ابن البیطار ایک عظیم ساینسدان تھے۔ابن البیطار کا پورا نام ضیاالدین ابو محمد عبد اللہ بن احمد المالکی ہے

In اسلام
January 02, 2021

ابن البیطار(Botanist, Physician, Pharmacist, Scientist)
ابن البیطار کا پورا نام ضیاالدین ابو محمد عبد اللہ بن احمد المالکی ہے ، وہ اندلس کے سب سے بڑے اسکالرز میں سے ایک سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے پودوں اور ڈرگز کے علوم میں عبور حاصل کیا ، اور میڈیکل کی فیلڈ میں پہلے فارماسسٹ اور کیموتھریپی کے علمبردار تھے۔ وہ 1197 ء میں مالاگا میں پیدا ہوئے جوکہ اندلس میں واقعہ تھا۔ اور سیول(اشبیلیہ) میں تعلیم حاصل کی۔ابن البیطار نے باٹنی مالاگا کے مشہور باٹنسٹ ابو العباس النباتی سے سیکھی۔

جن کے ساتھ وہ انہوں نے پورے سپین میں سے جڑی بوٹیاں اکٹھی کرنا شروع کر دیں۔ النباتی کو ابتدائی تجربات کے طریقہ کار کو اپنانے کا زمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ یہی عادت البیطار میں بھی منتقل ہو گئی تھی۔ 1219 میں ابن البیطار نے مالاگا چھوڑا اور پودوں کی تلاش میں نارتھ افریقہ کے ساحلوں کا رخ کیا اس کے بعد انہوں نے اناطولیا،قسطنطنیہ،بگیہ،تیونس،تریپولی اور براکہ جیسے علاقوں کا سفر کیا۔1224 میں ابن البیطار ایوبیہ سلطان الکامل کی خدمت میں حاضر ہوئے جہاں انہوں نے چیف ہربلسٹ کی خدمات سر انجام دیں اور گھاس کے گروپ بنائے جن کا دور حاضر کے ماہرین بھی اپنی تحقیق کے سہارا لیتے ہیں۔ 1227 میں الکامل نے اپنے اقتدار کو دمشق تک بڑھا دیا جس سے البیطار کو شام میں پودے اکٹھے کرنے کا موقع ملا۔ انکی ریسرچز کا دائرہ کار عرب اور فلسطین تک پہنچا۔ انہوں نے ریسرچر ہونے کے ناطے بہت سے علاقوں کا سفر کیا۔ یہی شوق انہیں دمشق لے گیا جہاں انہوں نے باٹنی کی فیلڈ میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ ابن البیطار کو پہلا سائنس دان سمجھا جاتا ہے جنہوں نے ان جڑی بوٹیوں کا مطالعہ کیا جو کھیتوں میں اگتی تھیں اور فصلوں کو نقصان پہنچاتی تھیں ، اور اس کے لئے انہوں نے مختلف نسلوں میں گروہوں کی تشکیل کی اور بہت سی مختلف اقسام جو ہر فصل کے لئے مخصوص ہیں۔ البیطار کی سب سے بڑی اور زیادہ پڑھی جانے والی کتاب (كتاب الجامع لم انفرات الأدوية) ہے۔ جس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جا چکا ہے۔یہ کتاب فارماسیوٹیکل انسائیکلوپیڈیا ہے۔جس میں 1400 پودوں،غذاؤوں اور ڈرگز کے بارے میں لکھا ہوا ہے۔ کتاب الفابیٹکلی فارمڈ ہے۔

ابن البیطار کی دریافتیں؛
ابن البیطار نے عرق گلاب اور عرقِ لیموں کے بارے میں کیمیکل انفارمیشن دی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ خوشبو والا سیرپ نایاب پتیوں اور پھولوں سے نکالا جاتا ہے۔ چربی اور گرم تیل کو استعمال کرتے ہوئے بعد ازاں اسے دار چینی کے تیل میں ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ زیتون اور تلوں کا تیل بھی نکالا جاتا تھا۔ ان حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں ملنے والی بھاپ کو گاڑھا کیا گیا،کنڈینسڈ کیا گیا اور حاصل ہونے والی خوشبودار قطروں کو عطر کے طور پر استعمال کیا گیا اور مہنگی ادویات کے طور پر ان میں ملا دیا گیا۔وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مختلف بیماریوں کا علاج پودوں کے بیجوں کی دوائیاں بنا کے کیا۔ مثال کے طور پر انہوں نے نے ایک پودے الکھلا سے مادہ نکالا اور اسے شہد میں ملا کے برص کے مرض کے لیے استعمال کیا۔وہ پہلے شخص تھے سے جنہوں نے میں ہڈی والی جگہوں میں مشکل علاج کر کے دکھایا۔ نام دیا۔“Snow Of China” انہوں نے گن پاوّڈر کا بھی ذکر کیا جسے انہوں نےانہوں نے سب سے پہلے پہلے کیمیائی ادویات دریافت کیں اور درختوں سے انہیں دریافت کیا۔

وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے کینسر کا علاج دریافت کیا انہوں نے ڈنڈلین درخت کی خصوصیات دریافت کی کہ کس طرح سے اینٹی آکسیڈنٹ اور اینٹی گروتھ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے مختلف پودوں پر تجربات کیے اور ان کی درجہ بندی کی اور ان کی ہر بیماری کے لحاظ سے خصوصیت وضع کی۔انہوں نے نے متبادل ادویات کے لئے بہت سے تجربات کیے اور انہیں سائنسی حوالہ جات کے ذریعے ایکوریٹ طریقے سے سے کتابوں کے کے سپرد کیا۔ کتابوں ڈیکشنریز سینکڑوں بیماریوں اور ادویات کا رکارڈ اس حساب سے رکھا کہ وہ عرب اور مغرب میں ادویات کی رسائی کا ذریعہ بن گئے۔
Translated Books By Al-Baitar
 Compendium on Simple Medicaments and Foods
 Interpretation of the Book of Dioscorides
 The Book of Evidence and Information, including the defects and delusions in the curriculum
 Essay on Lemon
 A book on medicine.
 Strange verbs and strange properties.
 Doctor’s scale
 A message about poisoning

وفات ؛
البیطار کی وفات 49 سال کی عمر میں 646 ہجری بمطابق 1248 عیسوی کو دمشق میں ہوئی۔ وہ پودوں پہ کچھ تجربات کر رہے تھے جبکہ جس پودے سے وہ زہر نکال کے ادویات کے لیے تجربے کر رہے تھے وہ ان پہ گر گیا اور جس سے انکی وفات ہو گئی۔ابن ابی اعساعیہ کے ایک شاگرد نے البیطار کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا،میں نے دیکھا کہ البیطار کی دریا دلی،مہارت اور سخاوت بیان سے پرے ہے۔میں نے انکی مہارت کا زیادہ تر حصہ دمشق میں دیکھا جہاں وہ اکثر پودوں میں گھرے رہتے تھے۔ میں نے ان میں پودوں کا علم اور ذہانت دیکھی۔اس پاےَ کی کتاب انکے نا قابل یقین خافظہ کی ضمانت ہے۔