کیا انسان جب اس دنیا میں آیا تب بھی اتنا ہی مغرور تھا تب بھی وہ اکڑ کر چلنا چاہتا تھا اور اس قدر تکبر والے لفظوں کا استعمال کرنا چاہتا ہے اور آمریت کو ترجیح دینا آگیا تھا کیا صرف تب اس کے پاس طاقت کی کمی ہوتی ہے کیا وہ پہلے سانس کے […]
ہمیں جو ضبط کا حاصل کمال ہو جائے ہمارا عِشق بھی جنّت مِثال ہو جائے سُنا ہے تُم کو سلِیقہ ہے زخم بھرنے کا ہمارے گھاؤ کا بھی اِندمال ہو جائے ذرا سی اُس کے رویّے میں گر کمی دیکھیں طرح طرح کا ہمیں اِحتمال ہو جائے چلا تھا کھوکھلی کرنے جڑیں وطن کی جو […]
تو نے پیچھے سے جب نہ دی آواز آنکھ سے آئی دکھ بھری آواز میرے ہونے کا بس یہ مطلب ہے ان سنی اور ان کہی آواز خون پانی ہوا تو دل میں ہی زنگ سے بھر گئی نئی آواز منتظر دست آرزو کی تھی پانی میں ڈوبتی ہوئی آواز اس کی آواز تھک گئی […]
ہر قسم کے باطل کے خلاف اکیلا لڑنا پوری دنیا کا سلطان بننے سے بہتر ہے ، باطل کے ساتھ اتحاد کر کے آپ حق کے راستے پر نہیں چل سکتے۔۔ ناممکن ، پوری دنیا بھی اگر خلاف ہو جائے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم کسی ظالم کا ساتھ دیں کبھی تمام جہان بھی […]
اچُھوت کوئی، کِسی برہمن میں کیا تفرِیق تُمہارے اُجلے، مِرے میلے من میں کیا تفرِیق دھکیل کر جو کرے زن پرے خصم خُود سے تو فاحشہ کے کسِیلے بدن میں کیا تفرِیق شجر میں ایسا، نہِیں جِس پہ برگ و بار کوئی رہُوں میں دشت یا صحنِ چمن میں کیا تفرِیق تُمہارا کام جفا، ہے […]
جانتا کوئی نہِیں آج اصُولوں کی زباں کاش آ جائے ہمیں بولنا پُھولوں کی زباں موسمِ گُل ہے کِھلے آپ کی خُوشبُو کے گُلاب بولنا آ کے ذرا پِھر سے وہ جُھولوں کی زباں یہ رویّہ بھی ہمیں شہر کے لوگو سے مِلا پُھول کے مُنہ میں رکھی آج ببُولوں کی زباں آپ نے سمجھا […]
اب کہاں مجھ کو یہ گھر لگتا ہے ماں بنا غیر کا در لگتا ہے قبر تک ساتھ چلے گا میرے غم ترا دردِ جگر لگتا ہے ماں بنا زندگی یوں لگتی ہے جیسے پت جھڑ میں شجر لگتا ہے جم گئے اشک مرے چہرے پر چہرہ گر خشک ہو تر لگتا ہے تری آغوش […]
!!آہ وہ جنوری کی ٹھٹھرتی صبح !!لحاف کی گرمایش !!حی علی الفلاح !کانوں میں رس گھولتی آوازیں !سکوت اتنا کہ مر جانے کو جی چایے !دور کہیں پٹڑی پر ریل کے دوڑنے کی آواز فقط سارا عالم فیکون کی تشریح بنا ہوا اندھیری رات چھٹنے سے صبح کو بھی وجود ملا کن کی تڑپ کے […]
محبّتوں کو وفا کا اُصُول کر ہی لیا نوید ہو کہ یہ کارِ فضُول کر ہی لیا نجانے کون سے پاپوں کی فصل کاٹی ہے دِلوں کو زخم، سو چہروں کو دُھول کر ہی لیا گُلاب جِن کے لبوں سے چُرا کے لائیں رنگ بُرا ہو وقت کا اُن کو ببُول کر ہی لیا یہ […]
آج وہ بہت خوش تھا کیونکہ آج وہ دن تھا جس کا اس کو پانچ سال سے انتظار تھا۔کیونکہ آج اس کی شادی تھی وہ بھی اس سے جس سے وہ پیار کرتا ہے۔دوسری طرف بھی یہی صورت حال تھی کیونکہ دونوں بہت خوش تھے کہ آج وہ آخر اک دوسرے کے ہو رہے ہیں […]
کئی لفظ باعثِ درد تھے کئی لہجے حد سے گزر گئے پھول کتنے تھے راہ میں سب کانٹوں کی نظر ہوئے کچھ خواہشیں تھیں خواب تھے سب حسرتوں میں بدل گئے رستے پہ تنہا چھوڑ کر سب منزلوں کو پہنچ گئے !کہ زندگی کے سفر پہ اے دوست کئی لوگ دل سے اُتر گئے کئی […]
کامیابی کی کنجیاں ہمارے ہاں ہر شخص کامیاب زندگی گزارنا چاہتا ہے اور کامیابی کا خواہاں ہے. ہم میں سے ہر دوسرے شخص کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ اس کے پاس مال و دولت کی کثرت ہو اور وہ عیش و عشرت سے بھرپور زندگی گزارے. مزے کی بات یہ ہے کہ ہم میں […]
تو آج ظرف تُمہارا بھی آزماتے ہیں اگر ہو اِذن تُمہیں آئینہ دِکھاتے ہیں کہو تو جان ہتھیلی پہ لے کے حاضِر ہوں کہو تو سر پہ کوئی آسماں اُٹھاتے ہیں ہمارا شہر ہے شمشان گھاٹ کے جیسا تو چِیخ چِیخ کے کیا اِن کو ہم جگاتے ہیں کُھلے نہ اُن پہ کہِیں اپنی تُرش […]
واجب الاحترام منتظمِ اعلیٰ نیوز فلیکس نذرانۂِ خلوص و عقیدت آپ سے استدعا یہ کرنی تھی کہ کچھ عرصہ پہلے جو سلسلہ شاعروں کی شاعری پڑھ کر سنائے جانے کا شروع کیا گیا تھا بہت اچھا جا رہا اور آگے مقبولیت کے آثار نمودار ہو چلے تھے۔ لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر سلسلہ منقطع […]
آج کھائی ہے چار دِن کے بعد کِتنی مِیٹھی لگی ہے روٹی آج آؤ ہم اِس کو نوچ کر کھائیں شرم کیسی ہے، اِس میں کیسی لاج؟؟ حُکمرانوں نے اِنتہا کر دی بے ضمِیری کی، بے حیائی کی کِس ڈِھٹائی سے کر رہے ہیں آج بات یہ اپنی پارسائی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال میرا فقط حُکمراں […]
ایک ہم تھے سر پِھرے جو جل بُجھے لوگوں میں تھے ورنہ جِس کو دیکھتے معیار کے لوگوں میں تھے کون ظالِم حُکمراں کی بات کا دیتا جواب لوگ جِتنے تھے وہاں سب سر کٹے لوگوں میں تھے کون سی بستی ہے یہ, ہم کِس نگر میں آ گئے؟؟ کل تلک رنگوں میں تھے ہم’ […]
ہفتہ کادن تھا۔ایک پچاس ہو رہے تھے۔دروازے پر دستک ہوئی۔امی نے دروازہ کھولا تو دروازے پر حراب تھی۔(اس کو سب گھر والے پیار سے حور کہتے تھے۔حور کے گھر میں اس کے بڑے بھائی اور والدین تھے)حور نے اماں کو سلام کیا اور بستہ صوفے پر پھینک کر الماری کی طرف بڑھی اور الماری میں […]
میرے ہونٹوں سے پہلے ہنسی چِِھینتا پِھر مِرا دِل، مِری زِندگی چِھینتا اور لُٹتے کو ہی پاس کیا تھا مِرے آنکھ میں رہ گئی تھی نمی، چِھینتا جو اندھیروں میں پل کر ہُؤا خُود جواں کیا بھلا وہ مِری آگہی چِھینتا میں نے کُچلا ہے سر، اُس نے پہلے مِرا چاند چِھینا تھا اب چاندنی […]
وہ ہم سے بد گُمان رہے، بد گُمان ہم سو کیا گئے کہ چھوڑ کے نِکلے مکان ہم فاقے پڑے تو پاؤں تلے (تھی زمِیں کہاں) ایسے کہاں کے عِشق کے تھے آسمان ہم اب یہ کُھلا کہ جِنسِ محبّت تمام شُد پچھتائے اپنے دِل کی بڑھا کر دُکان ہم کرتا ہے پہلا وار جو […]
کسی کے درد کو سینے میں پالتا کیوں ہے نئے وبال میں وہ خود کو ڈالتا کیوں ہے پسند ہے جو اسے خود رہے غلاظت میں شریف لوگوں پہ چِھینٹے اُچھالتا کیوں ہے کسی سفینے کو ویران سے جزیرے میں جو لا کے چھوڑ دیا تو سنبھالتا کیوں ہے سمجھ سکا نہ کوئی اس کے […]
کبھی جھانکو صنم خانے میں آ کر رہو کُچھ دِن تو وِیرانے میں آ کر وہی خالق نُمایاں جا بجا ہے کُھلا ہے مُجھ پہ بُت خانے میں آ کر اِرادہ تو نہِیں تھا میرا لیکن بہایا خُوں کِسی طعنے میں آ کر پڑھو چہروں پہ غم کی داستانیں کچہری میں، کبھی تھانے میں آ […]
زلفوں میں تِری پائے ہیں خم اور طرح کے آنکھوں میں اُتر آئے ہیں نم اور طرح کے کیا ہم سے ہوئی بُھول، روا تم نے رکھے ہیں جور اور طرح کے تو ستم اور طرح کے پہلو میں ترے رہتے تھے ہم یاد اگر ہو ہوتے تھے مزے من کو بہم اور طرح کے […]
بجا أنکھیں ہماری تھیں مگر منظر پرائے ہمیں کچھ دِن تو رہنا تھا مگر تھے گھر برائے نجانے کِس کی آنکھوں میں اتاری نیند اپنی ہمیں بانہوں میں تھامے رہ گئے بِستر پرائے وہ کیا آسیب نگری تھی کہ جس میں سب ادھورے کہیں دھڑ تھے کہیں دھڑ پر لگےتھے سر پرائے غنیمت ہے کہ […]
ہمارا معاشرہ کئی طرح کے ناسور کا شکار ہے جو ہماری معاشرتی اقدار و روایات ہماری مزہبی و ملی احکامات کو پارہ پارہ کرنے میں اپنا بھرپور اور موئثر کردار ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑے ہوئے حسن پرستی ایک فطری عمل ہے حسن پرستی اچھی سوچ کی بھی ہو سکتی ہے اچھی فطرت […]
روشن کل گھر کا دروازہ بند کرکے میں گلی میں نکل آیا مگر الجھنوں اور پریشانیوں کے جو دروازے میرے اندر کھلے تھے وہ بند نا ہو سکے میں نے اپنی زندگی میں ہر مشکل کا سامنا صبر اور سکون سے کیا تھا لیکن ساٹھ کو پہنچنے سے پہلے ہی یا تو میں سٹھیاگیا تھا […]
ماں کی ساری ہمدردی محبت بیٹی کے لیے تو بے شمار ہوتی ہے لیکن اپنی بہو کے لیے دل میں نرم گوشہ بھی نہیں ہوتا کیا وجہ ہے اس سخت رویے کی جبکہ ماں بھی ایک عورت ہے بہو بھی اور بیٹی بھی۔ ہم جس معا شرے کا حصہ ہیں وہاں عورت کا کام کرنا […]
نجانے مُجھ سے کیا پُوچھا گیا تھا مگر لب پر تِرا نام آ گیا تھا مُحیط اِک عُمر پر ہے فاصلہ وہ مِری جاں بِیچ جو رکھا گیا تھا سُنو سرپنچ کا یہ فیصلہ بھی وہ مُجرم ہے جِسے لُوٹا گیا تھا بِٹھایا سر پہ لوگوں نے مُجھے بھی لِباسِ فاخِرہ پہنا گیا تھا اُسے […]
