معزز دوستو آج کے دور میں جہاں بھی نظر دوڑائیں تو مسلمانوں پر ہر جانب مصیبتیں ٹوٹتے ہوئے دیکھتے ہیں جس کے بارے میں ہم دعا کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے،
دنیا میں اگر نظر دوڑائیں تو فلسطین سے شام اور افغانستان سے عراق و ایران اور بھارت سے لے کر برما ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔جس کو دیکھ کر دماغ سے یہی سوال نکلتا ہے کہ آخر کب تک مسلمانوں پر ایسے ہی ظلم ڈھایا جائے گا؟۔
جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو تاریخ میں مسلمانوں کی غلطیاں اور کوتاہیاں بھی نظر آتی ہیں اور کفار کی سازشیں بھی نظر آتی ہیں،خیر کفار کی سازشیں تو روزِ اول سے ہی موجود ہیں تھوڑی نظر مسلمانوں کی غلطیوں پر بھی ڈال لیتے ہیں۔
سب سے پہلے عالم مسلمانان کی سب سے بڑی غلطی ،جو کے فرقہ واریت پھیلانا ہے۔فرقہ ورایت اور نسل پرستی کی ہی وجہ سے پچھلی قومیں بھی تباہ ہیں تھیں ، مسلمانوں نے اس سے سبق سیکھنے کی بجائے فرقہ ورایت کو اپنا لیا۔اس چیز کا فائدہ کفار نے سب سے زیادہ اٹھایا اور اپنی سازشوں کے جال بچھا کر مسلمانوں کو علحیدہ علحیدہ کر دیا۔مسلمان آہستہ آہستہ اپنے ہی علماء کے ہاتھوں تقسیم ہو گئے ۔اور کفار نے اس بات کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو زیر کر لیا،اور مسلمانوں کو جی آپس میں کروا دیا۔جیسے سعودی عرب اور یمن،سعودی عرب اور ایران کی جنگ۔اور پاکستان بھی افغانستان کے ساتھ وہ جنگ لڑتا رہا جو اس کی تھی ہی نہیں۔بحر حال افغانستان نے ہمت نہ ہاری اور صلیبی ملک امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیے۔اس کے علاوہ جب فرقہ واریت مسلمانوں میں پھیلی تو مسلمانوں نے علم و دانش کا ساتھ چھوڑ دیا،اور ایک دوسرے کے مسلمان کافر ہونے کے ثبوت ڈھونڈنے لگ گئے۔جیسا کہ علامہ محمد اقبال نے بھی فرمایا کہ:
“خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
کس قدر ہوئے بے توفیق فقیہانِ حرم”
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چند نام نہاد مسلمان علماء نے اپنے مفادات کے لیے اسلام کو بانٹ دیا اور مسلمانوں میں انتشار پھیلا دیا۔
دوسری بڑی مسلمانوں کی تباہی کی وجہ یہ بنی کے ہم نے کفار کو اپنا دوست سمجھ لیا اور یہ سمجھ لیا کے کفار کبھی ہمارے ساتھ مخلص ہو سکتے ہیں جب کے ایسا بالکل بھی نہیں ۔سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا کہ”کفار سے اتنا دور رہا جائے کہ ہمیں ان کی جلائی گئی آگ نہ نظر آئے،اور اُنہیں ہماری جلائی گئی آگ نہ نظر آئے”۔اور اسلام میں یہ بھی حکم ہے کے کسی مسلمان ریاست کو دوسری مسلمان ریاست کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت نہیں۔لیکن مسلمانوں نے اس بات کو بلکل نظر انداز کر کے کفار کو اپنا دوست سمجھ لیا۔اور پھر وہی ہوا جو کفار چاہتے تھے مسلمان اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں مارے جانے لگ گئے۔ مسلمانوں نے یہ بات بہت دیر بعد سمجھی کے کفار کبھی بھی ہمارے دوست نہیں بن سکتے۔
تیسری بڑی غلطی تلوار اور قرآن کی تعلیمات کو چھوڑنا تھا۔کیونکہ اسلام تلوار اور تلوار اسلام کے بغیر نے معنی ہیں۔ہم نے جہاد کا راستہ چھوڑ دیا جب کہ قرآن میں بار بار جہاد کی دعوت دی گئی ہے۔ جہاد کے دامن کو چھوڑنے کی وجہ سے مسلمان غیر مسلم قوتوں کے لیے آسان شکار بن گئے،اور اس طرح مسلمانوں کی عظیم بادشاہی کا اختتام ہو گیا۔مسلموں کی تباہی کی ایک بڑی وجہ آقا دوں عالم کی بتائی ہوئی باتوں سے رو گردانی بھی ہے۔
اس سب بات کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان تب تک اس تباہی سے نہیں نکل سکتے جب تک دوبارہ قرآن اور جہاد کا دامن نہ تھام لیں۔اور پوری دنیا میں ایک دیوار کی طرح ایک جسم کی مانند ہو جائیں،جیسا تصور اسلام میں ہے۔اس کے علاوہ مسلمانوں کو اپنا دوست اور دشمن پہچاننا آنا چاہیے۔
اللہ ہمیں ایک سچا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین