Skip to content

ٹیپو سلطان کی بہادری اور اصلاحات

آج سے 271 سال پہلے ریاست میسور کے سلطان حیدر علی کے گھر میں اس کے ایسے بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کو صدیاں بعد بھی اسکی بہادری کی وجہ سے شیرِ میسور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسکا نام سلطان فتح علی خان صاحب رکھا گیا۔ اسکے باپ حیدر علی کی وفات کے بعد اسکے باپ کی وصیت کے مطابق اسے میسور کا سلطان چنا گیا ۔

ٹیپو سلطان کی اصلاحات

ٹیپو سلطان جب سلطان بنا اس وقت ریاست میں جاگیردار اور زمیندار مل کر کسانوں کا استحصال کیا کرتے تھے ۔ ٹیپو سلطان نے ان سے اضافی زمینیں کے کر کسانوں میں تقسیم کی ۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ جو ہل چلاتا ہے زمین کا مالک بھی اسی کو ہونا چاہئے ۔اس کے علاؤہ زراعت کی ترقی کے لیے آب رسانی کا نظام درست کیا جس سے ریاست میں مجموعی طور پر زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔

زراعت کے علاؤہ صنعت کے شعبے کی بہتری کے لیے بنک قائم کرکے سرمایہ کاری کرنے والوں کو سستے قرضے فراہم کروائے ۔ سرمایہ کاری میں اضافے سے ریاست ہر شے بنانے میں خودکفیل ہوگئی اور ان اقدام کی وجہ سے روزگار میں بھی اضافہ ہوا۔

بنیادی طور پر ٹیپو سلطان علم دوست انسان تھے ۔ آپ کے گھر میں کتابوں کی بھرمار ہوتی تھی جنکا مطالعہ کرتے رہتے تھے ۔ آپ کی اسی علم دوستی کا ثبوت وہ یونیورسٹی ہے جسکو تعمیر کروایا اسکا نام “جامعہ الامور” تھا ۔

سلطان نے اس کے علاؤہ ریاست تعمیر و ترقی کے کاموں پر بھی توجہ دی ۔ ان میں سڑکوں کا نظام، پل ، بندرگاہوں اور نئے نئے شہروں کی تعمیر شامل ہے۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر حکمران جمہوریت کو فروغ دے تو وہ کامیاب رہتا ہے۔ ٹیپو سلطان نے مجلسِ شوریٰ قائم کی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار
مردم شماری کروائی۔

ٹیپو سلطان کی بہادری

سلطان کی بہادری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر جنگ میں اپنی فوج میں سب سے آگے یہی ہوتے تھے۔ اور جب کبھی سپاہیوں کا حوصلہ کم ہوتا تھا تو خود حملے کر کے انکے حوصلوں کو جلا بخشتے تھے۔
اپنے والد کے زمانے سے ہی انکی بہادری مشہور تھی ۔ جب انگریزوں سے انکے والد کی پہلی لڑائی ہوئی اس جیت میں ٹیپو سلطان نے ہی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

اپنے والد کی وفات کے بعد جب انگریزوں نے 1799ء میں دوبارہ حملہ کیا تو اس بار انگریزوں نے ٹیپو سلطان کے اہم جرنیلوں اور فوجیوں کو اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا جو انکو سلطان کے قلعے میں داخلے کے معاملے میں مدد کا یقین دلاچکے تھے ۔ جب سلطان کو انکے قلعے میں داخلے کی خبر ملی تو انکو روکنے کے لیے خود روانہ ہوگئے۔

سلطان کی شہادت

ایک ایسے وقت میں جب کہ اپنے ساتھ چھوڑ گئے تھے سلطان نے اپنے کچھ وفاداروں کے ساتھ ان پر حملہ کر دیا ۔ لیکن دشمن کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے شدید زخمی ہوگئے۔ انکے ایک ساتھی نے بھاگ کر جان بچانے کی تجویز دی لیکن سلطان نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ بالآخر بہادری سے لڑتے ہوئے سلطان شہید ہوگئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *