Skip to content

انتقام (حصہ چہارم)

ساس اور نند کے دبائو میں آکر زوہا اپنی چچی سے بات کرنے پر مجبور ہو گئی جب عباد کو بات کو پتہ چلا کہ فاخرہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے تو عباد نے صاف منع کر دیا لیکن عباد کے والدین نے رضا مندی دے دی کیونکہ وہ بھی دل سے چاہتے تھے کہ عباد بھی اب آگے بڑھ جائے کیوں کہ زوہا تو اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکی تھی اور زوہا بھی یہی چاہتی تھی عباد شادی کر لے کیونکہ زوہا نہیں چاہتی تھی کہ اس کی وجہ سےعباد کی زندگی برباد ہو اور وہ وہیں رکا رہے

نازیہ بیگم نوٹ کر رہی تھی کہ شاہ میر جب سے واپس آیا ہے کہیں کھویا رہتا ہے اس لیے انہوں نے سوچا کہ اس کی شادی کر دی جائے اسی سلسلے میں انہوں نے کچھ لڑکیوں کی تصویریں دیکھی اور شاہ میر کے آگے لا کر رکھ دی میں یہ کچھ تصویریں لائی ہوں شاہ میر کے سامنے تصویریں رکھتے ہوئے نازیہ بیگم نے کہا یہ کس کی تصویریں ہیں مما لڑکیوں کی تصویریں ہیں تمہارے لیے مجھے تم دیکھ لو ان میں سے کسی کو سلیکٹ کر لو ویسے مجھے یہ دو لڑکیں پسند آئی ہیں انہوں نے تصویروں میں سے دو تصویریں نکال کر شاہ میر کو دی اور اگر ان تمام تصویروں کو تم دیکھنا چاہتے ہو تو دیکھ سکتے ہو تم جس لڑکی پر ہاتھ رکھو گے میں اس سے تمہاری شادی کروا دوں گی میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا شاہ میر ایک دم سے کھڑا ہوا اور بولا لیکن کیوں بیٹا آپ کو کیا مسئلہ ہے ویسے بھی میں دیکھ رہی ہوں جب سے آپ پاکستان سے آئے ہو آپ کھوئے رہتے ہو کیا کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاؤ

نہیں ماما ایسی کوئی بات نہیں ہے شاہ میر بولا کہیں ایسا تو نہیں آپ نے وہاں کوئی لڑکی پسند کر لی ہو نہیں ماما ایسی کوئی بات نہیں ہے اگر کوئی ایسی بات ہے تو مجھے بتا دو شاہ میر کی آنکھوں کے سامنے فورا سے مائرہ کا چہرہ آ گیا ی تو وہ ایک مرتبہ پھر بے چین ہوگیا کیا ہوا بیٹا کیوں پریشان ہوں ایسا کیا کہہ دیا میں نے نہیں ماما کوئی بات نہیں آپ پلیز جائے اس وقت میں نے کوئی بات نہیں کرنی مجھے نیند آ رہی ہے وہ سونے کے لئے بیڈ کی طرف بڑھ گیا تو وہ چپ چاپ باہر کی طرف نکل آئیں لیکن وہ پریشان ضرور ہوگئی شاہ میر سونے کی کوشش کر رہا تھا لیکن آنکھوں کے سامنے صرف ایک ہی چہرہ آ رہا تھا بار بار بہت کوشش کرنے کے بعد بھی جب وہ نہ پایا تو اٹھ بیٹھا اور بے اختیار اپنا موبائل پکڑ کر پاکستان نمبر ملانے لگا مائرہ جو برتن دھو کر فارغ ہوئی تھی اور سونے کے لیے جا رہی تھی فون کی بجتی بیل پر وہ فون کی طرح بڑھی اور فون اٹھایا ہیلو ہیلو دوسری طرف شاہ میر جیسے چپ سا ہوگیا مائرہ کی آواز سن کر بہت کوشش کرنے کے باوجود بھی وہ اپنے اندر بولنے کی ہمت نہ رکھ پایا ہیلو دوسری طرف سے کوئی آواز نہ آنے پر مائرہ کو کچھ محسوس ہوا شاہ میر وہ بڑبڑائی تو شاہمیر نے فورا کال کاٹ دی میں جانتی ہوں ہمت نھیں ہے تم میں مسٹر شاہ میر مجھ سے بات کرنے کی ریسیور کریڈل پر رکھ کر وہ واپس چلی گئ

وہ تو شادی کا نام ہی نہیں لینے دیتا میرا ایک ہی بیٹا ہے میں کیا کروں کرو میں خود بہت زیادہ پریشان ہوں چائے کی ٹرے لے کر آتی ہوئی فاخرہ نے جب یہ بات سنی تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگئی ہوتا کون ہے وہ مجھ سے شادی سے انکار کرنے والا سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو کوئی پرنس ہے کیا ؟ فاخرہ غصے سے باہر آگ بگولہ ہو رہی تھی چچی جان اگر آپ کہیں تو میں بات کروں عباد سے زوہا نے کہا ہاں بیٹا وہ تمہاری بات مان لے گا ٹھیک ہے میں بات کرتی ہوں شاہنواز میں چاہتی ہوں شاہ میر شادی کرلے کیوں کہ جب سے وہ پاکستان سے واپس آیا ہے کھویا کھویا سا رہتا ہے پتا نہیں کیا بات ہے نازیہ بیگم نے پریشانی سے اپنے شوہر شاہنواز کو بتایا اچھا؟ ایسا کیوں بھئی وہیل چئیر کو نازیہ بیگم کی طرف گھماتے ہوئے انہوں نے حیرت سے پوچھا پاکستان میں ایسا کیا ہوا ہے جو وہ کھویا کھویا سا رہتا ہے مجھے خود نہیں پتا کوشش کر رہی ہو لیکن وہ کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں ہے یہاں تک کہ اس نے شادی سے بھی انکار کر دیا ہے کہہ رہا ہے کہ اسے ابھی شادی نہیں کرنی ہے رات کے کھانے پر بات کرتا ہوں میں شاہ میر سے شاہ نواز نے اپنی بیگم نازیہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا رات کو کھانے پر شان شاہ میر آیا کیا حال ہے بھئی نوجوان کیا بات ہے کیوں اپنی ماں کو پریشان کر رہے ہو کیا ہوا پاپا شاہ میر نے اپنی ماں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا میں کب پریشان کیا مما کو بھئی میں نے سنا ہے کہ تم شادی نہیں کرنا چاہتے شادی سے مسلسل انکار کر رہے ہو

ایسی کیا بات ہے کوئی بات نہیں پاپا بس فی الحال میں شادی نہیں کرنا چاہتا شاہ میر نے بات کو ٹالا فیالحال میں آپ دونوں کو ایک نیوز سنانا چاہتا ہوں ابھی کل ہی میری اسلم سے بات ہوئی ہے اسلم پاکستان واپس جا رہا ہے تو فاخرہ پھپھو اس کی شادی کرنا چاہتی ہیں انہوں نے لڑکی دیکھ لی ہے اسی سلسلے میں وہ آپ سے بات کرنا چاہ رہی تھی کہ میں آپ کی بات کروا دیتا ہوں یہ کہہ کر اس نے اپنا موبائل نکال کر کر نمبر ملایا اور موبائل شاہنواز کی طرف بڑھا دیا نہیں مجھے کچھ آرام کرنا ہے شاہنواز نے بہانہ کیا اور موبائل نازیہ بیگم کو تھما دیا آپ بات کر لیجئے گا اور میری طرف سے ایکسیوز کر دیجئے گا گئے یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف ویل چیئر گھماں کر چلے گئے اسلام علیکم کیا حال ہے فاخرہ موبائل کان سے لگاتے ہوئے نازیا بیگم نے مسکراتے ہوئے اپنی نند کا حال پوچھا شکر ہے اللہ کا آپ کیسی ہیں؟ میں بالکل ٹھیک ہوں ارے بھائی شاہ میر مجھے بتا رہا تھا تم نے اسلم کے لیے کوئی لڑکی دیکھ لی ہے جی بھابھی اسی سلسلے میں آپ سے بات کرنا چاہتی تھی بہت اچھی فیملی ہے لڑکی بھی ماشاءاللہ بہت پیاری ہے خوبصورت ہے پڑھی لکھی ہے میں بس یہ چاہ رہی تھی کہ آپ لوگ مجھے بتائیں کیا آپ کب تک پاکستان آ سکتے ہیں پھر میں منگنی کی تاریخ فائنل کرو میں تمہارے بھائی سے بات کرکے پوچھ کے بتاؤں گی ابھی اگر پاس ہے تو میری بات کروا دے نہیں نہیں وہ آرام کر رہے ہیں کھانا کھانے کے بعد وہ آرام کرنے کمرے میں چلے گئے ہیں ٹھیک ہے بھابھی پھر آپ مجھے پوچھ کے بتا دیجئے گا منگنی کی تاریخ فائنل کرنی ہے اور آپ سب نے منگنی پہ لازمی آنا ہے اور اس بار کوئی بہانہ نہیں چلے گا شاہنواز بھائی کو بتا دیجئے گا

شاہ میر اپنے کمرے میں سونے کے لئے گیا بیڈ پر لیٹا لیکن آنکھیں بند کرتے ہی مائرہ کا چہرہ اس کے سامنے آگیا میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی شاہ میر مائرہ روتا ہوا چہرہ اس کے سامنے آگیا اس نے فورا سے آنکھیں کھولیں اور ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گیا یا اللہ میں کیا کروں میں نے کچھ بہت زیادہ غلط تو نہیں کیا شاہ میر سوچ میں پڑ گیا نہیں میں نے کچھ غلط نہیں کیا اس کے ماں باپ کے کیے کی سزا مائرہ کو مل رہی ہے ہے آج میرا باپ جس حال میں بھی ہے اس کی ذمہ دار اس کی ماں ہے زوہا بیگم ہے ذمہ دار اس کی اور اسی کی سزا اس کی بیٹی کو مل رہی ہے٭

1 thought on “انتقام (حصہ چہارم)”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *