بسم الله الرحمن الرحيم اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔ حقوق العباد (بندوں کے حقوق) جن کبیرہ گناہوں کا تعلق حقوق اللہ (اللہ کے حقوق) سے ہے، مثلاً نماز ، روزہ ، زکاۃ اور حج کی ادائیگی میں کوتاہی، اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پراللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا، ان شاء اللہ۔ لیکن اگر ان گناہوں کا تعلق‘ حقوق العباد (بندوں کے حقوق)سے ہے مثلاً کسی شخص کا سامان چرایا، یا کسی شخص کو تکلیف دی یا کسی شخص کا حق مارا، تو قرآن وحدیث کی روشنی میں تمام علماء و فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا ہمارے او پر حق ہے، اس کا حق ادا کریں یا اس سے حق معاف کروائیں، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ واستغفار کے لئے رجوع کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے : شہید کے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں، مگر کسی شخص کاقرضہ۔ (مسلم، ۱۸۸۶) یعنی اگر کسی شخص کا کوئی قرض کسی کے ذمہ ہے تو جب تک ادا نہیں کردیا جائے، وہ ذمہ میں باقی رہے گا خواہ کتنا بھی بڑا نیک عمل کرلیا جائے۔ مشہور محدث حضرت امام نووی ؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ قرض سے مراد ‘ تمام حقوق العباد ہیں یعنی اللہ کے راستے میں شہید ہونے سے حقوق اللہ تو سب معاف ہوجاتے ہیں، لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے ہیں۔ (شرح مسلم) معلوم ہوا کہ ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے : کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے‘ ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے ، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم ۔ باب تحریم الظلم) یہ ہے اس امت مسلمہ کا مفلس کہ بہت ساری نیکیوں کے باوجود ‘ حقوق العباد میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد میں بھی کوتا ہی کرنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
اللہ کا شکر ادا کرنا سیکھیئے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گااور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے ۔‘‘(سورۂ ابراہیم) انسان کے پاس ہر چیز ﷲ تعالیٰ ہی کی عطا کی ہوئی ہے۔ ہر چیز کا ایک حق ہے اور اس حق کی ادائی کا مطالبہ قیامت کے دن ﷲ تعالی کے حضور ضرور ہونا ہے۔ قیامت کے دن میدانِ حشر میں جہاں نیکیاں اور برائیاں تولی جائیں گی تو وہاں اس چیز کا بھی مطالبہ اور محاسبہ کیا جائے گا کہ ﷲ تعالیٰ نے جو اپنی نعمتیں عطا فرمائی تھیں، اُن کا کیا حق اور شکر ادا کیا۔۔۔ ؟ حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے : ’’ کل قیامت کے دن آدمی سے جن نعمتوں کے بارے سوال کیا جائے گا، ان میں سے ایک چیز ’’ بے فکری ‘‘ ہے اور دوسری چیز ’’بدن کی صحت و سلامتی‘‘ بھی ہے اور یہ دونوں چیزیں ﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔اللہ تبارک وتعلٰی نے بےشمار نعمتوں سے ہمیں نوازا مگر استعمال کرنے کے باوجود ہم ناشکری کرتے ہیں۔آج اس وقت ہم مسلمانوں میں جو بیماریاں اور مایوسیاں پھیلی ہوئی ہیں ،اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اجتماعی طور میں ’’ناشکری‘‘ کے مرض میں مبتلا ہیں۔آپ کسی بھی مجلس میںشریک ہوجائیں،کہیں دوچارآدمیوں کے ساتھ بیٹھ جائیں، کسی سواری میں سفر کررہے ہوں، کسی ہوٹل پر کھانا کھا رہے ہوں، کوئی دوست آپ کو ملنے آجائے یا آپ کسی دوست کو ملنے چلے جائیں، کہیں دوچار شتے دار ہی اکٹھے کیوں نہ ہوجائیں ، ہرجگہ یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ابتدائی دوچار حال واحوال کی باتیں پوچھ کر پھر جو مختلف تبصرے وتاثرات شروع ہوں گے، وہ سب اول تا آخر ناشکری سے لبریز ہوں گے۔ حالانکہ اگر بندہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا احساس کر کے اس کا شکر بجا لائے تو یہ خود اس کے لئے فائدہ مند ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے مزید نعمتوں میں اضافہ فرماتا ہے۔ اللہ تبارک وتعلٰی نے ہمیں آنکھیں،زبان،کان اور جسم کے دیگر اعضاءسےجو نوازا ہیں۔اس کا ذندگی بھر ہم شکر نہیں ادا کر سکتے کیونکہ اس ہر نعمت کے پیچھے بہت ساری نعمتیں سامنے آجاتی ہے مثال کے طور پر آنکھ صرف دیکھ نےکا کام نہیں کرتی بلکہ دنیا کے کئی قسم کے نظاروں سے لطف اندوز ہونا فراہم کرتی ہے۔ارواسی طرح کان سے صرف سنتے نہیں بلکہ دنیا میں کئی قسم کی آوازوں کافرق محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح بطور نعمت جسم کے ہر اعضاء کے پیچھےبہت ساری نعمتیں کار فرما ہیں ۔ ہمیں ﷲ کی ہر نعمت کی قدر اور اس پر شکرگذار ہونا چاہیے۔