اس سے قبل کہ عربوں کی سیاسی ، سماجی و مذہبی حالت یعنی عرب کے دور جاہلیت کا ذکر کیا جائے. بہتر ہوگا کہ عرب کی قدیم اور کچھ خاص تاریخ کا جائزہ لیا جائے.
عرب کہلانے کی وجہ
عرب کو عرب کہلانے کی وجہ مختلف حوالوں سے ملتی ہے. کچھ کے خیال میں یہ لفظ عربی کے نام سے مشتق ہے. جس کے معنی ریگستان کے ہیں. کچھ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس ملک کے پہلے باشندے کا نام یعرب بن قحطان تھا. اسی کے نام سےموسوم ہوا .بعض کے خیال میں ملک کا پہلا نام مرتبہ تھا جو بعد میں عرب ہوگیا .لیکن عام خیال یہ ہے کہ عرب اعراب سے نکلا ہے .اور اعراب زبان آور کو کہتے ہیں .یعنی وہ جس کی زبان فصیح و بلیغ ہو اس ملک کے لوگوں کو اپنی زبان پر بہت زیادہ ناز تھا کہ خود کو عرب یعنی زبان آور اور ساری دنیا کو عجم کہا کرتے تھے. لفظ عرب کے لغوی معنی ہیں صحرا اور بے آب و گیاہ زمین .عہد قدیم سے یہ لفظ جزیرہ نمائے عرب اور اس میں بسنے والی قوموں کے لیے بولا گیا ہے.
جغرافیائی محلِ وقوع
عرب ،ایشیا کے جنوب مغرب میں اس مقام میں واقع ہے جہاں ایشیا اور افریقہ کی حدیں ملتی ہیں .اور یورپ خشکی اور تری دونوں کے راستوں سے بہت قریب ہے .پرانی دنیا کے تین ہی برا عظم تھے اور تینوں کا مرکزی مقام عرب ہی نظر آتا ہے .عرب اسلام کا سر چشمہ بنا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے مرکزی حیثیت حاصل تھی اور چونکہ بیرونی طور پر ہر براعظم سمندر کے راستے بھی عرب سے جڑا ہوا ہے .اور ان کے جہاز عرب بندرگاہوں پر براہِ راست لنگر انداز ہوتے ہیں.جغرافیائی اعتبار سے عرب ایک جزیرہ نما ہے جس کے تین اطراف میں پانی اور ایک طرف خشکی ہے. اس کے مغرب میں بحیرہ قلزم ،مشرق میں خلیج فارس اور بحیرہ عمان ،جنوب میں بحر ہند اور شمال میں اس کی سرحدیں شام تک ملتی ہیں. یعنی عرب کا چوتھا حصہ خشکی کی طرف ہے.
عرب کا خاصا حصہ ریگستان ہے. جہاں کوئی آبادی نہیں. جابجا پہاڑ ہیں سب سے بڑا پہاڑی سلسلہ جبل السراۃ ہے .عراق کے دو دریاؤں دجلہ و فرات کے سوا عرب میں بڑا دریا کوئی نہیں ہے. البتہ کہیں کہیں جشمے ہیں اندرونی طور پر عرب چونکہ صحرا اور ریگستان سے گھرا ہوا ہے. جس کی بدولت یہ ایک ایسا محفوظ قلعہ بن گیا ہے. کہ بیرونی قوموں کے لیے اس پر قبضہ کرنا اور اپنا اثر پھیلانا سخت مشکل ہے.جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے عرب کے کچھ حصے تجارت و ثقافت اور فنون کے لین دین کا مرکز اور مختلف قوموں کی آماجگاہ رہ چکے ہیں.
…….جاری ہے