وہ لو گ تھے جن کا دامن صا ف تھااور دوسروں کی پکڑ کر سکتے تھے اور خود کو ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے۔ بس یہی وجہ تھی کہ خوف خدا انہیں ہر غلط کام سے روک دیتا تھا۔ یہ عوام کو اپنا محتسب سمجھتے تھے اور خود کو ان کا خا دم۔ آج ہما ری یہ قدریں غیروں نے اپنا لی ہیں جب کہ ہم حرص، طمع اور ہل من مزید کے بندے بن کر رہ گئے ہیں ۔دوسرے ممالک خصوصاً غیر مسلموں سے قرض ما نگنا ہم نے اپنی عادت بنا لی ہے ۔ مانگی ہوئی جنت سے دوزخ کا عذاب اچھا کی بات تو درکنا ر ہم میں فردوس بریں پیداکرنے کی ہمت ہی ختم ہو گئی ہے ۔ حکومتی سطح پر بھی ہم نے ما نگ کر ادھا ر لے کر کا م چلا نے کی روش اپنا ئی ہو ئی ہے ۔ ہما رے بے حس حکمر انو ں نے کبھی اس قوم میں خودداری اور خودی پیداکر نے کی کو شش ہی نہیں کی۔ انہوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد کو قومی مفا د پر مقدم سمجھا ۔ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ حا صل کر نے کو بھی اپنی بہت بڑی کا میا بی گردانتے ہیں ۔ ورنہ ایسا نہیں ہے کہ اس قوم کے افرادی قوت یا قدرتی وسا ئل کی کمی رہی ہو۔ اس ملک کی زمین میں قدرت کی طر ف سے عنا ئت کردہ پو شیدہ خزا نے ان بائیس کروڑ انسانوں کے چوالیس کروڑ ہا تھو ں کے منتظر ہیں ۔ ضرورت صرف ان ہا تھوں کو کا م میں لا نے والے ذہنوں کی ہے اور بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہما رے ملک میں حکمر ان طبقہ اس کو اپنی ذمہ داریو ں میں شما ر نہیں کر تا۔ ایسے لگتا ہے. جیسے ملک کو عارضی بنیا دوں پر چلا یا جا رہا ہو ۔ قرض پر قرض لئے جا ر رہے ہیں اور پا کستان کا ہر شہری اس وقت ایک محتاط اندا زے کے مطا بق اتنی رقم کا مقروض ہے جتنی رقم (170000)شا ئد اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی ۔ بیر ونی قرضوں میں کمی ہو نے کی بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ اس سال بھی ان بیرونی قرضوں میں 40فیصد اضا فہ ہوا ہے ۔ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اسے کہیں پر بھی ترقیاتی کا مو ں پرخر چ نہیں کیا گیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سب طبقہ خواص میں خر چ ہو رہا ہے اور امیر امیر تر ہو تا جا رہا ہے ۔اس طبقے کو اس سے کو ئی فر ق نہیں پڑتا کہ آٹا سا ڑھے پا نچ سو روپے فی بیس کلو بڑھ کر ہزاریا گیا رہ سو تک کیسے پہنچا۔ کیا اس سے بڑے زمینداروں کے علا وہ بھی کسی کو فا ئد ہ ہواخاص کر وہ لوگ جو اکثریت میں ہیں اور آٹا خر ید کر کھاتے ہیں ۔ وہ کس حا ل میں ہیں کیا ان کی بہتری کے لئے بھی کوئی منصو بہ شر وع کیا گیا ۔ کچھ دن پہلے غریب عوام کے سروں پر چینی کا بم پھوڑا گیا شوگرملز مالکا ن کے سا تھ ہمدردیا ں جتائی گئیں ان کے مطالبا ت کے سا منے سر تسلیم خم کیا گیا۔ عوام پھر غریب رہے ان

