کرن نعمان
راکا پوشی
دف اور بانسری کے سنگم سے بنی ایک دل آویز دھن اسے خوابوں کی دنیا سے کھینچ کر سنگلاخ برفیلے پہاڑوں کی دنیا میں واپس لے آئی تھی۔گو کہ ابھی رات کچھ زیادہ نہیں ہوئی تھی لیکن گلگت سے وادی نگر کے اس چھوٹے سے گاوں مینا پن تک کا سفر جوزفین کے لیے خاصہ تھکا دینے والا تھا۔اوشو تھانگ (شاہی مہمان خانہ) ہوٹل میں ان کے کمرے پہلے سے ہی بک کرواۓ جاچکے تھے۔اگلا ایک ہفتہ اسکے لیے شدید جسمانی مشقت کا تھا جس کے لیے وہ اپنے جسم اور ذہن کو مکمل تیار رکھنا چاہتی تھی اسی لیے بلا تردد اپنے کمرے میں آتے ہی سو گئی تھی۔دیگر معاملات اسکے گروپ لیڈر جیمز نے سنبھالے تھے۔
موسیقی کی آواز ہوٹل کے پچھلے احاطے کی طرف سے آرہی تھی ۔وہ آسٹریلین فر والا مفلر کاندھوں پر ڈالتی کمرے سے باہر نکل آئی ۔موسیقی کے تعاقب میں وہ وہاں تک چلی آئی تھی جہاں اسکے گروپ کے دیگر چار افراد مقامی پورٹرز کے ساتھ مل کر تفریح کر رہے تھے۔احاطے کے بیچ جلتی لکڑیوں کے گرد مقامی لوگوں کا رقص انتہائی دلکش منظر تھا ۔انہیں میں ایک وہ تھا جس کی نیلی آنکھوں اور پرسکون چہرے نے جوزفین کو مبہوت کر دیا تھا۔اسکی نگاہ اس پر کشش چہرے پر جیسے جم سی گئی تھی۔جہاں جہاں اس کے قدم محو رقص تھے وہیں وہیں جوزفین کی نظر گھوم جاتی تھی۔آخر کیا تھا اس میں ایسا ؟
وہاں وینکوور ڈاون ٹاون کینیڈامیں جوزفین کے دن رات بےشمار مردوں کے بیچ گزرتے تھے ۔مرد ذات اس کے لیے کوئی ماورائی کشش نہیں تھی اور نہ ہی وہ کوئی سولہ سترہ سالہ لڑکی تھی جسکے جذبات مرد کے ساتھ سے برانگیختہ ہو جاتے ۔وہ ایک تیس سالہ تجربہ کار عورت تھی جسنے بےانتہا امیر شوہر ہونے کے باوجود اپنی سرتوڑ محنت سے ایک شاندار ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو پروان چڑھایا تھا۔وہ ایک مردم مار قسم کی عورت تھی اور ایسی عورت کبھی بھی پہلی نظر میں کسی چہرے کی اسیر نہیں ہوتی تو پھر آج کیوں اسکے دل کی ساکن جھیل میں ایک معمولی چہرے نے ارتعاش پیدا کیا تھا۔اسے پہاڑوں سے عشق تھا اور یہی عشق اسے راکاپوشی کے دامن تک لے آیا تھالیکن اب اسے لگ رہا تھا کہ راکا پوشی اسکے جنون کو سکون ہی نہیں دل کو ایک انوکھی بےچینی بھی عطا کرنے والا تھا۔
***********
اگلی صبح وہ پوری طرح تیار ہو کر ڈائننگ ہال میں پہنچی تو اسکے گروپ کے باقی افراد بھی تیار بیٹھے تھے۔جیمز نے اسے اپنے پاس بلایا وہ اسی شخص کے ساتھ کھڑا تھا جسکے تصور نے رات بھر اسے بےچین کیے رکھا تھا۔”راکا پوشی بیس کیمپ کے لیے یہ ہمارا گائیڈ ہے زمان خان،باقی پورٹرز کو بھی یہی لیڈ کرے گا “۔ جیمز نے دونوں کو متعارف کروایا ۔وہ زمان خان کی طرف ہاتھ بڑھانے سے خود کو روک نہیں پائی ۔ہلکی شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسنے جوزفین کا ہاتھ تھام کر اسکی خیریت دریافت کی تھی۔جوزفین کو خوشی محسوس ہوئی کے وہ انگلش سمجھ بھی رہا تھا اور بول بھی رہا تھاورنہ تو اسکی معلومات کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی بہت کم تھی اور انگلش بولنے والے اس سے بھی کم۔
ناشتے سے فارع ہو کران سب نے اپنے اپنے رک سیک کاندھوں پر لادےاور ہائکنگ سٹیکز ہاتھوں میں تھام کر ہوٹل سے باہر آگئے۔باقی کھانے پینے کا سامان اور خیمے پورٹرز نے اٹھا رکھے تھے۔ان کے قدم ان کی پہلی منزل ہاپاکون کی جانب رواں دواں تھے۔پتھریلے،دشوارگزار،تنگ راستوں پر انتہائی دیدہ زیب دلکش مناظران سب کے دل موہ رہے تھےلیکن جوزفین کے لیے زمان خان کا لب ولہجہ بھی سحرانگیز تھاجب وہ انہیں گلگت بلتستان اور راکا پوشی کی جادوئی اور تاریخی کہانیاں سناتا تھا۔وہ پانچوں پہلی بار ایسے دشوارگزار راستے پر آۓ تھے۔اس سے پہلے وہ شمالی امریکہ میں البرٹا اور سوئٹزرلینڈ میں الپائن کے پہاڑی سلسلوں کی خاک چھانتے رہے تھےجہاں ٹریکنگ اتنی دشوار نہیں تھی مگر اس ٹریک پر ایک گھنٹے میں ہی ان کے سانس پھول گئے تھے۔
یہاں آکے صحیح معنوں میں جوزفین کو اندازہ ہوا تھا کہ یہ پہاڑ ایک نشہ ہوتے ہیں جو اگر کسی کو لگ جاۓ تو وہ اس کا لطف لینے کو تمام عمر سرگرداں رہتا ہے۔شام تک وہ ہاپاکون کی سرسبز چراگاہوں میں پہنچ گۓ تھےجنھیں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔خیمے لگادئیےگۓ تھے کیونکہ رات ان کا قیام یہیں تھا۔کھانا کھا کرسبھی اپنے اپنے خیمے میں سونے جاچکے تھے۔کوشش تو جوزفین نے بھی کی تھی سونے کی پر وہ آنکھیں ،وہ چہرہ،وہ لب ولہجہ اسے ایک مستقل بیقراری میں مبتلا کیے ہوۓ تھا۔بانسری کی پر سوز لے سن کر وہ بےچین سی خیمے سے باہر نکل آئی۔کچھ دور ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھا زمان خان بانسری بجا رہا تھا۔اسے قریب آتا دیکھ کر مستعد سا ہوگیا۔اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ بھول چکی تھی کہ فضاء میں لہو جما دینے والی سردی ہے۔زمان خان اسے بےخود سا تکتے پاکر حیران تھا۔
“رک کیوں گۓ ،بجاؤ نہ “۔
اسکے اصرار پر زمان نے پھر سے بانسری اور لبوں کا ناطہ جوڑ لیا تھا۔نجانے وہ کب تک اس مدھر سنگت کے سحر میں بندھی رہتی کہ اچانک کہیں دور کوئی گلئشیر ٹوٹا اور اسکی خوفناک آواز پر وہ بےاختیار زمان کے سینے سے جالگی۔اسکے سینے میں دھڑکنوں نے ایک طوفان اٹھایا تھا۔لیکن جب وہ طوفان کچھ تھماتب اسے احساس ہوا کہ دوسرے دل کی دھڑکنیں پرسکون ندی کی طرح بہہ رہی تھیں۔اسے شدید حیرت نے گھیرا تھا۔تیس سال کی عمر میں بھی وہ ایک دلکش عورت تھی اور اسکی قربت صنف مخالف کو بےچین کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی تھی لیکن زمان کی پرسکون سانسیں اور چہرہ اسے حیران کرگیا تھا۔
*************
اگلے دن وہ سب اپنےدوسرے پڑاؤ طغافری کی جانب چلدئیے تھے۔زیادہ تر راستہ اونچائی کا تھاجس پر جوزفین سب سے پیچھے تھی۔ اسکا ساتھ دینے کے لیے زمان خان بھی ساتھ چل رہا تھااور آس پاس کے علاقوں کی معلومات بھی فراہم کرتا جارہا تھا۔تبھی اچانک جوزفین نے پوچھا تھا “تمھارے اندر اتنا سکون کیوں ہے “۔ وہ اسے دیکھ کر تھوڑا مسکرایا ” قدرت کی مہربانی ہے”۔وہ چند لمحوں کو دم بخود سی رہ گئی۔کتنا مکمل جواب تھا وہ سوچنے لگی قدرت نے اسے کیا کچھ عطا نہیں کیا تھا پھر بھی ایک بےنام سی بےچینی نے اسکی پوری زندگی کا احاطہ کیا ہوا تھااور اس شخص کا معمولی لباس اور جوتے اسکی مالی حالت کو واضح کرنے کے لیے کافی تھےپھر بھی وہ پرسکون تھا۔
خطرناک چڑھائی عبور کر کے جیسے ہی سب لوگ طغافری کے میدان میں پہنچے تو جان میں جان آئی۔وہ وہیں گہری سبز گھاس کے ایک قطعے پر لیٹ کر لمبی لمبی سانسیں کھینچنے لگی پر جیسے ہی ذرہ سر گھما کر دیکھا تو جیسے تھی ویسے کے ویسے ہی ساکت رہ گئی اسکا محبوب راکاپوشی اسکے سامنے سر اٹھاۓ کھڑا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھاجسکے لیے وہ سات سمندر پار کر آئی تھی۔جب ایک ڈاکومنٹری فلم میں اسنے راکاپوشی کی تصاویردیکھی تھیں وہ تب سے اسکے عشق میں مبتلا تھی ۔آج اسے اتنا قریب دیکھ کر وہ یقین سے کہہ سکتی تھی کہ راکاپوشی اپنی تصاویر سے ہزاروں گنا زیادہ حسین تھا۔نجانے کب تک اسکی نگاہ راکاپوشی پر جمی رہتی کہ زمان خان کی بےخود کردینے والی آواز نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کوئی غمگین سا مقامی گیت گا رہا تھا ۔ہر کوئی اس گیت کے سحر میں جیسے کھو گیا تھا۔
جلد ہی راکا پوشی کے دامن میں رات اتر آئی تھی سب اپنے تھکے جسموں کو سکون دینے کے لیےخیموں میں چلے گئےمگر وہ آج بھی اپنی بانسری کے ساتھ ایک چھوٹی سی ندی کنارے بیٹھا تھا۔جوزفین اسکے قرب سے سرشار ہونے کے لیے اسکے قریب چلی آئی تھی ۔
“تم تو کہتے ہو قدرت تم پر مہربان ہے پھر یہ کیسا دکھ ہے جو تمہارے لہجے میں بولتا ہے “۔
ایک آہ سی بھر کر زمان نے سر بلند راکاپوشی کو دیکھا
” انسان منزل پا جاۓ تو سکون مل جاتا ہے لیکن ہر منزل کی راہ میں دکھ پڑاؤڈالتے ہیں ان سے گزرے بغیر منزل نہیں ملتی “۔
“تمھاری منزل کے راستے میں دکھ کب آۓ “۔
ایک دکھی سی مسکراہٹ اسکے لبوں کو چھو گئی ۔
” جب زلزلہ آیا۔ وہ ایسا دکھ تھاکہ پھر کوئی دکھ دکھ ہی نہیں لگآ “۔
“اوہ ،ہاں ۔۔میں جانتی ہوں اس سانحے کے بارے میں ۔۔تم نے ۔۔۔۔تم نے کیا کھویا اسمیں “۔
ایک سایہ سا اسکے چہرے پر چھا گیا ۔
” گھر ۔۔۔ گھر والے ، اور ۔۔۔اور “۔
نجانے وہ کیا بتانا چاہتا تھالیکن الفاظ اسکا ساتھ نہ دے پاۓ ۔آنکھوں سے بہتا دکھ چھپا کر وہ اپنے خیمے کی طرف بڑھ گيا۔
***********
اگلے دن جیمز کا پروگرام تھا کے دوپہر کے بعد واپسی کا سفر شروع کیا جاۓ لیکن جوزفین دو سو میٹر طویل گلئشیر پار کر کے دیران بیس کیمپ میں کٹریلی جھیل تک جانا چاہتی تھی ۔باقی چاروں میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ جانے پر آمادہ نہیں تھا۔جیمز جانتا تھا کہ جوزفین ایک بار جس بات کا ارادہ کر لے وہ پورا کر کے ہی دم لیتی ہے اس لیے اسے مجبورا زمان خان کو اس کے ساتھ بھیجنا پڑا کیونکہ صرف وہی جانتا تھا کہ گلئشیر کس طرح پار کیا جاۓ گا اسمیں جگہ جگہ بھربھری برف تلے سینکڑوں میٹر گہرے سوراخ تھے جس میں کوئی بھی گیا تو واپس نہ آسکا۔
برف کے عظیم تودے پر زمان خان کا ساتھ جوزفین کے لیے نہایت پرمسرت تھااس خوشی میں نجانے وہ اس سے کتنی ہی باتیں کر گئی تھی۔برفیلاکٹھن راستہ نجانے کب تمام ہوااور وہ دیران کی حسین چوٹی کے ساۓ تلے آپہنچے۔کٹریلی کے سرد پانیوں سے منہ دھوتے اسنے زمان سے کہا” تم میرے ساتھ چلو زمان،میں تمہیں وہاں لے جاؤں گی جہاں رہنا کسی بھی بڑے آدمی کا خواب ہوسکتا ہے۔جہاں ترقی و کامیابی تمھارے قدموں تلے ہوگی۔دولت اور شہرت تمھاری باندیاں ہونگی “۔ جوابا اسکا جاندار قہقہہ جووفین کے لیے حیرت انگیز تھا ۔سرد ہوتے ہاتھوں کو گرم کرنے کے لیےوہ چھوٹی چھوٹی خشک لکڑیوں کو جمع کرکے پتھر سے سلگانے کی کوشش کررہا تھا ۔آگ جل اٹھی تبھی اسنے جوزفین کی حیرت بھری آنکھوں میں دیکھا ۔” میں اپنی زندگی چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا ۔غم روزگار میں دل تو ساتھ لے آیا ہوں پر میری دھڑکن وہاں نگر میں میری منتظر ہے ۔میری جنت اسی خطہ ارضی پر ہے اور بھلا جنت سے بڑھ کر کسی کو اور کیا چاہیے ہے ” ۔ایک ننھا سا انگارہ جوزفین کی ہتھیلی پر آپڑا تھا جو اسکی جلد پر لہو رنگ نشان چھوڑ گیا۔غم کا ایک انگارہ اسکے دل پر بھی پڑا تھا جس کا نشان سیاہ تھا۔
آتے وقت اس کی روح جتنی ہلکی پھلکی تھی واپسی میں اتنی ہی بوجھل ۔رات وہ چاہنے کے باوجود بانسری کی آواز پر باہر نہیں نکلی تھی۔اگلی صبح روانگی سے قبل وہ کتنی ہی دیر راکاپوشی کو اپنے دل میں اتارتی رہی تھی کسی محبوب سے وداع لینا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے اسے آ ج پتہ چلا تھا۔کاش اسکے بس میں ہوتا تو ہمیشہ ہمیشہ کیلیے راکا پوشی کی آغوش میں سما جاتی ۔واپسی کا سفر زیادہ تر اترائی کا تھااس لیے سہل تھا پر جوزفین کو ہر ہر قدم پر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی بہت قیمتی متاع پیچھے چھوڑے جارہی ہے۔گو کہ زمان خان اب بھی اس کے ساتھ تھا پر اب یہ ساتھ بھی دل پر ایک بوجھ کی طرح دھرا تھا۔اسے دکھ تھا کے زمان خان نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کیا تھا۔کوئی غریب شخص ایسا کیسے کر سکتا تھا۔یہ چند ہزار کمانے والے بھلا جنت کیسے پا سکتے ہیں۔وہاں کینیڈا میں جہاں وہ رہتی تھی دنیا کا پرتعیش علاقہ تھا مگر جنت کا ٹائٹل تو وہ اسے بھی نہیں دے سکتی تھی ۔جنت تو اس کے لیے کوئی ماورائی شے تھی۔
ہاپاکون کی چراگاہوںسے گزرکر وہ رات سے کچھ پہلے میناپن پہنچ گئے تھے۔اوشو تھانگ میں ان کیلیے کھانا تیار تھا۔اگلی صبح ناشتے کے بعد جیمز نےزمان اور باقی پورٹرز کو طے کیا گیا معاوضہ ادا کردیا۔کچھ ہی دیر میں وہ سب بھی گلگت کی طرف نکلنے والے تھے۔زمان خان کو انہوں نے نگر میں چھوڑنا تھا۔کل جس طرح جوزفین راکاپوشی کو اپنے دل میں بھر لینا چاہتی تھی آج اسی طرح وہ زمان خان کو بھی اپنے دل میں بھر رہی تھی جتنا وقت وہ ساتھ تھے اس کی کوشش تھی کہ وہ اس کی آنکھوں کے گوشوں سے باہر نہ جا سکے آج پھر اسے ایک محبوب سے وداع لینا دشوار تھا۔لیکن اسے حیرت تھی کہ ایسی کوئی بھی دشواری اسکے محبوب کو نہ تھی۔جیسے جیسے وہ نگر کے قریب ہو رہے تھے زمان خان کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر سکون گہرا ہو رہا تھا۔ایک چوراہے پر وہ اترا سب سے ہاتھ ملا کر ایک گہری ممنون نگاہ جوزفین پر ڈال کر اپنے راستے پر ہولیا ۔
***********
جیپ جھٹکے سے آگے بڑھ گئی تھی۔وہ لمحہ بہ لمحہ جوزفین کی آنکھوں سے دور ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے کے جوزفین کا دل بند ہو جاتا اس نے جیمز سے جیپ رکوانے کا کہا ۔ اگلے لمحے وہ سب کو حیران پریشان چھوڑ کر اسی راستے پر ہولی جس پر وہ گیا تھا۔گو کہ فاصلہ بہت تھا مگر اس نے اسے ایک چھوٹے سے گھر میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا۔دروازے کے باہر ایک لمحے کو اس نے سوچا تھا کہ آخر کیوں۔ ، کیوں وہ اس کے پیچھے آئی ہے۔ پر کچھ سمجھ نہیں آیا۔اسنے دل کڑا کر کے دستک دے ڈالی شاید وہ ایک نظر اس جنت کو دیکھنا چاہتی تھی جس کی خاطر اسنے جوزفین کی پیشکش ٹھکرا دی تھی ۔کچھ ہی دیر بعد دروازہ کھلا زمان خان اسے سامنے دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔
“اپنی جنت سے نہیں ملواو گے “.
اسنے مسکرا کر جوزفین کو اندر آنے کا رستہ دیا۔سامنے برآمدے میں ایک مقامی عورت کشمیری شال میں لپٹی چوکی پر بیٹھی تھی۔
” یہ گل بی بی ہے میری شریکِ سفر ، میری محبت ، میری جنت “.جوزفین کو اسے دیکھ کر زمان خان کوئی پاگل شخص لگا جس نے ایک معمولی سی عورت کے لیے اسے ٹھکرا دیا تھا۔ زمان خان نے گل بی بی کو مقامی زبان میں جوزفین سے متعارف کروایا جواباً اس نے کچھ کہا ۔جو جوزفین سمجھ نہیں سکتی تھی۔
” یہ کیا کہتی ہے ؟”.
اسنے ایک گہری سانس کھینچی۔
” یہ کہتی ہے میں کیسی بدنصیب ہوں کہ مہمان کو اٹھ کر گلے بھی نہیں لگا سکتی پر اسے معلوم نہیں کہ یہ کتنی خوش نصیب ہے کہ اسکا محبوب اسے اپنی بانہوں میں اٹھا کر مہمان سے ملوائے گا “.
جوزفین نے حیرت سے زمان خان کو دیکھا۔عہ آگے بڑھا اور اس نے دونوں ٹانگوں سے محروم گل بی بی کو اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا۔ گل بی بی کو اس کے قریب لاتے اس نے بتایا ۔
” زلزلے میں ہم نے گل بی بی کی ٹانگیں بھی کھو دی تھیں “.
جوزفین سن سی ایک ٹک انہیں دیکھتی گئی۔ گل بی بی نے اسے گلے لگایا تو جیسے وہ کسی احساس سے جاگی ۔ محبوب کی بانہوں میں غیر کو دیکھنا کتنا قیامت خیز ہوتا ہے پر زمان خان کی بانہوں میں اس کی جنت کو دیکھ کر جوزفین کا دل اسکی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا تھا۔ اسنے زمان خان کے چہرے پر سکون کا راز پا لیا تھا۔ گل بی بی کے ماتھے پر عقیدت کا بوسہ دے کر وہ گھر سے باہر نکل آئی۔ وہ جان گئی تھی کہ اسکی امارت راکا پوشی کی عظمت کو کبھی چھو نہیں پائے گی۔
از
کرن نعمان