آسمان میں نظر آنے والے کسی بھی عام ستارے کی طرح سورج نے اپنی زندگی کا آغاز خلا میں بھٹکتے گیس کے ایک وسیع بادل میں کیا۔ علم فلکیات میں خلائی بادل کو نیبولا کہا جاتا ہے۔ یہ خلائی بادل ستاروں کی جائے پیدائش ہوتے ہیں۔ نیبولا ہائڈروجن اور ہیلیم گیس پر مشتمل ہوتا ہے اور سورج بھی انہی عناصر سے بنا ہے۔ یہ دونوں گیسیں پوری کائنات میں وسیع مقدار میں پائی جاتی ہیں۔
ستاروں کی تخلیق کے عمل کی طرف رخ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کشش ثقل کی وجہ سے خلائی بادل کے نسبتاً کثیف حصے سکڑنا شروع کردیتے ہیں۔ سکڑنے کے اس عمل سے نیبولا کے اس حصے میں موجود گیسوں کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور وہ گیسیں ایک گھومتے ہوئے گولے کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ یہ عمل بہت سست ہوتا ہے اور اسے مکمل ہونے میں لاکھوں سال درکار ہوتے ہیں۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں ایک ستارہ پیدا ہوتا ہے جوکہ انتہائی گرم گیسوں کا ایک بہت بڑا گھومتا ہوا گولا ہوتا ہے۔ ہمارا اپنا سورج آج سے تقریباً 5 ارب سال پہلے اسی عمل کے فضل سے وجود میں آیا جس کی طرف مختصراً اشارہ کیا گیا ہے۔ایک ستارے کو اس کے مرکز کی کشش ثقل نے جکڑا ہوتا ہے اور یہ ہر وقت ستارے کو مزید سکڑنے پر مجبور کرتی ہے. اگر کشش ثقل اس مقصد میں کامیاب ہوجائے تو ستارہ زیادہ دیر تک جی نہیں پاتا۔ لیکن ستاروں کے پاس کشش ثقل کو ٹکر دینے کے لئے ایک طاقت ور عمل ہوتا ہے اور اسی عمل کے ذریعے ستارے چمکتے بھی ہیں۔ اس عمل کو تھرمو نیوکلئیر فیوزن کہتے ہیں۔
یہی عمل نیوکلئیر ہتھیاروں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے سورج کے مرکز میں کم ماس والے عناصر یا ایلیمینٹس فیوز ہو کر یا مل کر زیادہ ماس رکھنے والے نئے عناصر تشکیل دیتے ہیں۔ مثلاً ہائڈروجن ایٹمز فیوز ہوکر ہیلیم بناتے ہیں اور ہیلیم کی فیوزن سے مزید عناصر بنتے ہیں۔ اس طرح یہ عمل بہت تیزی سے جاری رہتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں بہت ساری توانائی روشنی اور حرارت کی شکل میں خارج ہوتی ہے۔ اس توانائی کی وجہ سے ایک پریشر پیدا ہوتا ہے جس کی سمت کشش ثقل کی سمت کے متضاد ہوتی ہے۔ اس طرح فیوزن کا عمل ستارے کو مزید سکڑنے سے روکتا ہے اور اسے ایک ساکن حالت میں رکھتا ہے۔ ہمارا سورج بھی اسی وجہ سے اب تک قائم و دائم ہے۔
سورج اپنی پوری زندگی کم ماس رکھنے والے عناصر کو فیوز کرکے زیادہ ماس والے عناصر بناتا رہے گا اور اس عمل کے ذریعے سورج اگلے 5 ارب سال تک چمکتا رہے گا۔ 5 ارب سال بعد سورج میں فیوزن کا مواد ختم ہوجائے گا۔ جب فیوزن کا یہ عمل لوہے کے ایٹم تک پہنچ جائے گا تب مزید فیوزن ممکن نہ ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب لوہے کے ایٹمز کو فیوز کیا جاتا ہے تو اس عمل میں توانائی خارج نہیں بلکہ توانائی جذب ہونا شروع ہوجاتی ہے. مطلب یہ کہ جب لوہے کے ایٹمز کو فیوز کرنے کی باری آئے گی تو سورج اس کام میں ناکام رہے گا. پس فیوزن کا عمل رک جائے گا. کشش ثقل سورج پر غالب آجائے گی اور سورج سکڑنا شروع کردے گا. جب سورج سکڑے گا تو اس کے مرکز کا درجہ حرارت انتہا کی حد تک بڑھ جائے گا۔ اس کے مرکز میں اتنی توانائی اکٹھی ہوجائے گی کہ یہ ایک زبردست دھماکے کے ساتھ پھٹ جائے گا۔ سورج کی بیرونی تہیں خلا میں پھیل جائیں گی اور اس کا مرکز خلا میں اکیلا رہ جائے گا۔ اس عمل کو علم فلکیات میں سپر نووا کہا جاتا ہے۔ سورج بے شک زمین سے دس لاکھ گنا بڑا ہے لیکن بہت سارے دوسرے ستاروں کی نسبت یہ کافی چھوٹا ہے۔ پس سورج کا دھماکہ قدرے کم زوردار ہوگا۔
دھماکے کے بعد صرف سورج کا مرکز باقی رہ جائے گا جس کا سائز زمین کے برابر ہوگا۔ ایسے ستارے کو علم فلکیات میں وائٹ ڈوارف یا سفید بونا کہا جاتا ہے. وائٹ ڈوارفز کی کثافت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی کثافت ایک ارب کلوگرام فی مکعب میٹر ہوتی ہے جو کہ زمین کی کثافت سے لاکھوں گنا زیادہ ہے. 10 ارب سال کی طویل زندگی جینے کے بعد سورج ایک وائٹ ڈوارف بن جائے گا جو آہستہ آہستہ اپنی حرارت خارج کرتا رہے گا اور ٹھنڈا پڑتا جائے گا۔ وہ وائٹ ڈوارف خود کھربوں سالوں تک چمکتا رہے گا لیکن اس میں فیوزن کا عمل رونما نہیں ہوگا۔ ہماری کائنات میں بہت سارے وائٹ ڈوارف ستارے موجود ہیں۔ پس ہم دوربینوں کے ذریعے سورج نما ستاروں کے آخری انجام کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اس کی ایک مشہور مثال سیریئس بی ستارہ ہے جو کہ زمین سے تقریباً 8 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ یہ ستارہ سیریئس اے ستارے کے ساتھ مل کر ایک دوہری نظام بناتا ہے اور یہ زمین سے دکھائی دینے والا روشن ترین ستارہ ہے۔
پس ہمارے سورج کی زندگی کا آغاز آج سے تقریباً 5 ارب سال پہلے ہوا اور اس وقت یہ اپنی زندگی کے وسط میں ہے. یہ 5 ارب سال مزید چمکتا رہے گا اور پھر ایک دھماکے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ اس وجہ سے نظام شمسی کا بھی اختتام ہوجائے گا. دھماکے کے بعد ایک وائٹ ڈوارف باقی رہ جائے گا جو آہستہ آہستہ اپنی حرارت کھوتا رہے گا اور پھر یہ بھی خلا کے وسیع اندھیروں میں ہمیشہ کے لئے گم ہوجائے گا۔
Well explained
very well Maaz ! carry on