Home > Articles posted by Ahmed ali
FEATURE
on Feb 5, 2021

اس دنیا میں انسان کو بہت نشیب و فراز اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کچھ مشکلات ایسی ہوتی ہیں جنکو وہ خود حل کرلیتا ہے اور کچھ اسکے ماں باپ اور رشتہ داروں کے ذریعے پوری ہو جاتی ہیں لیکن کچھ مشکلات ایسی بھی ہوتی ہیں جنکو کوئی انسان دور نہیں کرسکتا ۔اس لیے انسان بے اختیار ایسی ہستی کو پکارتا ہے جو اسکی ایسی مشکلات کو دور کرسکے تو ایسے میں اسکا دھیان بے اختیار اللّٰہ کی طرف جاتا ہے جس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ۔ دعا کے لغوی معنی “پکارنا” ہیں جبکہ اسلامی اصطلاح میں اس کے معنی ” کسی مشکل وقت میں اللّٰہ تعالیٰ کو پکارنا ” ہیں ۔قرآن مجید اور احادیث میں اس کی اہمیت اور مانگنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ دعا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے سب انبیاء اور رسولوں کو دعا مانگنے کی تعلیم دی ۔قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں کا ذکر موجود ہے ۔ اگر اس کے طریقے پر بات کی جائے تو انبیاء نے جب اللّٰہ سے کچھ مانگا تو اللّٰہ کہہ کر نہیں پکارا بلکہ رب کہا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رب کا مطلب “دینے والا” ہوتا ہے ۔ لہٰذا ہمارے نبی اکرمﷺ نے امت کو بھی اللّٰہ سے دعا کر کے مانگنے کی تعلیم فرمائی ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دعا کی اسقدر اہمیت کے باوجود جب ہم دعائیں کرتے ہیں تو وہ قبول کیوں نہیں ہوتیں ؟ جب مسلمان زبانی اور قلبی طور پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے ایمان کو آزماتے بھی ہیں ۔جب مومن کو وہ نہیں ملتا جس کے لیے وہ بار بار دعا کرتا ہے تو کیا اس کے دل میں کوئی وسوسہ تو پیدا نہیں ہوا اور اگر وسوسہ پیدا ہو بھی گیا ہے تو وہ فوراً استغفار کرکے ایسے وسوسوں سے بچتا بھی ہے یا نہیں ۔اسںکے علاوہ اللّٰہ کبھی کبھی اسکو دیر سے اسکی دعا قبول کرتے ہیں ۔دیر سے دعا اس لیے بھی قبول ہوتی ہے کیونکہ اللّٰہ اپنے بندے کے ایمان کو آزما رہا ہوتا ہے ۔لہذا جب ہماری دعائیں وقتی طور پر قبول نہ بھی ہو رہی ہوں تو ہمیں اللّٰہ تعالیٰ سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔حضرت انس بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے کہ “ربنا اتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرۃ حسنة وقنا عذاب النار ۔ اللّٰہ تعالیٰ سے جو مسلمان اکثر دعا مانگتے ہیں تو اسکی دین میں بہت حوصلہ افزائی کی گئی ہے کیونکہ اس سے مسلمان کے اندر توکل جیسی خوبی پیدا ہوتی ہے جو کہ اللّٰہ کے نزدیک بہت بڑی خوبی ہے ۔اس کے علاوہ اللّٰہ سے مانگنے والا شرک کی لعنت سے بھی دور ہوجاتا ہے ۔قرآن مجید میں کافروں کے بارے میں یہ آیا ہے کہ وہ جب کسی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں تو وہ اپنے بتوں کو بھول کر بے اختیار مجھے پکارتے ہیں اور جب میں ان سے وہ مشکل دور کردیتا ہوں تو وہ پھر مجھے بھول جاتے ہیں ۔جبکہ مومنین کی جب اللّٰہ پاک مدد کرتے ہیں تو اس سے انکا ایمان مزید مضبوط ہوجاتا ہے ۔ غزوہِ بدر میں جب کہ مسلمان کافروں کے مقابلہ میں مٹھی بھر تھے تو نبی اکرم نے اللّٰہ سے دعا مانگ کر مدد حاصل کی اور پھر فتح بھی ملی لہذا دعا مانگنے سے برکت کا حصول بھی ممکن ہے کیونکہ نبی اکرم کے ہر عمل میں اللّٰہ تعالیٰ نے برکت رکھ دی ہے ۔

FEATURE
on Feb 1, 2021

کربلا کے میدان میں 10 محرم 61 ہجری کو نواسہ رسول حضرت امام حسین (رض) کو انکے رشتہ داروں اور ساتھیوں سمیت شہید کردیا گیا ۔ پس منظر جب حضرت عثمان غنی (رض) کی شہادت ہوئی اس وقت اسلامی خلافت میں دو حصے بن گئے تھے ایک حجاز اور عراق میں حضرت علی (ع) کی حکومت تھی جبکہ شام میں حضرت معاویہ (رض) کی ۔شام والوں کا یہ مطالبہ تھا کہ حضرت عثمان (رض) کی شہادت کا قصاص لیا جائے جبکہ حضرت علی (رض) کا یہ کہنا تھا کہ شہادت کا کوئی گواہ نہیں ہے اور جو گواہ ہے بھی تو وہ حضرت عثمان (رض) کی بیوی ہیں جن کی نظر کمزور تھی اس وجہ سے قاتل کو پہچان نہ پائی۔ اس وجہ سے مسلمانوں کے دو بلاک بن گئے اور سوائے چند صحابہ کے باقی سب میں جنگیں ہوئیں۔ اس طرح کے حالات چل رہے تھے کہ حضرت علی (ع) کی شہادت ہوگئی اور خلافت کے لیے حضرت امام حسن (ع) کو چن لیا گیا ۔حضرت علی (ع) پر انکی زندگی میں جان بوجھ کر قصاص نہ لینے کا الزام لگایا گیا تھا اور یہ سب امام حسن (ع) دیکھ رہے تھے کہ جنگ کرنے سے ہم پر غلط الزام ختم نہیں ہورہے اس لیے انھوں نے صلح کرکے حکومت شام والوں کو دے دی ۔حکومت لینے کے بعد حضرت عثمان رض کے قصاص کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا اور یوں حقیقت سب کے سامنے آگئی۔ جب امام حسن (ع) نے صلح کرتے وقت کچھ شرائط بھی طے کی تھیں اور جب انکی شہادت اور پھر حضرت معاویہ (رض) کی وفات پر یزید کو خلیفہ چن لیا گیا تو امام حسین علیہ السلام نے اسکی بیعت سے انکار کر دیا کیونکہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس کی بیعت کی جاتی۔۔اور بیعت نہ کرنے کی وجہ سے کربلا کا واقعہ پیش آیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے بیعت نہیں کی تو یزید نے اس بات کو اتنا سیریس کیوں لیا اور پھر ان پر بے شمار ظلم بھی کیے ۔کیا وہ نظر انداز نہیں کر سکتا تھا ؟اسکا جواب یہ ہے کہ اس کے ذہن میں چند باتیں ہوسکتیں تھیں جنکی وجہ سے اس نے ایسا کیا۔ اول یہ کہ امام حسین (ع) نبی اکرم (ع) کے نواسے تھے اسے پتہ تھا لوگوں کی انکے ساتھ کیسی عقیدت ہے ۔اس لیے لوگ عقیدت کی وجہ انکا ساتھ دینے آجائیں گے ۔دوم یہ کہ اس نے امام حسین (ع) کی بہادری کو دیکھا ہوا تھا ۔اسے پتہ تھا کہ اگر انکے ساتھ لوگ شامل ہوگئے تو یہ میری خلافت کا تختہ الٹ بھی سکتے ہیں۔آخری یہ کہ وہ دیکھ چکا تھا کہ کوفہ والے حضرت علی (ع) کے ساتھ جنگ میں ناکوں چنے چبواتے رہے ہیں اس لیے اگر یہ پھر مقابلے میں آگئے تو میرا تختہ الٹ دیا جائے گا۔اس لیے اس نے کوفہ شہر میں پہلے کرفیو لگوایا اور پھر امام حسین (ع) کے کوفہ پہنچنے سے پہلے شہید کروا دیا گیا۔۔۔

FEATURE
on Jan 30, 2021

تقویٰ کا لغوی مطلب ” بچنا ” ہے جبکہ دین کی اصطلاح میں تقویٰ کا مطلب ” ہر طرح کے گناہوں سے اللّٰہﷻ کے لیے بچے ۔ اگر کوئی شخص اس لیے گناہوں سے بچے کہ کہیں میں بدنام نہ ہو جاؤں ، لوگ کیا کہیں گے ۔ تو یہ تقویٰ نہیں ہے ۔ تقویٰ اور اللّٰہ کا خوف تقویٰ کا معنی اللّٰہ کا خوف نہیں ہے کیونکہ لفظ “خوف ” خود عربی زبان کا لفظ ہے جیسے قرآن میں بعض مقامات پر آیا ہے کہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کا اللّٰہ کے خوف کے ساتھ کیا رشتہ ہے . یہ حقیقت سب کے سامنے عیاں ہے کہ انسان کے دل میں جو بھی ہوتا ہے اللّٰہ اسے جانتا ہے ۔ اور جس ہستی سے کوئی باطنی کیفیات نہیں چھپا سکتا اس سے ظاہری اعمال کیا چھپائے گا ۔ وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے انسان اللّٰہ کے خوف کا شکار ہو جاتا ہے اور بے اختیار اللّٰہ کے تقویٰ کی طرف دوڑتا ہے ۔ لہذا تقویٰ کا مطلب اللّٰہ کا خوف نہیں لیکن اللّٰہ کا خوف ہی وہ محرک ہے جس کی وجہ سے تقویٰ اختیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ متقین (تقویٰ والے ) کی خوبیاں قرآن مجید میں متقین کی نشانی یا خوبیاں سورہ البقرہ کی ابتدائی آیات میں بیان ہوئی ہیں ۔ ” یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ، اس میں متقین کے لیے ہدایت ہے ۔ وہ لوگ جو غیب پر ایمان لائے اور نماز قائم کرتے ہیں اور اس میں سے خرچ کرتے ہیں جو ہم نے اُنھیں عطا کیا ہے ۔”. قرآن مجید میں لفظ تقویٰ تقریباً دو سو چالیس بار آیا ہے ۔ تقویٰ کے علاوہ اور بھی اصطلاحات قرآن میں آئی ہیں جیسے اسلام ،ایمان اور احسان ۔ ۔ تقویٰ کے ساتھ ان اصطلاحات کو باری باری مختصراً انکی وضاحت کی جاتی ہے۔ اسلام اور تقویٰ اسلام کے اصطلاحی معنی ہیں کہ “جو کچھ نبی اکرمﷺ لائے ہیں اس کو اپنی زبان سے اقرار کرنا۔ اسلام کا انسان کے ظاہری اعمال سے ہے اسکا تعلق باطنی کیفیات سے نہیں ہے ۔ ایک مسلمان جو عمل کر رہا ہے صرف اس کے عمل کو دیکھا جاتا ہے یہ نہیں کہ کس لیے یہ عمل کررہا ہے کیونکہ اسکی نیتوں کو اس دنیا میں کوئی نہیں جان سکتا اور دنیا میں اس کے بارے میں جو قانون لاگو ہونگے وہ بھی اس کے ظاہری اعمال کو دیکھ کر لاگو ہونگے۔البتہ آخرت کا معاملہ اس سے الگ ہوگا ۔وہاں پر فیصلے انسان کے ظاہری اعمال کے علاوہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ یہ اعمال اللّٰہ کے لیے (تقویٰ) کرتا تھا یا کسی دنیاوی وجہ سے۔۔یہی وجہ ہے کہ قرآن نے قیامت والے دن متقین کو کامیاب قرار دیا۔۔اسلام اور تقویٰ کے علاوہ ایمان تیسرا وہ اہم ترازو ہوگا جس پر اعمال تولے جائیں گے۔ ایمان اور تقویٰ ایمان ایک دلی کیفیت کا نام ہے جس کے معنی اللّٰہ ،اسکے پیغمبر ، فرشتوں اور کتابوں اور یوم آخرت پر یقین کرنے کو کہتے ہیں ۔۔جب جب ایک مسلمان کے اعمال میں ایمان جیسی نعمت بھی شامل ہوجاتی ہے تب عبادت میں تقویٰ جیسی اعلیٰ منزل آسانی سے حاصل کرلیتا ہے۔ اگر ایمان ہی نہ ہو تو اسے کیسے یقین آئے گا کہ اللّٰہ اسے دیکھ رہا ہے لہٰذا ایسی کیفیت میں وہ اللّٰہ کے لیے نہیں کسی اور کے لیے عبادت کرے گا جو کہ تقویٰ کے خلاف ہے۔ تقویٰ اور احسان احسان لفظ کا مادہ لفظ “حسن ” ہے جس کے معنی کسی کام میں خوبصورتی پیدا کرنا ہیں ۔اصطلاح میں اس کے معنی ہیں کہ جو بھی نیک اعمال کیے جائیں ان میں خوبصورتی پیدا کی جائے ، ان میں حُسن پیدا کیا جائے۔ ۔اب حسن کیسے پیدا کیا جائے۔۔نبی اکرم نے اسکا حل بھی دیا ہے ۔ ایک حدیث جس کو “حدیث جبریلِ بھی کہا جاتا ہے اس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ پاس تشریف لائے اور کچھ سوالات پوچھے تھے ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اے نبی بتائیے احسان کیا ہے ۔تو نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ احسان یہ ہے کہ اللّٰہ کی عبادت ایسےکرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ نہیں تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ عبادت کے وقت ایسی کیفیت پیدا کرنا کہ ہمارا اللّٰہ ہمیں دیکھ رہا ہے ،یہ احسان کی کم سے کم کیفیت ہے اگر کوئی یہ بھی نہیں کرسکتا تو اس میں احسان نہیں ۔جو لوگ احسان والے ہوتے ہیں انکا فرجہ اللّٰہ کے ہاں سب سے بلند ہوتا ہے یعنی مومن اور متقی سے بھی اوپر۔۔۔

FEATURE
on Jan 27, 2021

آج سے 271 سال پہلے ریاست میسور کے سلطان حیدر علی کے گھر میں اس کے ایسے بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کو صدیاں بعد بھی اسکی بہادری کی وجہ سے شیرِ میسور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسکا نام سلطان فتح علی خان صاحب رکھا گیا۔ اسکے باپ حیدر علی کی وفات کے بعد اسکے باپ کی وصیت کے مطابق اسے میسور کا سلطان چنا گیا ۔ ٹیپو سلطان کی اصلاحات ٹیپو سلطان جب سلطان بنا اس وقت ریاست میں جاگیردار اور زمیندار مل کر کسانوں کا استحصال کیا کرتے تھے ۔ ٹیپو سلطان نے ان سے اضافی زمینیں کے کر کسانوں میں تقسیم کی ۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ جو ہل چلاتا ہے زمین کا مالک بھی اسی کو ہونا چاہئے ۔اس کے علاؤہ زراعت کی ترقی کے لیے آب رسانی کا نظام درست کیا جس سے ریاست میں مجموعی طور پر زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ زراعت کے علاؤہ صنعت کے شعبے کی بہتری کے لیے بنک قائم کرکے سرمایہ کاری کرنے والوں کو سستے قرضے فراہم کروائے ۔ سرمایہ کاری میں اضافے سے ریاست ہر شے بنانے میں خودکفیل ہوگئی اور ان اقدام کی وجہ سے روزگار میں بھی اضافہ ہوا۔ بنیادی طور پر ٹیپو سلطان علم دوست انسان تھے ۔ آپ کے گھر میں کتابوں کی بھرمار ہوتی تھی جنکا مطالعہ کرتے رہتے تھے ۔ آپ کی اسی علم دوستی کا ثبوت وہ یونیورسٹی ہے جسکو تعمیر کروایا اسکا نام “جامعہ الامور” تھا ۔ سلطان نے اس کے علاؤہ ریاست تعمیر و ترقی کے کاموں پر بھی توجہ دی ۔ ان میں سڑکوں کا نظام، پل ، بندرگاہوں اور نئے نئے شہروں کی تعمیر شامل ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر حکمران جمہوریت کو فروغ دے تو وہ کامیاب رہتا ہے۔ ٹیپو سلطان نے مجلسِ شوریٰ قائم کی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار مردم شماری کروائی۔ ٹیپو سلطان کی بہادری سلطان کی بہادری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر جنگ میں اپنی فوج میں سب سے آگے یہی ہوتے تھے۔ اور جب کبھی سپاہیوں کا حوصلہ کم ہوتا تھا تو خود حملے کر کے انکے حوصلوں کو جلا بخشتے تھے۔ اپنے والد کے زمانے سے ہی انکی بہادری مشہور تھی ۔ جب انگریزوں سے انکے والد کی پہلی لڑائی ہوئی اس جیت میں ٹیپو سلطان نے ہی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد جب انگریزوں نے 1799ء میں دوبارہ حملہ کیا تو اس بار انگریزوں نے ٹیپو سلطان کے اہم جرنیلوں اور فوجیوں کو اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا جو انکو سلطان کے قلعے میں داخلے کے معاملے میں مدد کا یقین دلاچکے تھے ۔ جب سلطان کو انکے قلعے میں داخلے کی خبر ملی تو انکو روکنے کے لیے خود روانہ ہوگئے۔ سلطان کی شہادت ایک ایسے وقت میں جب کہ اپنے ساتھ چھوڑ گئے تھے سلطان نے اپنے کچھ وفاداروں کے ساتھ ان پر حملہ کر دیا ۔ لیکن دشمن کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے شدید زخمی ہوگئے۔ انکے ایک ساتھی نے بھاگ کر جان بچانے کی تجویز دی لیکن سلطان نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ بالآخر بہادری سے لڑتے ہوئے سلطان شہید ہوگئے۔