Skip to content

کیا تقویٰ کا مطلب اللّٰہ کا خوف ہے ؟

تقویٰ کا لغوی مطلب ” بچنا ” ہے جبکہ دین کی اصطلاح میں تقویٰ کا مطلب ” ہر طرح کے گناہوں سے اللّٰہﷻ کے لیے بچے ۔ اگر کوئی شخص اس لیے گناہوں سے بچے کہ کہیں میں بدنام نہ ہو جاؤں ، لوگ کیا کہیں گے ۔ تو یہ تقویٰ نہیں ہے ۔

تقویٰ اور اللّٰہ کا خوف

تقویٰ کا معنی اللّٰہ کا خوف نہیں ہے کیونکہ لفظ “خوف ” خود عربی زبان کا لفظ ہے جیسے قرآن میں بعض مقامات پر آیا ہے کہ
لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کا اللّٰہ کے خوف کے ساتھ کیا رشتہ ہے .

یہ حقیقت سب کے سامنے عیاں ہے کہ انسان کے دل میں جو بھی ہوتا ہے اللّٰہ اسے جانتا ہے ۔ اور جس ہستی سے کوئی باطنی کیفیات نہیں چھپا سکتا اس سے ظاہری اعمال کیا چھپائے گا ۔

وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے انسان اللّٰہ کے خوف کا شکار ہو جاتا ہے اور بے اختیار اللّٰہ کے تقویٰ کی طرف دوڑتا ہے ۔ لہذا تقویٰ کا مطلب اللّٰہ کا خوف نہیں لیکن اللّٰہ کا خوف ہی وہ محرک ہے جس کی وجہ سے تقویٰ اختیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔

متقین (تقویٰ والے ) کی خوبیاں

قرآن مجید میں متقین کی نشانی یا خوبیاں سورہ البقرہ کی ابتدائی آیات میں بیان ہوئی ہیں ۔

” یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ، اس میں متقین کے لیے ہدایت ہے ۔ وہ لوگ جو غیب پر ایمان لائے اور نماز قائم کرتے ہیں اور اس میں سے خرچ کرتے ہیں جو ہم نے اُنھیں عطا کیا ہے ۔”.
قرآن مجید میں لفظ تقویٰ تقریباً دو سو چالیس بار آیا ہے ۔ تقویٰ کے علاوہ اور بھی اصطلاحات قرآن میں آئی ہیں جیسے اسلام ،ایمان اور احسان ۔ ۔ تقویٰ کے ساتھ ان اصطلاحات کو باری باری مختصراً انکی وضاحت کی جاتی ہے۔
اسلام اور تقویٰ

اسلام کے اصطلاحی معنی ہیں کہ “جو کچھ نبی اکرمﷺ لائے ہیں اس کو اپنی زبان سے اقرار کرنا۔ اسلام کا انسان کے ظاہری اعمال سے ہے اسکا تعلق باطنی کیفیات سے نہیں ہے ۔ ایک مسلمان جو عمل کر رہا ہے صرف اس کے عمل کو دیکھا جاتا ہے یہ نہیں کہ کس لیے یہ عمل کررہا ہے کیونکہ اسکی نیتوں کو اس دنیا میں کوئی نہیں جان سکتا اور دنیا میں اس کے بارے میں جو قانون لاگو ہونگے وہ بھی اس کے ظاہری اعمال کو دیکھ کر لاگو ہونگے۔البتہ آخرت کا معاملہ اس سے الگ ہوگا ۔وہاں پر فیصلے انسان کے ظاہری اعمال کے علاوہ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ یہ اعمال اللّٰہ کے لیے (تقویٰ) کرتا تھا یا کسی دنیاوی وجہ سے۔۔یہی وجہ ہے کہ قرآن نے قیامت والے دن متقین کو کامیاب قرار دیا۔۔اسلام اور تقویٰ کے علاوہ ایمان تیسرا وہ اہم ترازو ہوگا جس پر اعمال تولے جائیں گے۔

ایمان اور تقویٰ

ایمان ایک دلی کیفیت کا نام ہے جس کے معنی اللّٰہ ،اسکے پیغمبر ، فرشتوں اور کتابوں اور یوم آخرت پر یقین کرنے کو کہتے ہیں ۔۔جب جب ایک مسلمان کے اعمال میں ایمان جیسی نعمت بھی شامل ہوجاتی ہے تب عبادت میں تقویٰ جیسی اعلیٰ منزل آسانی سے حاصل کرلیتا ہے۔ اگر ایمان ہی نہ ہو تو اسے کیسے یقین آئے گا کہ اللّٰہ اسے دیکھ رہا ہے لہٰذا ایسی کیفیت میں وہ اللّٰہ کے لیے نہیں کسی اور کے لیے عبادت کرے گا جو کہ تقویٰ کے خلاف ہے۔

تقویٰ اور احسان

احسان لفظ کا مادہ لفظ “حسن ” ہے جس کے معنی کسی کام میں خوبصورتی پیدا کرنا ہیں ۔اصطلاح میں اس کے معنی ہیں کہ جو بھی نیک اعمال کیے جائیں ان میں خوبصورتی پیدا کی جائے ، ان میں حُسن پیدا کیا جائے۔ ۔اب حسن کیسے پیدا کیا جائے۔۔نبی اکرم نے اسکا حل بھی دیا ہے ۔
ایک حدیث جس کو “حدیث جبریلِ بھی کہا جاتا ہے اس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ پاس تشریف لائے اور کچھ سوالات پوچھے تھے ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اے نبی بتائیے احسان کیا ہے ۔تو نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ احسان یہ ہے کہ اللّٰہ کی عبادت ایسےکرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ نہیں تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
اسکا مطلب یہ ہوا کہ عبادت کے وقت ایسی کیفیت پیدا کرنا کہ ہمارا اللّٰہ ہمیں دیکھ رہا ہے ،یہ احسان کی کم سے کم کیفیت ہے اگر کوئی یہ بھی نہیں کرسکتا تو اس میں احسان نہیں ۔جو لوگ احسان والے ہوتے ہیں انکا فرجہ اللّٰہ کے ہاں سب سے بلند ہوتا ہے یعنی مومن اور متقی سے بھی اوپر۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *