انتقام (حصہ دوم)

In افسانے
June 27, 2021
انتقام (حصہ دوم)

بند کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک عورت ہاتھ میں کچھ سامان لے کر اندر داخل ہوئی – بی بی جی یہ پہن کر تیار ہو جائے آپ کا نکاح ہے آج- کیا؟ مائرہ کو جھٹکا لگا – کیا بکواس ہے یہ کس کے ساتھ ہے میرا نکاح ؟ شاہ میر صاحب کے ساتھ بی بی جی ملازمہ نے مئودب  انداز میں جواب دیا ک کون شاہ میر ؟ بی بی جی پلئیز  تیار ہو جائے جلدی سے  ملازمہ کہہ کے باہر چلنی گئی مجھے نہیں    ہونا تیار غصے سے سامنے پڑا ہوا سامان  اس نے اٹھا کے دروازے کی طرف پھینکا جیسے ہی شاہ میر نے دروازہ کھولا سامان اس کے پیروں میں آ گرا   چونکہ شاہ میر جانتا تھا ایسا ہی کوئی  ردعمل ہو گا اس لیے وہ آرام و سکون سے چلتا ہوا  مائرہ کے سامنے آ کھڑا ہوا  آپ کے بڑے بھی کرے گے نکاح مس مائرہ – کون ہو تم؟ تمہارے سوالوں کا جواب دینے کے کیے  ساری زندگی میں تمہارے پاس ہوں فی لحال تم یہ وڈیو دیکھو  موبائل پاکٹ سے نکالتے ہوئے اس نے کہا اور موبائل مائرہ کے سامنے کر دیا-      یہ تو ہمارا گھر ہے گھر کے چاروں طرف آدمی گن لے کے کھڑے تھے  جی ہاں یہ آپ کا گھر ہے اور اگر آپ نے میری بات نہ مانی تو یہ آدمی گھر کے اندر بھی جا سکتے ہے  –                         ن نہیں وہ چلائی آپ پلیز ایسا کچھ نہیں کرے گے پلیز وہ منت پر اتر آئی تو  ٹھیک ہے آپ  تیار ہو کر 5 منٹ میں باھر آ جائے- تحکمانہ انداز میں کہہ کر باہر چلا گیا-      مائرہ وہیں بیتھ کے رونے لگ گئ  

٭٭٭٭٭

زوہا کے والدین بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے  زوہا کو اس کے چچا نے پالا تھا اور کبھی بھی اس بات کا اھساس نہیں ہونے دیا کہ وہ یتیم ہے فاضل چچا کا ایک ہی بیٹا تھا عباد جو زوہا کو دل ہی دل میں چاہتا تھا مگر زوہا اس بات سے بے خبر  اپنے یونیورسٹی کے دوست شاہ نواز ھمدانی کو پسند کرتی تھی شاہ نواز بھی زوہا کو دل و جان سے چاہتا تھا –                                                                                                                                                  شاہ  نواز نے جب زوہا کے لیے رشتہ  بھیجا تو عباد خاموش ہو گیا اور اسطرح زوہا زوہا شاہ نواز بن کے شاہ ولا میں آ گئی-  شاہ نواز کی بہن فاخرہ اس دوران عباد پر اپنا دل ہار چکی تھی  جبکہ عباد زوہا کے بعد اب کسی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا

٭٭٭٭٭

نکاح ہو چکا تھا اور مائرہ ابھی تک رو رہی تھی  تب ہی ایک اور نیا حکم صادر ہوا جلدی سے تیار ہو  جائو چلنا ہے ہمیں – کہاں؟ مائرہ نے سوالیہ نظروں  سے اس کی طرف دیکھا لیکن شاہ میر نے کوئی جواب نہیں  دیا اور آ گے بڑھ گیا تو مائرہ بھی چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑی شاہ میر مائرہ کو فاخرہ بیگم کے پاس لے کے آ گیا یہ لے پھپھو میرے پاپا کے مجرموں کی بیٹی  –                                                                                                                   مجرموں کی بیٹی مائرہ زیر لب بڑبڑائی  اس نے شاہ میر کی طرف دیکھا  لیکن شاہ میر واپس جانے کے لیے مڑ گیا تھا  کون مجرم کس کی بات کر رہے ہیں آپ؟  مائرہ نے پیچھے سے آواز دی مگر شاہ میر سنی ان سنی کر کے چلا گیا مائرہ فاخرہ بیگم کی طرف مڑی کون مجرم کس کی بات کر رہے ہیں آپ؟لڑکی ہم تمھے جواب دینے کے پابند نہیں زرینہ زرینہ فاخرہ زور سے چلائی جی جی بی بی جی زرینہ بھاگتی ہوئی آئی ساررے ملازمین کو چھٹی کروا دو اور مائرہ کو سارے کام سمجھا دو آئندہ سارے کام مائرہ کرے گیحکم دے کر فاخرہ بیگم آگے بڑھ گئی تو مائرہ جو کے اس بات پے ہکا بکا کھڑی تھی بھاگ کے فاخرہ بہگم کے سامنے آ کھڑی ہوئی کیا مطلب ہے آپ کا کون سے کام آ؟ آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں ؟ تمہاری ماں اور تمہارے باپ کے جرموں کی سزا ہیں یہ جو تمہیں مل رہی ہیں  کونسا جرم مائرہ نے جرح کی مائرہ کے اس انداز پے فاخرہ بیگم کی تیوری چڑھ گئی اور ساتھ ہی ہاتھ اٹھا اور زور دار طمانچہ مائرہ کے منہ پر رسید کیا آئندہ مجھ سے سوال جواب کرنے کی  جراءت مت کرنا سمجھی تم ینگلی اٹھا کے تنبیہہ کرتی آگے چلی گئی-

/ Published posts: 3

I am a short story writer.

5 comments on “انتقام (حصہ دوم)
Leave a Reply