زیادہ سوچنا کیوں؟؟؟

  زیادہ سوچناقطعًا بھی کوئی بُرا یا غلط کام نہیں ہے اصل مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ کی سوچیں کہیں جاکر پھنس جاتی ہیں .اور پھر آپ کسی سے مدد (انسان یا فطرت) بھی نہیں مانگتے ہیں۔ عام طور اس طرح کا رویہ عموماً اُن لوگوں میں پایا جاسکتا ہے. جو اپنے آپ کو ایک “مطلق انسان” سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ دراصل مطلق انسان وہ ہوتا ہے جو اپنی انا یعنی “میں” کے فولادی خول میں بند ہو جاتا ہے جس کے بعد کسی سے مدد مانگنا، چاہے وہ انسانوں سے مانگے یا پھر فطرت سے، اُس کے لیے موت جیسی لگنے لگتی ہے۔  اب وہ مطلق انسان اپنی “میں” میں سے نکل نہیں سکتا ہے اور دوسروں سے (انسان یا فطرت) مدد بھی نہیں مانگ سکتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک بند گلی میں پاتا ہے جہاں سے نکلنے کا واحد راستہ زندگی سے آزاد ہونا ہی اُسے سمجھ میں آتا ہے جس میں وہ کافی کشمکش میں سے گزرتے ہوے آخرکار وہ یہی فیصلہ کرتا ہے کہ اُس نے خود سے کوئی مدد نہیں مانگنی ہے لیکن اگر کوئی دوسرا اپنے طور پر مدد کرنے آ جاۓ تو وہ مدد لے لے گا مگر جب وہ کسی سوچ/معاملے میں پھنس جاتا ہے اور وہ خود سے کسی سے مدد نہیں مانگتا ہے اور کسی دوسرے کی مدد بھی نہیں پہنچتی ہے تو وہ آخر کار اپنے آپ سے لڑتے لڑتے اور کسی کا انتظار کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور پھر وہی کرتا ہے کہ جو ہم جانتے ہیں یعنی وہ اپنے آپ کو زندگی سے آزاد کرنے کی کوشش کرسکتا ہے یا کر لیتا ہے۔

آم کےفوائداوراحتیاط

آج کل آم کا موسم عروج پر ہے۔ آم ایک بے حد خوش ذائقہ پھل ہے جو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول پھلوں کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ آم کی کئی قسمیں ہیں جو اپنے ذائقہ و رنگ کی وجہ سے شمار کی جاتی ہیں مثلا توتاپری ،لنگڑا دسہری ،سندھڑی،چونسہ اور سرولی وغیرہ. آم ایک گرم مزاج پھل ہے اور کچا بھی بڑا مفید ہے۔ کیری کی صورت میں ابال کر اس کا رس نکال لیں اور کیوڑے اورشکرکے ساتھ ملا کر پئیں، لو سے محفوظ رہیں گے۔ آم بن جانے کی صورت میں اس میں بہت توانائی آجاتی ہے اور اسے کھانے والے بچے بھی اچھی نشونما پاتے ہیں۔ یہ دل ودماغ اور نظر کو قوت بخشتا ہے اور نظام ہضم کو درست رکھتا ہے۔ اس میں وٹامن اے، بی، سی ،پروٹین گلوکوز اور کیروٹین وغیرہ پائے جاتے ہیں ۔اس کے پھول پتے بیج اور چھال بھی کافی فائدہ مند ہوتی ہے۔آم کو دودھ کے ساتھ ملا کر شیک کی صورت میں پینے سے اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے ذائقہ دوبالا ہو جاتا ہے اور تاثیر معتدل ہوجاتی ہے۔ آم کھانے میں اعتدال بہت ضروری ہے یہ چونکہ ایک گرم مزاج پھل ہے اس لیے زیادہ کھانے کی صورت میں آپ کے منہ اور جسم پر بھی دانے نکل سکتے ہیں۔ اس لئے آم سے لطف اندوز ضرور ہوں مگر اعتدال سے۔

بیکنگ سوڈا اور سرکہ سے موٹاپے اور معدے کی بیماریوں کا علاج

ایپل سائیڈروینیگر اور بیکنگ سوڈا  دو ایسے قدرتی اجزاء ہیں جو انسانی جسم کی صحت برقرار رکھنے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ تقریبا 8000 سال پہلے مصری اقوام سرکے کا استعمال جراثیم کش دوا کےطور پہ کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ بیکنگ سوڈا کا استعمال صابن میں بھی کیا جاتا تھا۔ اور بعد میں اس کو نظام انہظام کے  مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ دانتوں کو چمکدار بنانے کے لیے ٹوتھ پیسٹس میں اس کا استعمال عام ہے۔ جسم کی بدبو کو دور کرنے کے لیے بیکنگ سوڈا اور کارن فلاور کو برابر مقدار میں ملا کےاستعمال کرنے سے تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ ایپل سایئڈر وینیگر  یا سیب کا سرکہ ہر گھر میں موجود ہوتا ہے لیکن اس کا استعمال زیادہ تر چایئنیز کھانوں میں کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔ ہمارے پیارے نبی پاک حضرت محمدﷺ کے فرمان کے مطابق ” سرکہ کیا ہی عمدہ سالن ہے۔ اے اللہ سرکہ میں برکت عطا کر اس لیے کہ مجھ سے پہلے یہ تمام انبیاء کا سالن تھا۔”  اور یہ بھی فرمایا کہ ”جس گھر میں سرکہ ہو وہ گھر محتاج نہی ہے۔”  اس کا مستقل استعمال وزن کم کرنے میں موثر ثابت ہوتا ہے۔ آج جس طرح ہم آپ کو بیکنگ پاقڈر اور ایپل سائیڈر وینیگر کے استعمال کا طریقہ بتائیں گے اس سے آپ کو موٹاپا کم کرنے، معدے کی تیزابیت کو دور کرنے، جسم کے خلیوں کی مرمت کرنے ، اور گردوں کی صفائی میں  کافی مدد ملے گی۔ لیکن بلڈ پریشر اورشوگر کے مریض اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیرہرگز استعمال نا کریں۔ اجزاء ایک کپ یا 250 ملی لیٹر نیم گرم پانی ایک کھانے کا چمچ ایپل سائیڈر وینیگر ایک چوتھائی کھانے کا چمچ  بیکنگ پاوڈر۔ یاد رہے کہ بیکنگ سوڈا استعمال نہی کرنا بیکنگ پاوڈ ر لینا ہے۔ ترکیب استعمال نیم گرم پانی میں ایپل سائیڈر وینیگر اور بیکنگ پاوڈر کو مکس کر لیں اور خالی پیٹ صبح نہار منہ ااستعمال کریں ۔ مہینے کے 15 دن استعمال کریں اور 15 دن وقفہ دیں۔ اس کے بعد پھر 15 دن استعمال کریں۔  اس کے تقریبا آدھے گھنٹے بعد اپنا معمول کا ناشتہ کریں۔ انشاءاللہ اس کے چند دنوں کے استعمال سے ہی آپ کو بہت سے جسمانی فوائد حاصل ہوں گے۔ آپ اس میں حسب ذائقہ شہد بھی ڈال سکتے ہیں۔

اداس چاند

اداس چاند  کیا ہوا آج بہت خاموش ہو چاند  چاندنی نے چاند کی طرف دیکھ کر کہا کچھ نہیں بس یوہی چاند  کوئی بات ہے چاندنی  نہیں ایسی کوئی بات نہیں چاند نے اداس ہوکے کہاکچھ تو بات ہے  چاندنی نے چاند کو دیکھ کر پوچھنے کی کوشش کی تمہیں پتا ہے جب اندھیرا چھا جاتا ہے جب سب اپنے اپنے گھروں میں اندھیروں میں گم ہو کے سونے چلے جاتے ہیں جب ہر طرف خاموشی ہوتی ہے تمہیں پتا ہے اس   بھری دنیا میں کچھ لوگ میری طرح کے بھی ہوتے ہیں تنہا اور اکیلے جب ہر طرف خاموشی ہوتی ہے تو کچھ لوگ مجھ سے باتیں کرتے ہیں کوئی اپنا دکھ سنا تا ہے تم کوئی خوش ہونے کی وجہ بتاتا ہے.   میں سب کی سنتا ہوں لیکن کچھ دنوں سے ایسا لگ رہا ہے لوگوں کی دنیا گھٹن زدہ ہو گئی ہے کبھی کوئی روتا سسکتا ہوا مجھے بتاتا ہے کہ  اے چاند تمہیں پتا ہے آج میں اتنا اداس کیوں ہو تو کبھی کوئی بتاتا ہے کہ اس میں اتنا خوش کیوں کچھ اس طرح ہیں پچھلے کچھ دنوں سے چل رہا ہے لیکن کوئی خوش نظر نہیں آ رہا کل ہی میں نے دیکھا ایک ماں نے اپنے چار بچوں کے ساتھ مل کر ندی میں چھلانگ لگادی  چھلانگ لگانے  تھوڑی دیر بعد   ہیں ان کی لاشیں مجھے پانی پر تیرتی ہوئی نظر آئیں صبح تک  صبح تک ان سب کی لاشیں وہیں پڑی ہوئی تھی کچھ لوگ آئے انہیں اٹھا کے لے  گئے میری طرح شاید انہیں بھی نہیں پتا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا کبھی کبھی لگتا ہے کہ میری روشنی صرف ان لوگوں کے لیے ہے  جو دنیا سے  چھپ جانا چاہتے ہیں یا پھر اپنی بے بسی کو چھپانے کے لئے میری مدد سے ان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو کر مر جانا چاہتے ہیں میں دنیا کو کیوں ہوگیا ہے ہر طرف صرف غم دکھائی دیتا ہے خوشیاں تو جیسے ان لوگوں سے روٹھ گئی ہو کبھی کوئی کچھ کھو دینے کا غم منا آتا ہے تو کبھی کوئی کچھ پا کر بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے. آج کل دنیا میں جیسے کوئی خوش ہی نہیں امیر سکون کے لیے رو رہاہے تو غریب بھوک مٹانے کے لیے ہر کوئی الجھا ہوا ہے پہلے ایسی بھی دن ہوا کرتے تھے جب لوگ سونے لگتے تھے تو پہلے مجھے دیکھ کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے تھے پر مجھے دیکھ کر بتاتا تجھے پتا ہے آج میں بہت خوش ہوں آج میری پڑھائی کمپلیٹ ہو گئے آج کے بعد صبح جلدی اٹھنے کا جھنجھٹ ختم تمہیں شب بخیر کہنے کے بعد سیدھا سورج ماموں کو  صبح بخیر کی گے تو کوئی اپنی کامیابی کی خوشی بتاتا تھا کوئی اپنی پسند کی پسند سے شادی کرلی کے بعد میری طرف دیکھ کر اپنی محبت کا قصہ سنا دیا کرتا تھا تو کبھی کوئی محبت میں ناکام  ہونے کا سوگ منانے کے لیے بے قراری سے میرا انتظار کرتا تھا اب تو نہ خوشی ہے نہ ہی وہ چھوٹے موٹے  غم  اب تو صرف اداسیوں کے  ڈھیر  بکھرے پڑے نظر آتے ہیں نہ کسی رشتے کا وجود ہے اور نہ ہی کسی انسانیت کا احساس تم دیکھ رہے ہو خوش کوئی بھی نہیں ہے  نہ دکھ دینے والا اور نہ کسی کا دکھ سینے والا ہر کوئی اپنے میں مگن ہے سینے میں چھپائے راز کسی زندہ لاش کی طرح چلتے پھرتے یہ انسان نہ جانے کیا چاہتے نہ انہیں اپنی خوشی کی پرواہ  ہے نہ کسی اور کے غم کا احساس ہر طرف جیسے میں بکھری پڑی ہیں اداسیاں۔ غم۔ بے قراریاں  پر تم اتنے اداس کیوں ہو رہے ہو چاندنی نے حیران ہو کر پوچھا یہ سب دیکھنے کی عادت نہیں ہے نہ بس اس لئے شائد  چاند نے اداس ہو کر کہا اچھا کہ تم بالکل ٹھیک رہے ہو اللہ تعالی کی ذات ہے نا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا تم پریشان مت ہو چلو بھٹو چلنے کی تیاری کرو  سورج کے آنے کا وقت ہو گیا ہے اچھا مجھے تو وقت کا احساس ہی نہیں ہوا کہاں سے گزر گیا تم اپنی اداسی میں اتنے کھوئے ہوئے تھے تو میں وقت کا احساس نہیں ہوا چلو اب گھر چلیں ہاں چلتے ہیں چاند نے کہا اس کے بعد وہ اپنی راہ پر چل دیے

دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد ہم خود کو کیسے پُرسکون کر سکتے ہیں؟

آج کل اپنی زندگی میں ہر کوئی مصروف ہے اور زندگی بہت تیزی سے بھاگ رہی ہے۔کچھ لوگوں کی روٹین بہت ذیادہ ٹف ہوتی ہے۔ایک بہت ذیادہ مصروف دن کے بعد ہر انسان کی کوشش ہوتی ہے کے   وہ پرسکون محسوس کرے۔کیونکہ مصروفیت کے بعد اگر مکمل آرام نہ کیا جائے تو بہت سے دماغی اور جسمانی امراض لاحق ہو سکتے ہیں جیسا کہ۔۔۔۔ Depression, Anxiety, Hypertension, stress, Fatigue ہم یہاں اپ کو بتائے گے کہ کس طرح ہم دن بھر کی مصروفیات کے بعد خود کو پرسکون رکھ سکتے ہیں ۔ 1 سب سے پہلے ایک شیڈول بنائیں کے دن بھر کی مصروفیت کے بعد اپ کو کون کونسی چیزیں پرسکون رکھ سکتی ہیں کیونکہ شیڈول بنانے کی وجہ سے اپ مکمل طور پر آگاہ رہے گے اپ کو اب کیا کرنا ہے ۔اگر آپ شیڈول نہیں بناۓ گے تو اپ دن بھر کے سٹریٹ سے چھٹکارہ نہیں حاصل کر سکتے۔ 2 جب اپ دن بھر تھک جانے کے بعد گھر آئیں تو اپنے آفس ورک یا جو بھی اپ کام کرتے ہیں اس کو بھول جائیں۔گھر پر کام کا کوئی سٹریس نی لیں اور کہیں نو مور ورک ۔اپنا وقت گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ گزاریں ۔ 3 جب گھر آئیں سب سے پہلے اپنے کپڑیں تبدیل کریں اور اچھے سے شاور لیں اور وہ کپڑیں پہنے جن میں اپ ایزی اور ہلکا پھلکا محسوس کریں۔اس کے بعد اپ خود بھی اچھا محسوس کریں گے۔ 4 اپنی اس روٹین میں کچھ ورک آؤٹ کو بھی شامل کریں۔روزانہ کی بنیاد پر ورزش کریں۔ورزش اپ کے دل کو مضبوط کرتی ہے اور خون کی گردش پڑھاتی ہے۔ورزش کے بعد اپ کا دن بھر کا سٹریس لیول بھی کم ہو گا۔روزانہ کی ورزش اپ کے ویٹ کو اور بلڈ پریشر خود بھی کنٹرول میں رکھتی ہے۔اپ کو نیند بھی پرسکون آئے گی۔ 5 کچھ وقت اپنے دوستوں کے ساتھ گزاریں اپنی فیملی کے ساتھ گزاریں۔جب اپ اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارے ہیں یہ اپ کے اندر خوشی پیدا کرتا ہے اور اپ کی انرجی کو بوسٹ کرتا ہے۔اور دن بھر کی تھکاوٹ اور مصروفیت کو بھولا دیتا ہے۔ 6 جب اپ دن بھر کی تھکاوٹ اور مصروفیت سے چھٹی لے تو اپنے موبائل فون کو بھول جائیں۔اور سوشل میڈیا کو اواڈ کریں۔کیونکہ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے اپ مکمل طور پر آرام نہیں کرسکتے ہیں۔کیونکہ کچھ ڈرامہ اور خبریں ہمیں اور بھی افسردہ کر دیتی ہیں۔ 7 جن کو کتابیں پڑھنے کا شوق ہے وہ کچھ اچھی اور معیاری کتابیں پڑھ لیں۔کیونکہ محتلف ریسرچییز کہتی سونے سے پہلے کتابیں پڑھنا سٹریس اور اضطرابی کو کم کرتا ہے۔ 8 اور اپنے سونے کا ایک وقت مقرر کر لیں سونے سے پہلے ذیادہ نہ کھائیں اورنہ ہی کافی لیں۔اپ کو وقت پر سونے کے لیں خود کو پابند کرنا ہے تاکہ اچھی اور صحت مند زندگی گزار سکیں اور دن بھر کی تھکاوٹ کو دور کر سکیں۔  

گرمی سے بچاؤ

اگر آپ کو تھکاوٹ یا کمزوری محسوس ہو تو آرام کرو۔lآگاہ رہیں کہ کچھ دوائیں آپ کو پانی کی کمی کا زیادہ خطرہ بناتی ہیں۔ ٹوپی اور ہلکے رنگ کے لباس پہنیں.اپنے گلے میں گیلے تولیے لگائیں یا گیلے سر بند باندھیں۔اگر ہوا کا درجہ حرارت 95 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ ہے تو ، شائقین ٹھنڈا ہونے میں غیر موثر ہو سکتے ہیں۔ اس کے بجائے ائر کنڈیشنگ کا استعمال کریں۔ س موسم گرما میں 90 کی دہائی میں مستقل طور پر شمال مشرق میں درجہ حرارت کے ساتھ ، ایک تیز آغاز ہے ، جس میں پناہ اور ٹھنڈا رہنے کی ضرورت کی حقیقت کے ساتھ عجیب و غریب تنازعات میں زبردست بیرونی مقام میں فائدہ اٹھانا ہے۔ ڈاکٹر یلیکس ہالپرن ، نیو یارک-پریسبیٹیرین / ویل کارنل میڈیکل سینٹر میں معاون ڈاکٹر اور ویل کارنل میڈیسن میں کلینیکل میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر ، کا کہنا ہے کہ گرمی سے نمٹنے کا ایک سب سے مشکل پہلو یہ ہے کہ لوگ اکثر یہ نہیں جانتے ہیں کہ کب وہ پانی کی کمی یا زیادہ گرم ہو رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ گرمی کی تھکن کا سبب بن سکتا ہے ، جو پریشانی کا احساس پیدا کرسکتا ہے اور دل کی دھڑکن کی دھڑکن کو کمزور کرنے “ڈاکٹر ہالپرن کا کہنا ہے کہ “اس وجہ سے ، وقت سے پہلے ان چیزوں کے بارے میں سوچنا اور ان کے لئے منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے ، یا صرف باہر سے بچنا چاہئے۔”  الکوحل ، کیفین ، سوڈا ، یا پھلوں کا رس پینے سے پرہیز کریں ، یہ سب پانی کی کمی کی وجہاپنے معمول کے پانی یا کھیل کے مشروبات سے زیادہ پی کر اپنے جسم سے کھوئے ہوئے سیالوں کو تبدیل کرنے میں مدد کریں۔ورزش اور مشقت کی دیگر اقسام کو صبح کے وقت یا شام کے وقت ، ٹھنڈے ادوار تک محدود کرنے کی کوشش