نِیچی ذات بہُت کم ظرف نِیچی ذات کا ہے یقیں پُختہ مُجھے اِس بات کا ہے نہیں آدابِ محفل اُس کو لوگو کہوں گا میں تو جاہِل اُس کو لوگو ذرا بھر بھی نہِیں تہذِیب جِس کو فقط آتی ہے بس تکذیب جس کو جہاں دیکھو نُمایاں خود کو رکھے سو ایسے لوگ آنکھوں کے […]
عجب سنسار لوگو بنے پِھرتے ہیں وہ فنکار لوگو ازل سے جو رہے مکّار، لوگو کوئی کم ظرف دِکھلائے حقِیقت ہر اِک جا، ہر گھڑی ہر بار لوگو ہُوئے ہیں اہلِ کُوفہ کے مُقلّد ہمارے آج کل کے یار لوگو رکھو یہ یاد جائیں بد دُعائیں بِنا ٹوکے اُفق کے پار لوگو مُعافی سر کے […]
اگرچہ مہربانی تو کرے گا وہ پِھر بھی بے زبانی تو کرے گا عطا کر کے محبّت کو معانی جِگر کو پانی پانی تو کرے گا بڑے دِن سے عدُو چُپ چُپ ہے یارو کہ حملہ نا گہانی تو کرے گا اُسے ناکامیابی ہی ملے گی وہ حل پرچہ زبانی تو کرے گا ہُوئے گر […]
ندی سمٹی کنارے آ گرے ہیں کنائے، استعارے آ گرے ہیں وہ لہریں، شوخیاں مستی، تلاطم مرے قدموں میں سارے آ گرے ہیں فلک پر جو کبھی رہتے فروزاں زمیں پر وہ ستارے آ گرے ہیں اُڑان اب تک نہ بھر پائے پرندے قفس میں غم کے مارے آ گرے ہیں مرے دل سے لہو […]
زندگی کے سفر میں بچپن جاتا رہتا ہے اور سفر چلتا رہتا ہے اور ہمیں یاد کرواتا رہتا ہے کہ اب ہم بچے نہیں رہے بلکہ بڑے ہوگئے ہیں ۔ اب ماجرہ یہ ہے کہ کچھ باتیں ہم بُھول نہیں پاتے اور جو باتیں یاد کرنا لازم ہوں وہ بُھول جاتے ہیں۔ پھر ہم ایسا قدم اُٹھا جاتے […]
شازیہ عبدالحمید (کراچی )۔ آٹھ مئی کو پوری دنیا میں ماؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے حالانکہ کوئی دن ماں کے بغیر نہیں ہوتا لیکن ہم نے ایک خاص دن مقرر کر لیا ہے اور اسی دن اپنی ماں کے ساتھ پیار اور محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔آج کل سوشل میڈیا کا دور […]
کلامِ مختصر کروں تو اب گزارہ نہیں ہوتا جس محفل میں اُس ہستی کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ بے چینی کا اک عجب ہے کیف طاری ہوتا جس ذکر میں میرے ذکرِ خدا نہیں ہوتا لکھتے لکھتے قلم رک گیا شاید آنکھوں کے موتیوں نے اس کی نظر سے سب کچھ مستور کر دیا شاید دل […]
آئینہ میٹنگ ختم ہوتے ہی میں اس شاندار بلڈنگ سے باہر آ گئی جو دنیا کی ایک مشہور ترین کمپنی کا ہیڈ کوارٹر ہے ۔ سوئیٹزر لینڈ میں واقع یہ شہر ویوے میری جائے پیدائش ہے زندگی کے پینتالیس سال میں نے یہیں گزارے کیونکہ مجھے اس کا حسن اور سکون پسند ہے میری ہر […]
