کاش کوئی تو ایسا مکتب کھولے
جہاں آدمی کو انسان بنایا جائے
بہت سے ماں باپ کا یہی نظریہ ہے کہ اولاد کو مکتب بھیج کر ان کی ذمہ داری پوری ہو گئی ہے اور انہیں مہنگے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ دلوا کر فخر محسوس کرتے ہیں ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے اولاد کی ذمہ داری ایک بہت ہی بڑی ذمہ داری ہے ۔اسلام نے اولاد کی اچھی تربیت کو ماں باپ کا فرض قرار دیا ہے اور اس کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔
بچے جو علم تعلیمی اداروں سے سیکھ کر آتے ہیں وہ دراصل ان کے ماں باپ ہی ان کی روح میں جذب کرنے کا انتظام کرتے ہیں ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ گھر پر انہیں اچھا ماحول فراہم کیا جائے۔اور سب سے ضروری ہے کہ خود نمومہ بن کر دکھایا جائے ۔اگر آپ خود جھوٹ بولیں گے اور بچوں کو اس سے منع کریں گے تو وہ کبھی بھی منع نہ ہوں گے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے منع ہو جائیں لیکن ان کے دل میں آپ کے لیے نفرت بیٹھ جائے ۔بچوں کی تربیت کے سلسلےمیں آج کل اکثر والدین جو غلطی کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ ان سے کہتے ہیں تعلیم حاصل کرو اور لائق بن جاؤ تاکہ اچھی نوکری مل سکے اور کامیاب بن سکو ۔یہ انتہائی غلط بات ہے اس طرح ان کے ذہن میں تعلیم کا مقصد اچھی نوکری کا حصول بن جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کل ہمارا معاشرہ تعلیم کے باوجود بھی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے ۔اس کے بجائے اگر وہ یہ جملہ بول دیں کہ تعلیم حاصل کرو تاکہ اچھے انسان بن سکو ۔تو تعلیم کے حوالے سے بچپن سے ہی ان کے ذہن میں ایک نہایت مثبت نظریہ بیٹھ جائے گا اور وہ جو تعلیم حاصل کریں گے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے ۔
بچوں کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی دینی تعلیم پر بھی خاص توجہ دی جائے ۔تاکہ وہ ہے حقوق العباد اور حقوق اللہ کو اچھی طرح پہچان سکے اور اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح نبھا سکے ۔زندگی میں آنے والے مسائل سے بچوں کو دور نہ رکھا جائے بلکہ انہیں سمجھایا جائے گی یہ چیزیں زندگی کا حصہ ہیں اور انہیں ان مسائل کو حل کرنے کی تربیت دی جائے۔ان کے اندر احساس ذمہ داری ،احساس محبت اور دردمندی کے جذبات پیدا کرنا بہت ضروری ہے ۔بچوں کی تربیت کے سلسلے میں ماں باپ کو بہت سی مشکلات پیش آسکتی ہیں کیوں کہ ہر بچے کا ذہن مختلف ہوتا ہے اس کی طبیعت مختلف ہوتی ہے لیکن اگر بچپن سے ہی ان کے لئے ایک ٹائم ٹیبل سیٹ کر دیا جائے اور انہیں اپنا کام خود کرنے کی ذمہ داری دی جائے تو اس سے بہت آسانی ہو جائے گی ۔