اپنے ہاتھوں اپنا نقصان
ہفتہ کادن تھا۔ایک پچاس ہو رہے تھے۔دروازے پر دستک ہوئی۔امی نے دروازہ کھولا تو دروازے پر حراب تھی۔(اس کو سب گھر والے پیار سے حورRead More »اپنے ہاتھوں اپنا نقصان
ہفتہ کادن تھا۔ایک پچاس ہو رہے تھے۔دروازے پر دستک ہوئی۔امی نے دروازہ کھولا تو دروازے پر حراب تھی۔(اس کو سب گھر والے پیار سے حورRead More »اپنے ہاتھوں اپنا نقصان
میرے ہونٹوں سے پہلے ہنسی چِِھینتا پِھر مِرا دِل، مِری زِندگی چِھینتا اور لُٹتے کو ہی پاس کیا تھا مِرے آنکھ میں رہ گئی تھیRead More »چاندنی چِھینتا
وہ ہم سے بد گُمان رہے، بد گُمان ہم سو کیا گئے کہ چھوڑ کے نِکلے مکان ہم فاقے پڑے تو پاؤں تلے (تھی زمِیںRead More »بڑھا کر دُکان ہم
کسی کے درد کو سینے میں پالتا کیوں ہے نئے وبال میں وہ خود کو ڈالتا کیوں ہے پسند ہے جو اسے خود رہے غلاظتRead More »پالتا کیوں ہے؟
کبھی جھانکو صنم خانے میں آ کر رہو کُچھ دِن تو وِیرانے میں آ کر وہی خالق نُمایاں جا بجا ہے کُھلا ہے مُجھ پہRead More »پیمانے میں آ کر
زلفوں میں تِری پائے ہیں خم اور طرح کے آنکھوں میں اُتر آئے ہیں نم اور طرح کے کیا ہم سے ہوئی بُھول، روا تمRead More »خم اور طرح کے
بجا أنکھیں ہماری تھیں مگر منظر پرائے ہمیں کچھ دِن تو رہنا تھا مگر تھے گھر برائے نجانے کِس کی آنکھوں میں اتاری نیند اپنیRead More »مگر منظر پرائے
ہمارا معاشرہ کئی طرح کے ناسور کا شکار ہے جو ہماری معاشرتی اقدار و روایات ہماری مزہبی و ملی احکامات کو پارہ پارہ کرنے میںRead More »بے لگام معاشرہ اور بے جا خواہشات
روشن کل گھر کا دروازہ بند کرکے میں گلی میں نکل آیا مگر الجھنوں اور پریشانیوں کے جو دروازے میرے اندر کھلے تھے وہ بندRead More »روشن کل
ماں کی ساری ہمدردی محبت بیٹی کے لیے تو بے شمار ہوتی ہے لیکن اپنی بہو کے لیے دل میں نرم گوشہ بھی نہیں ہوتاRead More »ہمارے معاشرتی رویے
نجانے مُجھ سے کیا پُوچھا گیا تھا مگر لب پر تِرا نام آ گیا تھا مُحیط اِک عُمر پر ہے فاصلہ وہ مِری جاں بِیچRead More »نہ جانے مُجھ سے پُوچھا گیا تھا
نِیچی ذات بہُت کم ظرف نِیچی ذات کا ہے یقیں پُختہ مُجھے اِس بات کا ہے نہیں آدابِ محفل اُس کو لوگو کہوں گا میںRead More »نیچی ذات
عجب سنسار لوگو بنے پِھرتے ہیں وہ فنکار لوگو ازل سے جو رہے مکّار، لوگو کوئی کم ظرف دِکھلائے حقِیقت ہر اِک جا، ہر گھڑیRead More »عجب سنسار لوگو
اگرچہ مہربانی تو کرے گا وہ پِھر بھی بے زبانی تو کرے گا عطا کر کے محبّت کو معانی جِگر کو پانی پانی تو کرےRead More »اگرچہ مہربانی تو کرے گا
ندی سمٹی کنارے آ گرے ہیں کنائے، استعارے آ گرے ہیں وہ لہریں، شوخیاں مستی، تلاطم مرے قدموں میں سارے آ گرے ہیں فلک پرRead More »سِتارے آ گِرے ہیں
زندگی کے سفر میں بچپن جاتا رہتا ہے اور سفر چلتا رہتا ہے اور ہمیں یاد کرواتا رہتا ہے کہ اب ہم بچے نہیں رہےRead More »مُسکرانا لباس پہننے کی طرح معمول بن چُکا ہے
شازیہ عبدالحمید (کراچی )۔ آٹھ مئی کو پوری دنیا میں ماؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے حالانکہ کوئی دن ماں کے بغیر نہیں ہوتاRead More »ماں کے قدموں تلے جنّت ہے ۔
کلامِ مختصر کروں تو اب گزارہ نہیں ہوتا جس محفل میں اُس ہستی کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ بے چینی کا اک عجب ہے کیف طاریRead More »حب رحمٰن
آئینہ میٹنگ ختم ہوتے ہی میں اس شاندار بلڈنگ سے باہر آ گئی جو دنیا کی ایک مشہور ترین کمپنی کا ہیڈ کوارٹر ہے ۔Read More »آئینہ
گاؤں کو واپسی وہ مجُھ میں رہ گئی کوئی کمی ہے مِرا دِل ہے، نظر کی روشنی ہے سجی سازوں پہ میری دھڑکنوں کے کھنکتی،Read More »گاؤں کو واپسی
دِکھا ہے ایک چہرہ اوٹ میں سے کھرا پایا ہے ہم نے کھوٹ میں سے تُم اپنے ہاتھ کا دو زخم کوئی سو پُھوٹے روشنیRead More »اوٹ میں سے
ضرُوری خُود کو سمجھو یا نہِیں سمجھو، ضرُوری ہو بظاہر اِستعارہ قُرب کا، صدیوں کی دُوری ہو اکڑ کر کہہ تو دیتے ہو کہ ہمRead More »صدیوں کی دوری ہو
پناہ دے گا، کوئی سائباں تو وہ بھی نہِیں ہمیں فنا ہے مگر جاوِداں تو وہ بھی نہِیں ہمارے پیار کی ناؤ پھنسی ہے بِیچRead More »وہ بھی نہیں
بِچھڑ جانا پڑا ہم کو لِکھے جو آسمانی تھے جُدا کر کے ہمیں دیکھا مُقدّر پانی پانی تھے تراشِیدہ صنم کُچھ دِل کے مندر میںRead More »سراپا بد گمانی تھے
استاد صاحب کلاس میں اسلامیات پڑھا رہے ہیں۔ وہ بہت ہی پر اثر انداز میں حقوق العباد پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ وہ بچوں کوRead More »پاک سرزمین
ہم ترستے ہیں عمدہ کھانوں کو موت پڑتی ہے حکم رانوں کو جرم آزاد پھر رہا ہے یہاں بے کسوں سے بھریں یہ تھانوں کوRead More »بے زبانوں کو
خوں آشام آج پھر رجو کی کمبختی آئی تھی ۔ شاید کوئی برتن اس سے ٹوٹ گیا تھا تبھی اسکی بھابھی اسے صلواتیں سنا رہیRead More »خوں آشام
ڈائری کا ایک ورق رات اللہ تعالی سے دعا مانگ کر سوئی تھی کہ تہجد کے لئے آنکھ کھل جائے اور اللہ تعالی نے دعاRead More »ڈائری کا ایک ورق
بھائیوں کے درمیان دراڑ ” افسانہ مشایم عباس سرخ اینٹوں سے بنی اس سنہری دیوا ر پر نظریں جمائے وہ ایک عمیق سوچ میں ڈوباRead More »بھائیوں کے درمیان دراڑ
بجا کہ دُور، مگر آس پاس جیسے ہو وہ اپنے آپ میں خُوشبُو ہے (باس جیسے ہو) کِسی کو تن پہ سجایا ہے پیرہن کیRead More »جیسے ہو