لوگ ہماری زندگی کو رشک سے دیکھتے ہیں
اور ہم تھک گئے محرومیوں کو چھپاتے چھپاتے
کہا جاتا ہے کہ ہم بہادروقوی ہیں
اور ہم تھک گئے خوف زوال سے گھبراتے گھبراتے
تنز کیا جاتا ہے کہ ہمیں احساس ندامت نہیں ہے
ہماری تو رنگت ہی کھو گئی زندگی بھر پچھتاتے پچھتاتے
اچھے وقتوں کے انتظار میں رہی عمر رواں
ہم ہار گئے دکھوں کو سہلاتے سہلاتے
زندگی ہر سحر کیساتھ اک نیا موڑ لیتی ہے
اور ہم تھک گئے خود کو سمجھاتے سمجھاتے
یہ دنیا بنی رہی ستم گر
اور ہم اکتا گئے مرہم لگاتے لگاتے
کہتے ہیں وقت کسی کا دوست نہیں ہوتا
اور ہم کھو گئے اس بھنور میں ہاتھ پیر چلاتے چلاتے
نا امیدی تو مایوسی ہوتی ہے
ہم نے زندگی گزاردی امید کی کھوج لگاتے لگاتے
وہ بے پناہ محبت کے بعد بھی انگلی اٹھاتے ہیں
دیکھو کتنے دور نکل آئے رشتوں کو نبھاتے نبھاتے
کہتے ہیں اندھرے کے بعد روشنی ہوتی ہے
ہم نے زندگی گزار دی اندھیروں سے ٹکراتے ٹکراتے