گاؤں کو واپسی وہ مجُھ میں رہ گئی کوئی کمی ہے مِرا دِل ہے، نظر کی روشنی ہے سجی سازوں پہ میری دھڑکنوں کے کھنکتی، کھنکھناتی راگنی ہے اسے چاہت کِسی کی مانتا ہُوں نہ ہو گی، پر مجُھے اُس شخص کی ہے بڑی مُدّت کے بعد آیا ہوں گاؤں وُہی سرسوں کی پِیلی سی […]
دِکھا ہے ایک چہرہ اوٹ میں سے کھرا پایا ہے ہم نے کھوٹ میں سے تُم اپنے ہاتھ کا دو زخم کوئی سو پُھوٹے روشنی اُس چوٹ میں سے خُوشی کے شادیانے بج رہے ہیں چلا ہے گھوٹ کوئی گوٹ میں سے سمجھ آئی نہیں ناکامیابی کِیا تھا حل تو پرچہ نوٹ میں سے نہِیں […]
ضرُوری خُود کو سمجھو یا نہِیں سمجھو، ضرُوری ہو بظاہر اِستعارہ قُرب کا، صدیوں کی دُوری ہو اکڑ کر کہہ تو دیتے ہو کہ ہم ہیں جوہری طاقت بہے گا خُون اِنساں کا، وہ ہو شاہیں کہ سُوری ہو لو اب سے توڑ دیتے ہیں، جو محرُومی کے حلقے تھے مِلائیں ہاں میں ہاں کب […]
پناہ دے گا، کوئی سائباں تو وہ بھی نہِیں ہمیں فنا ہے مگر جاوِداں تو وہ بھی نہِیں ہمارے پیار کی ناؤ پھنسی ہے بِیچ بھن٘ور بچا کے لائے کوئی بادباں تو وہ بھی نہِیں جو سچ کہیں تو خزاں اوڑھ کے بھی خُوش ہیں بہُت نہِیں اُجاڑ مگر گُلسِتاں تو وہ بھی نہِیں جہاں […]
بِچھڑ جانا پڑا ہم کو لِکھے جو آسمانی تھے جُدا کر کے ہمیں دیکھا مُقدّر پانی پانی تھے تراشِیدہ صنم کُچھ دِل کے مندر میں چُھپائے ہیں کہِیں پر کابُلی تھے بُت کہِیں پر اصفہانی تھے ہوا بدلا نہِیں کرتی کہ جیسے تُم نے رُخ بدلا پرائے ہو گئے؟ کل تک تُمہاری زِندگانی تھے نجانے […]
استاد صاحب کلاس میں اسلامیات پڑھا رہے ہیں۔ وہ بہت ہی پر اثر انداز میں حقوق العباد پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ وہ بچوں کو بتا رہے ہیں کہ اسلام میں یتیموں،مسکینوں،غریبوں اور بیواؤں کے کیا حقوق ہیں۔بچے بڑے انہماک سے استاد صاحب کا لیکچر سن رہے ہیں اور متاثر ہو رہے ہیں۔ جب کہ […]
ہم ترستے ہیں عمدہ کھانوں کو موت پڑتی ہے حکم رانوں کو جرم آزاد پھر رہا ہے یہاں بے کسوں سے بھریں یہ تھانوں کو چھپ کے بیٹھے گا تُو کہاں ہم سے جانتے ہیں تِرے ٹھکانوں کو سر پہ رکھتے ہیں ہم زمیں لیکن زیرِ پا اپنے، آسمانوں کو آئے دِن اِن کے بیچ […]
خوں آشام آج پھر رجو کی کمبختی آئی تھی ۔ شاید کوئی برتن اس سے ٹوٹ گیا تھا تبھی اسکی بھابھی اسے صلواتیں سنا رہی تھی ۔ میں چینی کے پیالے میں گدلی سی رنگت والی چائے میں گول پاپے ڈبو ڈبو کر کھاتا رہا ۔ میرے لیے یہ آئے دن کے معمول کی بات […]
ڈائری کا ایک ورق رات اللہ تعالی سے دعا مانگ کر سوئی تھی کہ تہجد کے لئے آنکھ کھل جائے اور اللہ تعالی نے دعا قبول کر لی۔ جب سے بڑی بہن کی طبیعت خراب ہوئی ہے ایک بے چینی سی ہر وقت دل کو لگی رہتی ہے۔نہ جانے کیوں یہ احساس دل کو جکڑنے […]