اڑتی چڑیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سویرے والی سورج کی نرم گرم کرنوں نے میری پلکوں پر دستک دے کر مجھے جگایا تھا ۔سخت جاڑے کے دن تھے۔ شاید رات اماں کھڑکی کی کنڈی چڑھا نا بھول گئی تھی تبھی تو کھڑکی میں پیدا ہونے والی جھری سے وہ کرنیں میرے تکیے تک آ پہنچیں تھیں ورنہ تو میں دن چڑھے تک سونے کا عادی تھا۔کرنوں کے ساتھ آنے والی ٹھنڈک بھی مجھے کبپکپا رہی تھی۔ایسے میں مجھے اماں کے ساتھ کی ضرورت تھی۔
“ام۔۔ام مماں ” ۔ منہ کھولتے ہی مجھے اپنے دائیں گال پر گیلا پن محسوس ہوا تھا۔میں نے بمشکل بھاری رضائی سے کھینچ کر اپنا ہاتھ باہر نکالا پر گال پر بہنے والی رال میں نے ہتھیلی سے نہیں کاندھے کے پاس اپنی قمیض سے ہی صاف کرلی تھی۔ میرے ٹیڑھے کپکپاتے منہ سے ام ماں کی گردان جاری تھی پر نہ جانے کیوں آج اماں جاگنے میں دیر لگا رہی تھی ورنہ تو پہلی ایک دو آوازوں پر ہی جاگ جاتی تھی۔میری مسلسل آوازوں پر ابا نے بڑبڑاتے ہوئے کروٹ بدلی اور ساتھ ہی چارپائی پر لیٹی اماں کا کاندھا جھنجھوڑا”. نسیمہ ، نسیمہ سنبھال اپنے مستانے کو کمبخت نے نیند حرام کر دی ہے “.ابا کی نفرت بھری غصیلی آواز نے میرے کانوں میں زہر انڈیلا تھا جس کی کڑواہٹ اماں کی شہد سے میٹھی آواز بھی کم نہ کر سکی۔” میں صدقے ، میں واری ۔ آ میرا پتر “.گہری نیند سے جاگی اماں نرم گرم رضائی چھوڑ کر تیزی سے میری طرف لپکی تھی پر میں نے غصے سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا میرے ہونٹ پھڑپھڑا رہے تھے اور دانت بھنچ کر کچکچانے لگے تھے۔ ” نہ میرا پتر ، ایسے نہیں کرتے ہوتے، آ شاباش آجا “.
غصے میں میرا سترہ سالہ اپاہج وجود اور بھی بھاری ہو گیا تھا ۔جسے چارپائی سے اتار کر وہیل چیئر پر ڈالنے میں اماں ہلکان ہوئی جارہی تھی اور دو فٹ کے فاصلے پر پڑا ابا خراٹے بھر رہا تھا۔حاجت رفع کروا کر اماں نے مجھے دالان میں بچھے تخت پر لٹا دیا تھا ۔جانتی جوتھی کہ اگر کمرے میں لے کر گئی تو میں اما ں اماں کی رٹ لگائے رکھو نگا اور ابا بے آرام ہو کر گالیاں دیتا رہے گا ۔جس گھر میں میں رہتا تھا اس کی ہر چیز چھوٹی تھی۔ چھوٹا سا صحن ، چھوٹا سا دالان اور پیچھے دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ایک میں میں ، اماں اور ابا سوتے تھے اور دوسرے میں سمیع اور ذکی ۔ ان دونوں کمروں کے دروازوں کے بیچ ایک پرانا سا تخت بچھا ہوا تھا جس پر اماں نے ایک پرانا سا کمبل جو جگہ جگہ سراخ ہو جانے کے باعث اوڑھنے کے قابل نہیں رہا تھا دہرا کر کے بچھایا ہوا تھا ۔میرے لاغرسے وجود کو اس پر سردی لگ رہی تھی۔ پر میں نے اماں سے ضد نہیں کی تھی اور میں اس سے کبھی ضد کرتا بھی نہیں تھا جیسے کوئی اپنی سانس سے ضد نہیں کرتا ۔وہ میرے لیے میری سانس جیسی ہی تھی۔
