حافظ ابنِ قیم رحمہ اللہ نے ایک عجیب بات لکھی ہےایک دفعہ ایک گلی میں جا رہے تھے ایک دروازہ کھلا ہے میں نے دیکھا کہ ایک آٹھ دس سال کا بچہ ہے اس کی ماں اس کو تھپڑ ماریہ ہے اس کو کہہ رہی ہے توں نا فرمان ہوگیا ہے میری کوئی بات نہیں سنتا کوئی بات مانتا نہیں ہے دفع ہو جا یہاں سے
یہ کہہ کر ماں نے جو دھکا دیا تو وہ بچہ گھر سے باہر آگیا، ماں نے کنڈی لگالی میں و ہیں کھڑا دیکھ رہا تھا؟فرماتے ہیں بچہ مار کی وجہ سے رورہا تھا اور چلتا جارہا تھا تھوڑا آگے جا کر پھر واپس آ کر گھر کے دروازے پر بیٹھ گیاروتے رورتے وہ وہی سو گیا کافی دیر بعد اس کی ماں نے کسی کام کے لیے دروازہ کھولا دیکھا کہ دروازے پر بچہ سو رہا ہے اس کا ابھی غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا وہ پھر ناراض ہونے لگی اور کہنے لگی چلا جا یہاں سے دور ہوجامیری نگاہوں سے،وہ بچہ کھڑا ہو گیا آنکھوں میں آنسوآگئے کہنے لگا امی جب آپ نے گھر سے دھتکار دیا تھا میں نے سوچا ہے کہ میں چلا جائوں گا،میں بازار جا کربھیک مانگلوں گامجھے کچھ نا کچھ کھانے کو مل جائے گا امی یہ سوچ کرواپس آیا ہوں مجھے دل میں یہ خیال آیا کہ مجھے دنیا کی سب نعمتیں مل جائیں گی،لیکن امی جو محبت آپ دے سکتی ہیں یہ کہیں نہیں مل سکتی
امی یہ سوچ کر واپس آ گیا ہوں۔امی میں اسی در پر پڑا رہوں گا تو مجھے دھکے دے یا مارے۔میں کہیں نہیں جا سکتا ماں نے اس کو سینے سے لگا لیا اور کہا میرے بچہے اگر تیرے دل میں یہ کیفیت ہے کہ جو محبت تجھے میں دے سکتی ہوں وہ کوئی نہیں دےسکتا تو میرے دروازے کھلے ہیں۔فرماتے ہیں جب گنہگار بندہ اس احساس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دروازے پر آتا ہے اللہ تعالیٰ بھی ماف کردیتا ہیں تو جب انسان اس طرح اپنے گناہوں سے توبہ کر لیں تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہیں
ھم پر احسان فرمائے سچی توبہ کی توفیق دے اور آئندہ زندگی کو گزری ہوئی زندگی کا کفارہ بنا دیجئے اور آنے والے وقت کو گزرے ہوئے وقت سے بہتر فرمادیجئے آمین،اللہ کی قسم آخرت کےمقابلہ میں دنیا کی حقیقت صرف اتنی ہے جیسے کوئی سمندر میں(شہادت کی) انگلی ڈالے پھر (نکال کر)دیکھےکہ وہ کتنا پانی لے کر لوٹتی ہے،،اگر آپ کو یہ واقعہ اچھا لگا ہے تو آگے ضرور شیئر کریں، شکریہ