حضرت عمر رضی اللہ عنہ اکثر وقت میں ایک چھوٹی سی لکڑی ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا کرتے تھے ۔کاش میں یہ لکڑی ہوتا یا پیدا نہیں ہوتا ۔
ایک دن ایک کام میں مشغول تھا ۔ایک بندہ نے بولا کہ فلاں بندہ نے میرے اوپر ظلم کیا ہے آپ جا کے اس سے میرا ظلم کا بدلہ لے لیں۔ حضرت عمر رضی اللہ اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس کو ایک درہ لگایا اور فرمایا جب بھی میں کسی کام میں مشغول ہوتا ہوں تو تم لوگ بولتے ہو بدلہ لے لیں۔
جب وہ بندہ چلا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے پیچھے بندہ بھیجااور بلایا ۔اس کے ہاتھ میں درہ دے کے فرمایا اپنا بدلہ لے لو۔اس نے فرمایا میں نے اللہ کے لئے معاف کر دیا
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے گھر تشریف لے گئے اوردو رکعت نماز پڑھ کے اپنے آپ کو مخاطب ہوا اور فرمانے لگا ۔کہ اے عمر تم نیچے تھے اللہ نے تم کو اونچا کر دیا۔تم گمراہ تھے اللہ نے تیرے کو ہدایت دیا ۔تم ذلیل تھے اللہ نے تیرے کو عزت دیا ۔اور لوگوں کا بادشاہ بنا دیا ۔ابھی جب ایک بندہ آتا ہے اور بولتا ہے کہ میرا ظلم کا بدلہ لے لو تو تم اس کو مار دیتے ہو ۔بہت دیر تک ایسا فرماتا رہا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے غلام حضرت اسلم رضی اللہ عنہٗ فرماتا ہے ایک دفعہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ حرا کی طرف جا رہا تھا ۔جنگل میں ایک جگہ آگ نظر آگیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ شاید یہ کوئی قافلہ ہے جو رات کی وجہ سے شہر میں داخل نہ ہوسکا اور یہاں ٹھہر گئے ۔چلے اس کی خبر لے لیتے ہیں اس کے لئے رات کا انتظام کر دیتے ہیں ۔جب وہاں پہنچ گئے تو دیکھا کہ وہاں ایک بوڑھی عورت اور اس کے پاس چند بچے ہیں۔بچے رو رہے ہیں۔ آگ کے اوپر ایک برتن کو چھڑایا ہیں۔اس میں صرف پانی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے قریب جا کے سلام کیا اور قریب جانے کی اجازت مانگی ۔اور فرمانے لگا کہ بچے کیوں رو رہے۔ بوڑھی نے جواب دی کہ بھوک کی وجہ سے رو رہے ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ اس برتن میں کیا ہے ۔اس نے جواب دیا کہ اس میں صرف پانی ہیں ۔بچوں کو تسلی دینے کے لئے اس کے نیچے آگ جلا رہا ہوں تاکہ بچے سو جائے ۔میرے اور امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا قیامت کے دن فیصلہ ہوگا میری تنگسی کا خبر نہیں لیتا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ رونے لگے اور فرمانے لگے کہ اللہ تم پر رحم کرے عمر کو تیرے حال کیا خبر ہے ۔بوڑھی بولنے لگی اگر ہمارا خبر نہیں لیتا تو بادشاہ کیوں بنا ۔
اسلم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے میرے کو ساتھ لے کے بیت المال گئے ۔بیت المال سے ایک بوری میں آٹا، کھجورے، کپڑے اور کچھ سامان بھر دیا۔اور کچھ پیسے بھی ساتھ لے لئے ۔پھر فرمانے لگا کہ یہ بوری میری کمر کے اوپر رکھ دو تاکہ اس کو پہنچاو۔ میں نے عرض کیا میں لے کے جاتا ہوں میں ایک غلام ہوں ۔میں نے جب زیادہ اصرار کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا قیامت کے دن بھی تم میرا گناہوں کا بوجھ اٹھائے گا۔میں مجبور ہو کے اس کے کمرے پر پوری کو رکھ دیا ۔بہت جلدی جلدی سے ادھر پہنچا دیا ۔برتن میں آٹا وغیرہ ڈال کے کھانا تیار کر دیا ۔اور اپنے ہاتھوں سے بچوں کو کھلایا ۔پھر تھوڑا فاصلے پر بیٹھ کے دیکھنے لگا ۔پھر خود فرمانے لگا کہ میں اس لئے یہاں بیٹھ گیا ان بچوں کو روتے ہوئے دیکھا تھا تاکہ ہنستے ہوئے دیکھو ۔ جب بچوں نے کھانا کھایا اور کھیلنے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بچا ہوا کھانا بوڑھی کے حوالے کرکے بولا کہ یہ کھانا دوسرا وقت کھلاو۔
وہ بوڑھی عورت بہت خوش ہوگی اور کہنے لگی کہ عمر کی جگہ تیرے کوخلیفہ ہونا چاہیے حضرت عمر رضی اللہ انہوں نے اس کو تسلی دی اور فرمایا کہ خلیفہ کے دربار میں آجاؤں میرے کو بھی وہی دیکھوں گی۔
جب عورت دربار آگئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو عورت حیران ہوگئی
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بیت المال سے اس کے لیے وظیفہ مقرر کر دیا ۔