ذرہ جو اماں ادھر ادھر ہوتی تو مجھے اپنی سانس اکھڑتی محسوس ہوتی تھی پر جب ابا مجھے مستانہ بولتا تو نجانے کیوں مجھے چڑ چڑھتی تھی۔ میرے منہ سے نجانے کیسے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکلتے تھے اور میں اپنے استخوانی ہاتھ کبھی اپنے گالوں پر اور کبھی اپنی ٹانگوں پر مارا کرتا تھا۔میری بھاری رضائی اماں نے مجھ پر ڈالی تو میری اندر سے ٹھٹھرتی جان کو سکون ملا۔اماں تخت کے قریب ہی کھلے باورچی خانے میں پیڑھی پر بیٹھ کر چائے بنانے لگی اور میں دالان کی محراب میں لٹکتے خالی پنجرے کو تکنے لگا جس میں بیٹھنے والی بھوری چڑیا اڑ چکی تھی۔میرا زیادہ تر وقت اس پنجرے کو تکتے ہی گزرتا تھا۔۔ سب کو لگتا تھا کہ شاید مجھے وہ چڑیا اچھی لگتی ہے جسے سردی سے بچانے کے لیے اماں ایک موٹی سی گدیلی پنجرے پر ڈال دیتی تھی۔پر حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے آزاد فضاؤں میں اڑنے والی چڑیاں زیادہ اچھی لگتی ہیں۔پنجرے والی چڑیا تو مجھے اپنے جیسی ہی لگتی تھی بےبس اور مجبور۔ میرا دل چاہتا تھا کہ اسے پنجرہ کھول کر اڑا دوں اسی لیے جب ذکی پنجرہ میرے قریب لاتا تو میں بےچین ہوکر اس پر جھپٹتا تھا پر وہ ایک دم اسے پیچھے کرلیتا تھا۔ کاش۔۔۔۔کاش میرا بس چل جاتا۔ چڑیا کو ہی سوچتے سوچتے نجانے کب میں نیند کی وادی میں جا پہنچا تھا۔
*******
ہر عورت جو نو مہینے تک اپنے رحم میں ایک نامحسوس بوجھ کو اٹھاتی ہے۔وقت مقررہ پر درد زہ کی تکلیف سہہ کر بیٹا یا بیٹی کی صورت سرشاری پالیتی ہے۔پر کچھ عورتیں میری اماں جیسی بھی ہوتی ہیں۔ جنھیں مجھ جیسے بچے کی صورت تمام عمر کا روگ ملتا ہے جسکی ٹیڑھی زبان سے کوئی لفظ صحیح طرح ادا نہیں ہوتا،جسکے کمزور ہاتھ اپنا کوئی کام نہیں کر پاتے اور جسکی لاغر ٹانگیں خود اپنا بوجھ بھی اٹھا نہیں سکتیں۔میرا نام فہد تھا پر اماں مجھے پیار سے فادی کہہ کر بلاتی تھی۔ساہیوال شہر کے جس گھرانے میں میں پیدا ہوا تھا وہاں چھوٹی سے چھوٹی بیماری کا دوا دارو بھی مشکل تھا جبکہ میں تو سر تا پا ایک بیماری ہی تھا۔اماں نے کئی حکیموں اور ڈاکٹروں کو مجھے دکھایا پر ہر طرف سے مایوسانہ جواب ہی ملا۔اور جو کسی نے علاج کیا بھی تو بےسود ۔آخر میری دفعہ ہی ایسا کیا ہوا تھا یہ تو اماں بھی نہ جان پائی تھی ورنہ تو مجھ سے تین سال بڑا سمیع اور پانچ سال چھوٹا ذکی بالکل ٹھیک ٹھاک پیدا ہوئے تھے۔اماں خرچے میں سے جو بچاتی وہ میرے علاج پر لگا دیتی تھی اور ابا کو اسی بات پر تپ چڑھتی تھی۔ وہ اماں کی بہ نسبت زیادہ حقیقت پسند تھا۔ جانتا تھا کہ یہ علاج صرف اور صرف اسکی کمائی کا زیاں ہے۔ اماں کیا کرتی وہ تو پاگل تھی میرے لیے۔ اسکے اندر تو بس ایک ہی دھن سمائی رہتی تھی کہ میں بھی دوسرے بچوں کی طرح بھاگوں دوڑوں ، اپنے ہاتھوں سے اپنے سارے کام کروں اور روز رات کو اسکے بازو کے تکیے پر سر رکھ کر دل کی ساری باتیں اسکے کانوں میں انڈیل دوں ۔ اسی لیے وہ جب تک مجھے گود میں اٹھا سکتی تھی ہر وارے کے حکیم،ڈاکٹر اور مزار پر مجھے اٹھائےاٹھائے بھاگی پھری پر جیسے جیسے میرا وجود بڑا ہوتا گیا اسکا وجود بھی دکھ سے بوجھل ہوتا گیا۔ اور اب تو شاید اسنے بھی سوچ لیا تھا کہ مجھے اس معذوری اور اسے اس معذوری کے دکھ کے ساتھ ہی جینا ہوگا ۔
ایک تو میرا وجود ہی اماں کی جان کا روگ تھا اس پر ابا کی بدسلوکی ہر وقت اماں کا دل دکھاتی تھی۔ نجانے ابا کا دل اتنا سخت کیوں تھا۔ اسے مجھ سے ہمدردی کیوں محسوس نہیں ہوتی تھی۔اخر کو میں بھی اسکی اولاد تھا۔ لیکن مجھے نہیں یاد ابا نے مجھ سے کبھی صحیح طرح بات کی ہو ، کبھی میرے سر پر ہاتھ پھیرا ہو, کبھی میرے منہ سے بہنے والی رال صاف کی ہو۔ وہ میرا کبھی کوئی کام نہیں کرتا تھا۔اج تک مجھے نہاتی بھی اماں ہی تھی۔ میں بڑا ہوگیا تھا اور بڑے لڑکوں کے کچھ کام ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں وہ خود بھی چھپ کر کرنے ہیں مگر ابا کو احساس نہیں تھا۔اماں اکثر اس بات پر ابا سے جھگڑتی تھی پر ابا ہمیشہ اماں کو ہی طعنہ دیتا کہ ” تو نے ہی اسے ایسا پیدا کیا ہے اب تو خود ہی سنبھال “.سمیع بڑا ہوا تو اماں نے اس سے میرے لیے مدد مانگی پر ہر بار وہ بدک جاتا تھا اماں اسکے ترلے منتیں کرتی رہتی لیکن وہ بہانے بنا کر دوستوں میں نکل جاتا۔ چاروناچار میرے وہ کام بھی اماں کو ہی کرنے پڑتے تھے۔
اور اب تو سمیع بھی کچھ کچھ ابا جیسا ہی ہوتا جارہا تھا۔ اماں کی زیادہ تر توجہ میری طرف ہی رہتی تھی اس لیے جب اسکا کوئی کام وقت پر نہ ہوتا تو وہ غصے میں میری طرف دیکھ کر بڑبڑانے لگ جاتا تھا۔ ابا کے روئیے پر مجھے غصہ آتا تھا لیکن سمیع کی لال آنکھوں سے مجھے خوف محسوس ہوتا تھا۔ذکی بھی مجھ پر کوئی خاص دھیان نہیں دیتا تھا پر کبھی کبھی اسکا سلوک میرے ساتھ دوستانہ ہوتا تھا میری طرف بال اچھال کر کہتا ” فادی بھائی کیچ ” ۔اور میں اپنے کمزور ہاتھوں سے بےڈھنگے پن سے اس بال کو پکڑنے کی کوشش کرتا پر شاید ہی میری کوشش کبھی کامیاب ہوئی ہو ۔زندگی کے روز و شب ایک ہی ڈھب سے گزر رہے تھے جب سے میں پیدا ہوا تھا اماں نے ایک دن تو کیا ایک گھنٹے کے لیے بھی مجھے خود سے جدا نہ کیا تھا پر اس دن نہ جانے کیوں اماں مجھے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ میری آنکھ کھلی تو کمرہ خالی تھا ۔
” ام ۔۔ماں۔ ، ام ۔۔۔مماں “.ایک دو اور پھر نہ جانے کتنی ہی آوازیں میں نے دے ڈالیں پر اماں نہیں آئی ۔ میرے شور پر ساتھ والے کمرے سے سمیع آ گیا اور زور زور سے مجھے ڈانٹنے لگا اس کی ڈانٹ پر میں سہم سا گیا اور میری آواز اندر ہی گھٹ گئی ۔ اماں کی غیر موجودگی میرے اندر وحشت جگا رہی تھی ۔ میرے آنسو بری طرح بہہ رہے تھے ۔ اور دبے دبے ہونٹوں سے میں اماں کو بلا رہا تھا ۔ اماں نے تو نہ آنا تھا سونہ آئی۔مجھے اماں کے ساتھ کی سخت ضرورت تھی۔نیند سے جاگتے ہی اماں مجھے رفع حاجت کے لئے لے جاتی تھی اور اب کتنی دیر سے مجھ سے برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا َ تبھی برابر والے گھر سے اماں رحمتاں آگئی ۔” ہلاں میرا پتر ، اٹھ گیا ، چل اٹھ ، آمیرے ساتھ “.وہ اماں سے عمر میں کافی بڑی تھی ۔اور اسے میرا وجود سنبھالنا بھی مشکل تھا پر جیسے تیسے وہ مجھے اٹھا کر رفع حاجت کے لئے لے گئی ۔وہ وقت میرے لئے انتہائی اذیت کا تھا ۔اماں کے سوا کسی پر میرا آپ نہیں کھلا تھا ۔ خیر وہ وقت تو کیسے نہ کیسے گزر گیا ۔پر جب وہ مجھے تخت پر لٹا کر میرے لئے دلیہ لے کر آئی تو میں نے سخت غصے میں ہاتھ مارنے شروع کر دیے اور بس اماں اماں کی رٹ لگالی ۔تب اماں رحمتاں نے مجھے بتایا کہ اماں مجھے اس کے حوالے کر کےابا کے ساتھ ایک دن کے لئے گوجرہ چلی گئی ہے۔ جہاں میری پھوپھی کی بیٹی کی شادی تھی یہ سن کر مجھے یاد آیا دو دن سے جب اماں مجھے تخت پر لٹا دیتی تو اندر کمرے میں ابا اماں سے لڑتا رہاتھا ۔ اماں کے چہرے پرگہری فکر کے آثار رہنے لگے تھے ۔
اب جب وہ جا چکی تھی میرا دل انتہائی غمگین ہوگیا تھا۔میرے ہونٹوں کو چپ لگ گئی اور میں نے کچھ بھی کھانے سے انکار کر دیا۔ میری نگاہ پنجرے پر جم کر رہ گئی تھی جس میں بیٹھی چڑیا پرسکون تھی پر میرا دل سینے میں پھڑپھڑا رہا تھا۔ اس دن میرے اندر شدت سے یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ وہ چڑیا پنجرے سے اور میرا دل سینے سے اڑ جائے ۔ پہلی بار مجھے اپنا جینا بے حد برا لگ رہا تھا۔دن میں کتنی ہی بار اماں رحمتاں میرے لیے کھانے کو کچھ نہ کچھ لاتی رہی تھی پر میرا منہ نہ کھلا بس ایک ٹک پنجرے کی طرف ہی دیکھتا رہا۔سمیع وہ کھانا کھا کر جو اماں بنا کر رکھ گئی تھی باہر اپنے دوستوں میں چلا گیا تھا۔اماں کے بعد ذکی کا وجود میرے لیے غنیمت ہوتا تھا پر اسے بھی ابا اپنے ساتھ لے گیا تھا۔
