بلاشبہ موسمی تبدیلیوں نے انسانی عقل کو ہمیشہ سے حیرانگی میں مبتلا کیا ہے۔ قدیم زمانے کے باشندے موسم کے بدلتے رنگوں کی وضاحت کے لئے غیرقدرتی قوتوں کا سہارا لیتے تھے. یقیناً ایسی وضاحتوں نے ہمیں صدیوں تک گمراہی میں رکھا۔ سائنسی طریقہ کار کی آمد کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ موسم ایک قدرتی عمل ہے اور اس کے پیچھے کی وجوہات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جدید دور میں ہم سائنسی علم کی بدولت موسمی تبدیلیوں کی نہ صرف وضاحت کرسکتے ہیں بلکہ اس علم کے ذریعے مستقبل کے موسمی حالات کی پیش گوئی بھی کی جاسکتی ہے۔
یہ مشاہدہ تو ہر کوئی کرتا ہے کہ دن کے وقت سورج کی شعاعیں زمین پر گرتی ہیں۔ ان شعاعوں کو زمین کی سطح جذب کرتی ہے اور اس کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ جب سورج غروب ہوجاتا ہے تو زمین کی سطح جذب کی ہوئی حرارت کو خارج کرتی ہے۔ یہ حرارت اپنے اوپر موجود ہوا کا درجہ حرارت بھی بڑھا دیتی ہے۔ جب ہوا کا درجہ حرارت بڑھتا ہے تو اس کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔ پس اس ہوا کی کثافت اپنے سے بالاتر ہوا، جو کہ نسبتاً ٹھنڈی ہوتی ہے، سے کم ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے کششِ ثقل زیادہ کثافت رکھنے والی بالاتر ہوا کو زیادہ قوت سے کھینچی ہے اور وہ ہوا نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ اس ہوا کی جگہ لینے کے لئے گرم ہوا اوپر اُٹھ جاتی ہے۔
اس طرح ٹھنڈی ہوائیں نیچے بیٹھتی جاتی ہیں۔ زمین کی سطح ان کا درجہ حرارت بڑھاتی رہتی ہے اور وہ اوپر کو اٹھتی جاتی ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے زمینی علاقوں کے اوپر موجود ہوا کی کثافت نسبتاً کم ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس سورج کی وہ شعاعیں جو سمندروں پر گرتی ہیں ان کا بیشتر حصہ واپس خلا میں چلا جاتا ہے کیونکہ پانی روشنی کو اس کی گزشتہ سمت میں واپس بھیجنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سائنس میں اس عمل کو ریفلیکشن کہتے ہیں۔ سورج کی حرارت کی وجہ سے سمندروں کا پانی بخارات بن کر اوپر اٹھتا ہے۔ یہ بخارات ہوا میں شامل ہو کر اس کی نمی کو بڑھا دیتے ہیں۔ نمی سے بھرپور یہ ہوا زمینی ہواؤں کی نسبت زیادہ کثیف اور ٹھنڈی ہوتی ہے۔
سائنس میں ہر وہ چیز جو بہنے کی قابلیت رکھتی ہے اسے سیال (Fluid) کہا جاتا ہے۔ چونکہ ہوا بہتی ہے تو سائنس کی رُو سے ہوا بھی ایک سیال ہے۔ سائنس میں ایک اصول ہے کہ سیال ہمیشہ زیادہ کثافت سے کم کثافت کی جانب حرکت کرتا ہے۔ یوں سمندروں کے اوپر موجود ٹھنڈی اور نَم دار ہوا زمینی علاقوں کی جانب حرکت کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس نَم دار ہوا میں موجود پانی کے باریک بخارات آپس میں مل کر بادلوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اس طرح زمینی علاقوں میں ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوجاتی ہیں اور آسمان کو بادل گھیر لیتے ہیں۔ بارش برسانے والے بادل سیاہ اس لئے ہوتے ہیں کیونکہ ان میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور پس یہ سورج کی روشنی کو روکتے ہیں۔
بادلوں میں موجود پانی کے بخارات حرکت کی وجہ سے آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں اور ان کی جسامت اور ان کا وزن بڑھتا جاتا ہے۔ پانی کے بخارات قطروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ پس ہوا ان کے وزن کو سہارا دینے کے قابل نہیں رہتی اور یہ قطرے زمین کی طرف گرجاتے ہیں۔ بخارات سے قطرے بننے کا عمل بہت تیزی سے ہوتا ہے۔ بادلوں میں موجود پانی کے قطروں کا زمین پر گرنا عام زبان میں بارش کہلاتا ہے۔ مزید برآں طوفانوں اور بونڈروں کے بننے کی وضاحت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ پس یہ بات اب طے شدہ حقائق میں سے ہے کہ موسمی تبدیلیوں کا تعلق قدرتی عناصر سے ہے اور ان عناصر کا مطالعہ خاطرخواہ حد تک ہوچکا ہے۔
Amazing Sir !
Thank you
Awesome blossom article! Keep up the work! ????
Thank you
The article is very well written. very informatics.
Thank you
The article is very good… Keep it up