نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت دحیہ قلبی ؓ کا رلا دینے والا واقعہ اسلام سے پہلے بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا—سیدنا دحیہ قلبی ؓ نہایت خوبصورت تھے آپ کا حسن اس قدر تھا کہ عرب کی عورتیں دروازوں کے پیچھے کھڑے ہوکر یعنی چھپ کر آپ کو دیکھا کرتی تھیں۔ لیکن اس وقت آپ مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ ایک دن سرور کونین تاجدار مدینہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نظرحضرت دحیہ قلبی پر پڑی -آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت دحیہ قلبی کے چہرہ کو دیکھا اور سوچا کہ کتنا حسین نوجوان ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی ۔ یا اللہ تو نے اتنا خوبصورت نوجوان بنایا ہے اس کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے- اسے مسلمان کردے- اتنے حسین نوجوان کو جہنم سے بچالے ۔
رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی صبح دحیہ قلبی ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے ۔ حضرت دحیہ قلبی ؓ کہنے لگے ۔اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بتائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا احکام لے کر آئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ واحد ہے- اس کا کوئی شریک نہیں- پھر توحید ورسالت کے بارے میں حضرت دحیہ قلبی ؓ کوبتایا ۔حضرت دحیہ ؓ نے کہا اےاللہ کے نبی میں مسلمان تو ہوجاؤں مگرایک بات کا ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے -ایک گناہ میں نے ایسا کیا ہے کہ آپ کا اللہ کبھی مجھے معاف نہیں کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے دحیہ بتا تونے کیسا گناہ کیا ہے؟ ۔تو دحیہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے قبیلے کا سربراہ ہوں اور ہمارے ہاں بیٹیوں کی پیدائش پر انہیں زندہ دفن کیا جاتا ہے- میں قبیلے کا سردار ہوں اس لیے میں نے ستر گھروں کی بیٹیوں کو زندہ دفن کیا ہے ۔ آپ کا رب مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا اسی وقت حضرت جبرائیل ؑ حاضر ہوئےاور کہا،
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعلیٰ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اسے کہیں کہ اب تک جو ہوگیا وہ ہوگیا اس کے بعد ایسا گناہ کبھی نہ کرنا ہم نے معاف کردیا۔حضرت دحیہ ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات سن کر رونے لگے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دحیہ ؓ اب کیا ہوا ہے کیوں روتے ہو؟ حضرت دحیہ قلبی ؓ کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا ایک گناہ اور بھی ہے جسے آپکا رب کبھی معاف نہیں کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دحیہ ؓ کیسا گناہ بتاؤ ؟حضرت دحیہ ؓ فرمانے لگے یارسول اللہ میری بیوی حاملہ تھی اور مجھے کسی کام کے سلسلے میں دوسرے ملک جانا تھا میں نے جاتے ہوئے بیوی کو کہا کہ اگر بیٹا ہوا تو اس کی پرورش کرنا اور اگر بیٹی ہوئی تو اسے زندہ دفن کردینا ۔ دحیہ ؓ روتے جارہے ہیں اور واقعہ بیان کرتے جارہے ہیں۔میں واپس بہت عرصہ بعد گھر آیا تو دروازے پر دستک دی-اتنے میں ایک چھوٹی سی بچی نے دروازہ کھولا اور پوچھا کون؟ میں نے کہا تم کون ہو تو وہ بچی بولی میں اس گھر کے مالک کی بیٹی ہوں- آپ کون ہیں ؟ دحیہ ؓ فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے منہ سے نکل گیا اگر تم بیٹی ہو اس گھر کے مالک کی تو میں مالک ہوں اس گھر کا- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے منہ سے یہ بات نکلنے کی دیر تھی کہ چھوٹی سی بچی نے میری ٹانگوں سے پکڑ لیا اور بولنے لگی بابا آپ کہاں چلے گئے تھے میں کتنے دن سے آپ کا انتظار کررہی ہوں ۔
حضرت دحیہ ؓ روتے جارہے ہیں اور فرماتے ہیں اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں نے بیٹی کو دھکا دیا اور بیوی سے پوچھا یہ بچی کون ہے ۔ بیوی رونے لگی اور کہنے لگی یہ تمہاری بیٹی ہے ۔یارسول اللہ مجھے ذرا ترس نہ آیا میں نے سوچا میں قبیلے کا سردار ہوں اگر اپنی بیٹی کو دفن نہ کیا تو قبیلے والے کہیں گے ہماری بیٹی کو دفن کرتا رہا اور اپنی بیٹی پر پیار آگیا ۔حضرت دحیہ ؓ کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو نکلنے لگے -و ہ بچی بہت حسین تھی میرا دل کرتا تھا کہ میں سینے سے لگا لوں- پھر سوچتا تھا کہ کہیں لوگ بعد میں باتیں نہ بنائیں کہ اپنی بیٹی کی باری آئی تو اسے زندہ دفن کیوں نہیں کیا ۔ میں گھر سے بیٹی کو تیار کرواکر نکلا تو بیوی نے میرے پاؤں پکڑ لیے –دحیہ ؓ نہ مارنا اسے دحیہ ؓ یہ تمہاری بیٹی ہے ۔ میں نے بیوی کو دھکا دیکر بچی کو لیکر نکل پڑا ۔ راستے میں میری بیٹی نے کہا کہ بابا مجھے کھلونے لیکر دینے جارہے ہیں بابا ہم کہاں جارہے ہیں ؟دحیہ قلبی روتے جاتے اور واقعہ سناتے جارہے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بچی کے سوالوں کا جواب بھی نہیں دیتا تھا ۔ وہ پوچھتی رہ گئی کبھی میرا منہ چومتی ہے کبھی بازو گردن کے گرد دے لیتی ہے ۔لیکن میں کچھ نہیں بولا-
ایک مقام پر میں نے اسے بیٹھا دیا اور خود اسکی قبر کھودنے لگ گیا آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم دحیہ کی زبان سے واقعہ سنتے جارہے ہیں اور روتےجارہے ہیں- میری بیٹی نے دیکھا کہ میراباپ سخت دھوپ میں کام کررہا ہے تو اُٹھ کر میرے پاس آئی میرے چہرے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہتی ہے کہ بابا دھوپ میں کیوں کام کررہے ہیں چھاؤں میں آجائیں۔بابا گرمی ہے چھاؤں میں آجائیں -اور ساتھ ساتھ میرا پسینہ اور مٹی صاف کرتی جارہی ہے -لیکن مجھے ترس نہ آیا ۔ آخر جب قبر کھودلی تو بیٹی پاس آئی میں نے دھکا دیدیا۔وہ قبر میں گر گئی اور میں ریت ڈالنے لگ گیا بچی ریت میں روتی ہوئی چھوٹے چھوٹے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی بابا میں نہیں لیتی کھلونے بابا میں نہیں جاتی نانی کے گھر، بابا مجھے ایسے نہ ماریں- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ریت ڈالتا گیا مجھے اس کی باتیں سن کربھی ترس نہیں آیا ۔
میری بیٹی پر مٹی مکمل ہوگئی اور اس کا سر رہ گیا تو بیٹی نے میری طرف سے توجہ ختم کی اور بولی اے میرے مالک میں نے سنا ہے تیرا ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے گا جو بیٹیوں کو عزت دے گا – اور بیٹیوں کی عزت بچائے گا- اے اللہ وہ نبی بھیج دے بیٹیاں مر رہی ہیں۔ میں نے اسے ریت میں دفنا دیا ۔دحیہ قلبی یہ واقعہ سناتے ہوئے بہت روئے۔جب واقعہ بتادیا تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا رو روہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے گیلی ہوگئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دحیہ ؓ ذرا پھر سے اپنی بیٹی کا واقعہ سناؤ اس بیٹی کا واقعہ جو مجھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انتطا ر میں اس دنیا سے چلی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین دفعہ واقعہ سنا اور اتنا روئے کہ آپ کو دیکھ کر صحابہ کرام ؓ بھی رونے لگ گئے اور کہنے لگے اے دحیہ ؓ تو کیوں رلاتا ہے ہمارے آقا کو ہم سے برداشت نہیں ہوتا ۔ حضرت دحیہ ؓ کی رو رو کر کوئی حالت نہ رہی ۔ اتنے میں حضرت جبرائیل ؑ حاضر ہوئے اور فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ
اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم دحیہ ؓ کو کہہ دیں کہ وہ اس وقت تھا جب اس نے اللہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانا تھا اب مجھ کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے مان لیا ہے۔تو دحیہ ؓ کا یہ گناہ بھی ہم نے معاف کیا ۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے دوبیٹیوں کی کفالت کی انہیں بڑا کیا اور ان کے فرائض ادا کیے وہ قیامت کے دن میرے ساتھ اس طرح ہوگا جس طرح شہادت کی اور ساتھ والی انگلی آپس میں ہیں ۔ جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اس کی یہ اہمیت ہے جس نے تین یا چار یا پانچ بیٹیوں کی پرورش کی اس کی کیا اہمیت ہوگی ۔ بیٹیوں کی پیدائش پر گھبرایا نہ کریں اورانہیں والدین پر بڑا مان ہوتا ہے بیٹیاں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتی ہیں۔ اللہ پاک تمام بیٹیوں کو دنیا وآخرت کی تمام کامیابیوں سے نوازے۔