جیسے جیسے شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ٹھنڈ بڑھتی جا رہی تھی۔اماں رحمتاں کو بھی اب میرے کچھ نہ کھانے پر غصہ انے لگا تھا۔ وہ مجھے کچھ نہ کچھ کھلا دینا چاہتی تھی تاکہ پھر مجھے کمرے میں لٹادے لیکن میں وہیں چڑیا کے پاس رہنا چاہتا تھا۔ سردی زیادہ ہوگئی تھی۔اسوقت تک اماں پنجرے پر گدیلی ڈال دیا کرتی تھی مگر آج چڑیا کو سردی سے بچانے والا کوئی نہیں تھا۔اماں رحمتاں کو بھی اسکا خیال نہیں آیا تھا۔ میرے اشارے اور بے سروپا الفاظ اسے چڑیا کی تکلیف کا احساس نہیں دلا سکے تھے۔۔اسنے زبردستی تھوڑا بہت دلیہ میری منہ میں انڈیلا اور پھر کھینچ تان کر میرے ناراض وجود کو کمرے میں بچھی چار پائی پر ڈال گئی۔ساتھ ہی کہہ گئی ۔ ” پتر اب صبح ہی آؤں گی ۔ سونے کی کوشش کرو “.اس کے جاتے ہی چھوٹا سا تاریک کمرہ قبر کی طرح لگنے لگا ۔ اماں ہوتی تھی تو تاریکی میں بھی نور پھیلا رہتا تھا ۔ اب پورے گھر میں میرے تنہا وجود کی آہیں سننے والا کوئی نہ تھا ۔اچانک درد کی ایک تیز ٹیس میرے پیٹ میں اٹھی تھی بستر پر لیٹے لیٹے ہی میں بل کھا گیا تھا پیٹ میں مسلسل مروڑ اٹھنے لگے تھے ہر گزرتا لمحہ میرے لیے تکلیف اور خوف بڑھاتا جا رہا تھا ۔اماں کے ہوتے کبھی میرا لباس گندا نہیں ہوا تھا اور اب مجھے بستر بھی گندا ہو جانے کا ڈر تھا ۔میں نے اٹھنے کی سخت کوشش کی ۔ لیکن اس کوشش میں اٹھنے کی بجائے میں بستر سے نیچے گر پڑا ۔ٹھنڈے فرش کی چبھن ناقابل برداشت تھی ۔اس ٹھنڈک کو نا جھیلتے ہوئے میرا پیشاب خطا ہو گیا۔ مجھے بری طرح رونا آیا میرا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا اماں تم کہاں ہو کمرے کے دروازے کی جھری سے باہر صحن میں لگے ساٹھ والٹ کے بلب کی ہلکی ہلکی روشنی آ رہی تھی۔ میں نے اسی طرف گھسیٹنا شروع کیا۔ ابھی دروازے سے کچھ فاصلے پر ہی تھا کہ گھر کا دروازہ زور سےکھلنے کی آواز آئی ۔ساتھ ہی ایسا لگا جیسے ایک ساتھ کافی لوگ اندر آئے ہوں ۔ تیز قدم کمرے کے قریب آئے اور پھر بلب کی روشنی بجھ گئی مجھے نہیں پتہ کہ باہر کیا ہو رہا تھا۔میں نے پھر دروازے کی طرف گھسیٹنا شروع کیا اور ساتھ ہی اپنی دانست میں سب کو آوازیں دیں لیکن کسی نے میری آواز نہیں سنی ۔پر اچانک ایک آواز سن کر میں حیرت سے اپنی جگہ جم ساگیا ” اوں ، آؤں ، ۔۔چھوڑو مجھے “.
بلاشبہ وہ زنا نہ آواز تھی پر اماں کی نہیں۔ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلا تو جیسے میں ہوش میں آیا اور دروازے کی طرف ہاتھ پاؤں مارتا بڑھنے لگا ۔دروازہ میں نے ہاتھ سے کھول لیا تھا پر لکڑی کے دروازے کی چوکھٹ میں لوہے کی کنڈی کے سوراخ سے میرا منہ رگڑ گیا۔ایک چیخ سی میرے منہ سے نکلی پر دوسرے کمرے سے آتی دبی دبی چیخوں کی آوز میں دب گئی۔ میں پہلے سے زیادہ تیزی سے ہاتھ پاؤں مارتا کمرے سے باہر نکلا اور دوسرے کمرے میں کی طرف اپنا جسم گھسیٹنا شروع کر دیامگر ایک بار پھر تخت کے پائے سے نکلتی ایک کیل سے میرا منہ بری طرح رگڑا اور گیلاپن میرے ماتھے سے چہرے پر پھیلنے لگا ایک اذیت کی سی کیفیت تھی جس میں میرا وجودگھسیٹ رہا تھا۔ دوسرے کمرے میں ایک اودھم سا مچا ہوا تھا زنانہ دبی دبی چیخیں اور سمیع کے ساتھ کچھ اور آوازیں بھی آرہی تھیں۔ سخت سردی میں ٹھٹھرتا میرے ہی پیشاب سے بھی بھیگا میرا وجود نہ جانے کس طاقت کے زیر اثر سمیع کے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا۔میرا چہرہ خون میں تربتر ہوچکا تھا۔کمرے کے قریب پہنچ کر میں نے ہاتھ مارا تو دروازہ کھل گیا ۔میں نے پوری طاقت سے کھینچ کر اپنا وجود چوکھٹ پر ڈال دیا ۔اندر کا منظر عجیب تھا جس میں سمیع کے ساتھ دو لڑکے اور ایک لڑکی موجود تھی۔ دونوں لڑکوں نے بستر پر لیٹی لڑکی کے ہاتھ پاؤں پکڑے ہوئے تھے اور سمیع اس کے گلے میں لپٹا دوپٹہ کھینچ رہا تھا ۔میرے کمرے میں داخل ہونے پر سب نے گردن گھما کر مجھے دیکھا تھا۔
” یہ یہاں کیسے آگیا ” ۔
سمیع نے حیرت اور کوفت سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ ” زخمی ہے” اس کا ایک ساتھی بولا تھا ۔ چند لمحے سمیع مجھے نفرت سے دیکھتا رہا۔نہ جانے میں نے ایسا کیا کر دیا تھا کہ اتنی زخمی حالت میں دیکھ کر بھی اسے مجھ سے نفرت محسوس ہو رہی تھی میرے وجود کو آگے گھسیٹتا دیکھ کر وہ لڑکی کو چھوڑ کر میری طرف بڑھنے لگا ۔اس نے مجھے اٹھانے کی کوشش کی لیکن میرے اکڑتے وجود کو اٹھانا اس کے لئے تنہا اٹھانامشکل تھا ۔” رشید اس کی موجودگی میں کچھ نہیں کر سکتے پہلے اس کو اسکے بستر پر ڈالنا ہوگا “.سمیع کی بات سن کر لڑکی کے پیر پکڑنے والا لڑکا پیر چھوڑ کر میری طرف بڑھا میں نے اپنی نہ سمجھ آنے والی زبان میں سمیع سے مدد کی درخواست کی پر اس نے میرے شور مچانے پر ایک زور دارطمانچہ میرے خون آلود گال پر دے مارا۔ میں نے غصے میں زور زور سے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے تھے۔ مجھے سنبھالنا دونوں کے لئے مشکل ہو رہا تھا جیسے ہی دونوں مجھے اٹھا کر کمرے کی طرف بڑھے تو دالان سے گزرتے سمیع کے کاندھے سے ٹکرا کر پنجرہ نیچے گر پڑا اور وہ آخری منظر جو میں نے دالان کا دیکھا اس میں چڑیا پنجرے سے اڑ گئی تھی۔ ان دونوں نے میرے بری طرح چھٹکے کھاتے وجود کو چارپائی پر پٹخا لیکن اسی وقت دوسرے کمرے سے ان کے ساتھی کی چیخ سنائی دی۔۔ “۔ او ، بھاگ گئی اوئے “
وہ سنتے ہی دونوں دروازے کی طرف بھا گے اس رات سمیع کا آخری جملہ میرے کانوں نے یہ سنا تھا۔” او لعنتی تجھ سے ایک لڑکی قابو نہیں کی گئی “.پھر بھاگتے قدم گھر کے دروازے سے باہر نکل گئے تھے ۔ نہ جانے ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوا تھا پر میرے تو دکھی زخمی وجود کو قرار مل گیا تھا جب میں نے اڑتی چڑیا کو دیکھا تھا۔
از
کرن نعمان