انسان کی ارتقائی تاریخ کی باقیات

In عوام کی آواز
May 22, 2021
انسان کی ارتقائی تاریخ کی باقیات

انسانی جسم بہت سارے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ تمام اعضاء اپنا مخصوص کام سرانجام دیتے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے جسم میں ایسے درجنوں اعضاء، پٹھے, ہڈیاں وغیرہ موجود ہیں جن کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہوتی؟ ہمارے جسم کے ایسے تمام تر حصے ہماری ارتقائی تاریخ کی باقیات ہیں۔ ایسے اعضاء کو ویسٹیجیئل آرگنز کہتے ہیں۔ ایسے اعضاء ہر جاندار میں موجود ہوتے ہیں. یہ اعضاء ان جانداروں کے قدیم آباؤ اجداد کے لئے تو کارآمد تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ارتقائی تبدیلیوں نے کچھ اعضاء کو ناکام بنادیا۔ چلیں انسانی جسم میں موجود چند ایسے اعضاء کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔

آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ چار پیروں پر چلنے والے تمام جاندار ایک دم رکھتے ہیں جو کہ توازن برقرار رکھنے میں ان کی مدد کرتی ہے۔ انسان چار پیروں پر نہیں چلتے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ہماری ریڑھ کی ہڈی کے آخر میں ایک ٹیل بون موجود ہوتی ہے۔ تمام جانداروں میں دم کا آغاز اسی ہڈی سے ہوتا ہے۔ مزیدبرآں اکثر اوقات جب انسان ماں کے پیٹ میں اپنے چھٹے ہفتے میں ہوتا ہے تو اس کی ایک چھوٹی سی دم نکلنا شروع ہوجاتی ہے جس میں تمام ہڈیاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ کچھ ہفتے بعد یہ دم غائب ہوجاتی ہے اور اس میں موجود ہڈیاں اکٹھی ہوکر ایک واحد ہڈی بن جاتی ہیں جس کو ٹیل بون یا کاکسکس کہتے ہیں. بعض اوقات بچہ دم کے ساتھ ہی پیدا ہوجاتا ہے اور اس صورت میں دم کو سرجری کے ذریعے ہٹا دیا جاتا ہے۔

بہت سے جاندار اپنے کان کو حرکت دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جیسے کہ بلیاں اور کتے۔ ان جانداروں کے کانوں کے بیرونی حصے میں ایسے پٹھے موجود ہوتے ہیں جو ان کے کان کو حرکت دیتے ہیں۔ ان پٹھوں کو آریکیولر مسلز کہا جاتا ہے۔ ان حرکات کا مقصد آتی ہوئی آواز کی سمت کی طرف کان کا رخ کرنا ہوتا ہے. ایک بلی اپنے کان کا رخ اس جانب موڑ سکتی ہے جس جانب سے آواز آرہی ہوتی ہے۔ یہ صلاحیت شکار کرتے وقت ان کو مدد دیتی ہے۔ ان حرکات کا ایک مقصد جذبات کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ تقریباً 22 فیصد انسانوں میں یہی پٹھے موجود ہوتے ہیں۔ ان پٹھوں کی انسان کو کوئی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اگر ہمیں ضرورت ہوتی تو یہ پٹھے تمام انسانوں میں پائے جاتے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ پس آریکیولر مسلز بھی ایک ویسٹیجیئل آرگن ہے کیونکہ انسانوں میں یہ وہ کام سرانجام نہیں دے رہا جس کے لئے یہ وجود میں آیا۔

ہمارے پیٹ کے نچلے حصے میں بھی ایک ویسٹیجیئل آرگن موجود ہوتا ہے۔ ہماری بڑی آنت کے آخر میں ایک تنگ سی انگلی نما چیز ہوتی ہے جسے ہم اپینڈکس کہتے ہیں۔ یہ آرگن گھاس اور پتے کھانے والے جانداروں میں موجود ہوتا ہے۔ ان کی اپینڈکس ہماری اپینڈکس سے قدرے بڑی ہوتی ہے اور اس میں ایسے خوردبینی جاندار موجود ہوتے ہیں جو گھاس اور پتے ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان تو گھاس اور پتے نہیں کھاتے۔ ہمارے پیٹ میں اپینڈکس ہونے کا کیا مقصد ہے؟ یہ آرگن بھی ہماری ارتقائی تاریخ کی باقیات میں سے ہے۔ اس کے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے قدیم آباؤ اجداد ایسے جاندار تھے جو گھاس اور پتے کچے کھایا کرتے تھے۔ پس انہیں اس آرگن کی ضرورت تھی لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانوں کی غذا بدل گئی۔ غذا بدلنے کا ثبوت ہماری عقل داڑھ ہے جو خود ایک ویسٹیجیئل آرگن ہے۔ پس ہمارا اپینڈکس وقت کے ساتھ ایک ناکارہ عضو بن گیا۔ چونکہ انسانوں میں یہ ناکارہ ہوچکا ہے تو اس کو اگر سرجری کے ذریعے نکال بھی دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ اگر ایک نومولود بچے کی ہتھیلی میں انگلی یا کوئی بھی چیز رکھی جائے تو وہ اپنی مٹھی فوراً بند کرلیتا ہے اور اس کی پکڑ کافی مضبوط ہوتی ہے۔ اس برتاؤ کو سائنس میں پالمر گراسپ ریفلیکس کہتے ہیں۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے تو یہ ریفلیکس ختم ہوجاتا ہے۔ یہی برتاؤ بندروں کے بچوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ بندر کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ مضبوطی سے چپکا ہوتا ہے۔ اس ریفلیکس کا استعمال کرکے بندر کا بچہ اپنی ماں کے جسمانی بالوں کو مضبوطی سے تھامے رکھتا ہے۔ یہ خوبی تمام پرائمیٹ میملز میں پائی جاتی ہے۔ پرائمیٹ میملز میں انسان، بندر، چپمینزی، گوریلا، اورینگوٹن وغیرہ شامل ہیں۔ پرائمیٹس کا بچہ پیدائش کے بعد کچھ عرصے تک کمزور ہوتا ہے، اپنا دفاع نہیں کرسکتا اور بقاء کیلئے اپنے والدین پر منحصر ہوتا ہے۔ بندروں اور چمپینزیز وغیرہ میں اس ریفلیکس کا موجود ہونا سمجھ آتا ہے لیکن انسانوں میں اس کے ہونے کی کیا منطق ہے؟ انسانی نومولود بچوں کو بندر کے نومولود بچوں کی طرح جنگلی جانوروں سے خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی انسانی ماں کے جسم پر گھنے بال ہوتے ہیں جن کو بچہ تھام سکے۔ یہ ایک ویسٹیجیئل برتاؤ ہے۔ پس یہ برتاؤ بھی ہماری ارتقائی تاریخ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

کیونکر ہمارے جسم میں درجنوں ایسے اعضاء موجود ہیں جن کے وجود کی وضاحت دینے کیلئے ارتقائی نقطہ نظر کو تسلیم کرنا لازمی ہے؟ کیونکر ہمارے ڈی این اے میں دم تشکیل دینے کی معلومات موجود ہے؟ کیونکر ہمارے ڈی این اے میں ایسے پٹھے تعمیر کرنے کی معلومات موجود ہے جن کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں؟ کیونکر ہمارے ڈی این اے میں ایسا عضو تشکیل دینے کی معلومات موجود ہے جس کی ایک تو ہمیں ضرورت نہیں بلکہ جو ہماری صحت کیلئے نقصان دہ بھی ہے؟ ان سوالات پر غوروفکر کریں اور ارتقائی نقطہ نظر سے باہر ان حقائق کی ٹھوس اور شواہد پر مبنی وضاحت تشکیل دینے کی کوشش کریں. جب ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اپنا نوبیل پرائز جیت لیں۔