اس دنیا میں انسان کو بہت نشیب و فراز اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کچھ مشکلات ایسی ہوتی ہیں جنکو وہ خود حل کرلیتا ہے اور کچھ اسکے ماں باپ اور رشتہ داروں کے ذریعے پوری ہو جاتی ہیں لیکن کچھ مشکلات ایسی بھی ہوتی ہیں جنکو کوئی انسان دور نہیں کرسکتا ۔اس لیے انسان بے اختیار ایسی ہستی کو پکارتا ہے جو اسکی ایسی مشکلات کو دور کرسکے تو ایسے میں اسکا دھیان بے اختیار اللّٰہ کی طرف جاتا ہے جس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ۔
دعا کے لغوی معنی “پکارنا” ہیں جبکہ اسلامی اصطلاح میں اس کے معنی ” کسی مشکل وقت میں اللّٰہ تعالیٰ کو پکارنا ” ہیں ۔قرآن مجید اور احادیث میں اس کی اہمیت اور مانگنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ دعا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے سب انبیاء اور رسولوں کو دعا مانگنے کی تعلیم دی ۔قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں کا ذکر موجود ہے ۔ اگر اس کے طریقے پر بات کی جائے تو انبیاء نے جب اللّٰہ سے کچھ مانگا تو اللّٰہ کہہ کر نہیں پکارا بلکہ رب کہا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رب کا مطلب “دینے والا” ہوتا ہے ۔ لہٰذا ہمارے نبی اکرمﷺ نے امت کو بھی اللّٰہ سے دعا کر کے مانگنے کی تعلیم فرمائی ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دعا کی اسقدر اہمیت کے باوجود جب ہم دعائیں کرتے ہیں تو وہ قبول کیوں نہیں ہوتیں ؟
جب مسلمان زبانی اور قلبی طور پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے ایمان کو آزماتے بھی ہیں ۔جب مومن کو وہ نہیں ملتا جس کے لیے وہ بار بار دعا کرتا ہے تو کیا اس کے دل میں کوئی وسوسہ تو پیدا نہیں ہوا اور اگر وسوسہ پیدا ہو بھی گیا ہے تو وہ فوراً استغفار کرکے ایسے وسوسوں سے بچتا بھی ہے یا نہیں ۔اسںکے علاوہ اللّٰہ کبھی کبھی اسکو دیر سے اسکی دعا قبول کرتے ہیں ۔دیر سے دعا اس لیے بھی قبول ہوتی ہے کیونکہ اللّٰہ اپنے بندے کے ایمان کو آزما رہا ہوتا ہے ۔لہذا جب ہماری دعائیں وقتی طور پر قبول نہ بھی ہو رہی ہوں تو ہمیں اللّٰہ تعالیٰ سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔حضرت انس بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے کہ “ربنا اتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرۃ حسنة وقنا عذاب النار ۔
اللّٰہ تعالیٰ سے جو مسلمان اکثر دعا مانگتے ہیں تو اسکی دین میں بہت حوصلہ افزائی کی گئی ہے کیونکہ اس سے مسلمان کے اندر توکل جیسی خوبی پیدا ہوتی ہے جو کہ اللّٰہ کے نزدیک بہت بڑی خوبی ہے ۔اس کے علاوہ اللّٰہ سے مانگنے والا شرک کی لعنت سے بھی دور ہوجاتا ہے ۔قرآن مجید میں کافروں کے بارے میں یہ آیا ہے کہ وہ جب کسی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں تو وہ اپنے بتوں کو بھول کر بے اختیار مجھے پکارتے ہیں اور جب میں ان سے وہ مشکل دور کردیتا ہوں تو وہ پھر مجھے بھول جاتے ہیں ۔جبکہ مومنین کی جب اللّٰہ پاک مدد کرتے ہیں تو اس سے انکا ایمان مزید مضبوط ہوجاتا ہے ۔
غزوہِ بدر میں جب کہ مسلمان کافروں کے مقابلہ میں مٹھی بھر تھے تو نبی اکرم نے اللّٰہ سے دعا مانگ کر مدد حاصل کی اور پھر فتح بھی ملی لہذا دعا مانگنے سے برکت کا حصول بھی ممکن ہے کیونکہ نبی اکرم کے ہر عمل میں اللّٰہ تعالیٰ نے برکت رکھ دی ہے ۔