علم نجوم: سچ یا جھوٹ؟

عالمی آبادی کا ایک نمایاں حصہ علم نجوم پر یقین رکھتا ہے، جس کا یہ کہنا ہے کہ رات کے وقت آسمان میں دکھائی دینے والے ستاروں اور سیاروں کی پوزیشنز زمین پر رونما ہونے والے واقعات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ مغربی نجومیات کے مطابق سیاروں کی مدارالشمس پر پوزیشنز اور رقم کے 12 کانسٹلیشنز کے ساتھ ان کا مقامی تعلق ایک اتفاق نہیں ہے، جیسا کہ سائنس کہتی ہے۔ نجومیات کہتی ہے کہ آپ کی پیدائش کے وقت سیاروں کی آسمان میں پوزیشن آپ کی شخصیت کے پہلوؤں کا تعین کرتی ہے اور کسی بھی مخصوص دن ان کی پوزیشن آپ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا تعین کرتی ہے۔ کیا ان دعوؤں میں کوئی حقیقت ہے؟ بالکل نہیں اور میں وضاحت کروں گا کہ ایسا کیوں ہے۔نجومیات کا دعویٰ ہے کہ سیاروں اور ستاروں کی پوزیشنز ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیسے؟ ہزاروں سال پہلے جب ان سیاروں کو خدا مانا جاتا تھا، تو شاید اس کو “جادو!” کہنا ہی کافی ہوتا تھا۔ لیکن جدید دور میں ہمارے پاس سائنس ہے۔ ہمارے پاس آلہ سازی ہے۔ ہمارے پاس کائنات کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ لہذا اگر نجومیات حقیقی علم ہے تو ہمیں یہ جاننے کے قابل ہونا چاہئے کہ یہ کس طرح کام کرتا ہے۔ ان سیاروں کی وجہ سے زمین اور اس پر موجود لوگوں پر کس قسم کا اثر و رسوخ پیدا ہوتا ہے؟ کائنات میں چار بنیادی قوتیں ہیں۔ مضبوط جوہری قوت، کمزور جوہری قوت، برقی مقناطیسی قوت اور کشش ثقل۔ جوہری قوتیں جوہری پیمانے پر کام کرتی ہیں اور اسی وجہ سے یہ ہمیں متاثر نہیں کر سکتیں۔ برقی مقناطیسی قوت اور کشش ثقل کی فاصلے کے لحاظ سے کوئی حد نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ ہم ان دو قوتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسی مساواتیں ہیں جو ہمیں دو چیزوں کے مابین برقی مقناطیسی قوت یا کشش ثقل کی شدت کا حساب لگانے کے قابل بناتی ہیں۔ ان مساواتوں کے مطابق رات کے آسمان میں نظر آنے والے ستارے ناقابل یقین حد تک دور ہیں اور پس وہ ہم پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ یہاں تک کہ ہمارے نظام شمسی میں موجود سیاروں کی وجہ سے بھی ہم پر بہت محدود اثر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر جوپیٹر کی طاقتور مقناطیسی فیلڈ ساتھ والے کمرے میں موجود ٹوسٹر کی مقناطیسی فیلڈ کے مقابلے میں آپ پر قدرے کم اثر انداز ہوتی ہے۔ ان سیاروں کی کشش ثقل آپ کے گیراج میں موجود کار سے بھی کم قوت کے ساتھ آپ کو کھینچتی ہے۔ لہذا اگر ان چار قوتوں میں سے کسی کو بھی نجومیات کے طریقہ کار یا میکانزم کے طور پر تجویز کیا جاتا ہے تو معاملہ تو ادھر ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ یہ قوتیں ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں تو کشش ثقل پیدائش کے وقت آپ کی شخصیت کا تعین کیسے کرسکتی ہے؟ ہماری شخصیت کا فیصلہ ہماری جینیات یا جنیٹکس کرتی ہے۔ نجومیات کا جنیٹکس سے کیا تعلق ہے؟ جواب بہت آسان ہے۔ اس کا جنیٹکس سے کوئی تعلق نہیں۔ علم نجوم بیالوجی کے علم سے پرانا ہے۔ یہ جدید سائنس سے بھی کافی پرانا ہے۔ علم نجوم محض ایک قدیم توہم پرستی ہے، جو ایسے وقت میں مرتب ہوئی جب ہم سمجھتے تھے کہ زمین کائنات کے مرکز میں ہے۔ رقم کی علامتوں یا کانسٹلیشنز کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہ محض خیالی تصاویر ہیں۔ نجومیات ایک جعلی سائنس ہے۔ دوسری طرف علم فلکیات ایک اصل سائنس ہے۔ دنیا کے ہزاروں ماہر فلکیات میں سے صفر ماہر فلکیات علم نجوم پر یقین رکھتے ہیں۔ 10 میں سے 10 خلائی سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ علم نجوم میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ شاید آپ کو ان باتوں پر یقین نہیں آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ مساوات کو نہیں سمجھتے اور آپ کو سائنس دانوں پر اعتماد نہیں ہے۔ آئیے ہم آگے چلیں اور اس مفروضے کے تحت کام کریں کہ علم نجوم سچا ہے اور ہم ابھی تک اس کے طریقہ کار کو سمجھتے نہیں ہیں۔ اگر علم نجوم سچ ہے تو پھر نجومی ماہرین کو ایسی پیش گوئیاں کرنے کے قابل ہونا چاہئے جو حقیقت سے منسلک ہوں، جیسا کہ ہم سائنس میں کامیابی کے ساتھ کرتے ہیں۔ مختلف قسم کے تجربات کیے جاچکے ہیں۔ ان تجربات میں نجومیوں سے کہا گیا کہ وہ نفسیاتی پروفائلز کی بنیاد پر لوگوں کو ان کے چارٹ سے ملائیں۔ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ ممکن ہے آپ کو لگتا ہو کہ وہ جعلی نجومی ہیں اور کچھ بھی جانتے نہیں ہیں۔ دیگر تجربات میں سینکڑوں ایسے افراد لیے گئے جن کے پیدائش کے اوقات میں صرف چند لمحات کا ہی فرق تھا، جو اب بالغ ہیں اور ان کی خصوصیات کی ایک بہت بڑی جانچ پڑتال کی گئی۔ آسمان ان تمام لوگوں کی پیدائش کے وقت ایک جیسا تھا۔ پس علم نجوم کے مطابق ان کے درمیان کچھ مماثلت لازمی ہونی چاہئے۔ لیکن ان لوگوں کے خصائل میں کوئی مماثلت نہ مل سکی۔ مزید برآں، ہوروسکوپ ایک بے معنی اور غیر واضح چیز ہے۔ ہوروسکوپس منفی خصوصیات سے زیادہ مثبت خصوصیات کی فہرست دیتے ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنے آپ کو ہمدرد ، تخلیقی اور عقلمند سمجھے گا۔ ہوروسکوپس میں کوئی خاص معلومات نہیں ہوتی۔ ہوروسکوپس ہمیشہ ایسی چیزیں کہتے ہیں جیسے “آج آپ کو ایک اہم موقع ملے گا” ، “آپ کسی سے دوبارہ رابطہ کریں گے” ، “آپ کو آج ہی فیصلہ لینا پڑے گا”۔ یہ چیزیں تو ہر فرد پر ہر دن لاگو ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علم نجوم ایک جھوٹا علم ہے۔ منطقی ذہن رکھنے والے ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہئے کہ علم نجوم میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ شاید آپ یہ سمجھتے ہوں کہ علم نجوم بے ضرر ضرور ہے، بے شک غلط ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ جعلی سائنس بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، خاص کر جب اقتدار میں رہنے والے لوگ اس پر یقین رکھتے ہوں۔ علم نجوم جیسی چیزیں ہمیں منطق کا استعمال کرنے سے روکتی ہیں اور منطق باخبر

پراپرٹی ٹرانسفر پر ٹیکسز اور اخراجات کی تفصیل ۔تحصیلدار پٹواری اراضی سنٹر کی کرپشن

پراپرٹی ٹرانسفر پر ٹیکسز اور اخراجات۔ محکمہ ریوینیو ، پٹواریوں کی کرپشن کی مکمل تفصیل ۔ جاٸیداد ٹرانسفر پر خریدار کو مختلف قسم کے گورنمنٹ ٹیکسز ادا کرنے پڑتے ھیں جن کی شرح مختلف ادوار میں کم اور زیادہ ھوتی رھی ھے ۔ اس آرٹیکل میں اس موضوع پرتفصیلی روشنی ڈالی جاۓ گی ۔ قیام پاکستان کے بعد جاٸداد رجسٹری پر صرف محدود سٹیمپ ڈیوٹی ، سٹیمپ پیپرز کے ذریعے ادا کی جاتی تھی معہ 1% بلدیہ ٹیکس اور اسکے علاوہ کوٸی دیگر ٹیکس لاگو نہیں تھا لیکن بعد میں سٹیمپ ڈیوٹی کے ساتھ مختلف طرح کے دیگر ٹیکسز بھی وصول کٸےجانے لگے ۔ رجسٹری پرکچھ ٹیکسز فیڈرل گورنمنٹ نے وصول کرنا شروع کٸے ۔صوباٸی حکومت اور لوکل گورنمنٹ یعنی ٹی ایم اے میونسپل کمیٹی/ کارپوریشن/ میٹروپولیٹن اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو نے بھی پراپرٹی ٹرانسفر پر ٹیکسز عاٸد کردٸیے ۔ سال 2010 میں ایک نٸی قسم کا ٹیکس وفاقی گورنمنٹ نے یعنی کیپیٹل ویلیو ٹیکس بھی نافذ کر دیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ صوبوں کو زیادہ خود مختاری دینے کے لٸے آٸین پاکستان میں 18ویں ترمیم کی گٸی جس کی رو سے بہت سے دیگر اختیارات و وساٸل صوباٸی حکومتوں کو منتقل کر دٸیے گٸے جو پہلے وفاقی حکومت کے پاس تھے ۔ اس ترمیم سے پراپرٹی منتقلی پر تمام ٹیکسز وصولی کا اختیار بھی پراونسز کو دے دیا گیا ۔ وفاقی حکومت کے لٸے آمدن کا بہت بڑا ذریعہ پراپرٹی ٹرانسفر سے وصول ھونیوالے ٹیکسز تھے ۔ محصولات کم ھونے پر وفاقی حکومت نے غیر آٸینی طور پر ٹرانسفر پر سی وی ٹی اور پھر ایف بی آر ڈیوٹی عاٸدکردی – کیونکہ آٸینی طور پر صرف ایک طرح کا ٹیکس نافذ کیا جا سکتا ھے مگر وفاقی حکومت نے اپنی آمدن کا بہانہ تراش لیا ۔ لیکن عوام پر پراپرٹی ٹرانسفر پراٹھنے والے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ھو گیا ۔ جو کہ 7 تا 8 پرسینٹ پر چلے گٸے جو کہ عوام کے لٸے برداشت کرنامشکل تھا جس سے پراپرٹی ٹرانسفر کے بزنس پر بھی بہت فرق پڑا اور حکومت کی ٹیکس ریوینیو کلیکشن بھی بہت کم ھو گٸی ۔ ایک سال پہلے 2020 میں حکومت کو اپنی غلط پلاننگ کا احساس ھوا تو سی وی ٹی ختم، ٹیکسز کو آدھا کر دیا گیا ۔ ٹرانسفر پر فنانس ایکٹ 2020 کے مطابق نٸی شرح اسطرح ھے ۔ یعنی1 % سٹیمپ ڈیوٹی ، ٹیکس فاٸلر کے لٸے 1% اور نان فاٸلر کے لٸے 2% ، ۔ 1% ٹی ایم اے ڈیوٹی % ٹوٹل تین یا 4 مثلاً ٹرانسفر پر ایک لاکھ پراپرٹی مالیت پر ٹوٹل 3/4 ھزار روپے خرچہ آٸے گا ۔ 10 لاکھ مالیت جاٸیداد پر 30/ 40 ھزار خرچہ آٸے گا اسی نسبت سے مالیت کم و بیش ھونے سے ٹیکسز اداٸیگی بھی تبدیل ھوگی ۔ پراپرٹی ٹرانسفر پر 3 یا 4 % گورنمنٹ ٹیکسز لگتے ھیں مگر اسکے علاوہ محکمہ مال کو رشوت دٸیے بغیر رجسٹری نہیں ھو سکتی؟ پٹواری لاکھوں روپے میں فرد جاری کرتا ھے کمپیوٹراٸیزڈ اراضی سنٹرز والے بھی کرپشن و رشوت سے اپنے ھاتھ رنگتے ھیں ۔ کبھی کبھی رنگے ھاتھوں پکڑے بھی جاتے ھیں اور بعد می زیادہ تر عدالتوں سے بری بھی ھو جاتے ھیں ۔ پراپرٹی ٹرانسفر میں تحصیلدار اور دیگران کی غضبناک کرپشن کے ھوشربا حقائق اور قانونی چارہ جوٸی ۔ ???? یوٹیوب لنک ۔ https://youtu.be/AHqH6dg8Yqg ۔ تحصیلدار منیر خان کی کرپشن پر نیوز رپورٹ ۔???? https://www.facebook.com/groups/jhelumforum/permalink/412928406550658/ Author … Arif karim advocate supreme court . 03225881820 .

سونے نے کیا پاکستان میں شادیوں کا خا تمہ

پاکستان میں سونے کی قیمت میں نظر ایا بہت زیادہ اضافہ فی تولہ قیمت 2ہزار850 روپے کا اضافہ دیکھا گیا ہے .سونے کی قیمت فی تولہ 1لاکھ 12ہزار 750 روپے تک پہنچ گئی ہے جبکہ 10گرام سونے کی قیمت 96ہزار 665روپے کی بلند ترین مقام پر ہے .جس کی وجہ سے سونے کے کاریگر بے روزگار ہو چکے ہیں اور شادی بیاہ میں بھی اس کا استعمال کم سے کم ہوتا جا رہا ہے.