جنگ یرموک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان لڑی گئی تھی اس جنگ میں دشمن کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ تھی اس جنگ میں مسلمانوں کی قیادت ابو عبیدہ ابن الجراح کررہے تھے دونوں فوجوں میں شدید جنگ چھڑ گئی رومیوں کی تیروں میں سورج چھپ جاتا اس جنگ میں بہت سے لوگ زخمی ہوئے اس لئے اس جنگ کا نام زخمیوں والی جنگ رکھ دیا گیا
جب بھی اسلامی لشکر پسپا ہوتا تو کچھ مجاہدین اپنا پرچم تھامے رومیون کے سامنے ڈٹ جاتے ان مجاہدین میں دو بہادر بھائی امیر معاویہ اور یزید بن ابی سفیان تھے مسلمانوں کے پڑاؤ کے پاس ایک نابینا آدمی کھڑا تھا اور بار بار کہتا تھا کہ اگر یزید یا معاویہ میں سے کوئی پسپا ہوا تو مجھے بتا دینا میں انہیں مار مار کر واپس بھیجوں گا اور یہ شخص ابوسفیان تھے جس کی دونوں آنکھیں جہاد میں شہید ہو گئے تھے لیکن وہ پھر بھی لشکر کے ساتھ آئے تھے اور پیچھے کھڑے تھے میدان جنگ میں ایک خیمے میں مسلمان خواتین ٹھری ہوئی تھی جو مجاہدین کے ساتھ ان کی تیمارداری کے لیے آئی ہوئی تھی مسلمانوں کی مرہم پٹی کرنا اور انہیں پانی پلانا ان کی ذمہ داری تھی رومیوں نےانھیں تنہا پا کر ان کے خیمے پر حملہ کیا کیونکہ مجاہدین تو میدان جنگ میں لڑرہے تھے خواتین یہ دیکھ کر پریشان ہو گئیں اور آپس میں مشورہ کیا کہ ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہے تو کیا ہوا ہمت سے کام لو اور ان خیموں کے کھونٹے نکال لو اور دشمنوں پر حملہ آور ہو جاؤ
اس تجویز کو سب نے پسند کیا اور کھونٹے نکال کر دشمن پر حملہ کیا ان کا ہر وار دشمنوں کے لیے اللہ کا عذاب ثابت ہورہا تھااچانک ایک طرف سے نعرہ تکبیر کا شور سنائی دیا اور پیچھے سے خالد بن ولید نے پوری قوت سے دشمن پر حملہ کر دیا تورومی فوج وہاں سے بھاگ اٹھی اس جنگ میں دشمن کی ہزاروں فوج ہلاک ہوئیں اور بہت سے جنگی قیدی بنا لیے گئے رومی بادشاہ ہرقل کو جب اس ناکامی کا پتا چلا تو وہ وہاں سے بھاگ کر ترکی چلا گیا اور کہا کہ الوداع سرزمین شام ۔