Skip to content

انسان کو تخلیق کرنے کا اصل مقصد

انسان الله تعالیٰ کی پیدہ کردہ ایسی مخلوق جسے “اشرف المخلوقات” کا لقب عطا کیا گیا۔ہر ایک زندگی میں کم سے کم ایک بار یہ ضرور سوچتا ہے کہ أخر اسے کیوں بنایا گیا۔عبادت کے لیے تو پہلے ہی فرشتے موجود تھے جو ہر طرح الله کی عبادت کرتے تھے ۔

اس بات سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ انسان صرف ہر وقت عبادت کیلیے نیں بنایا گیا بلکہ اصل مقصد تو کچھ اور ہے۔انسان کو اپنی زندگی اور موت کے علاوہ ہر کام کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔انسان چاہے تو وہ کچھ کر سکتا ہے جو بہت سے انسان ناممکن سمجھتے ہیں۔ نسان کی تھوڑی سی طاقت کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ اس نے سب سے خطرناک اور جنگل کے بادشاہ (شیر) کو اپنے اشاروں پہ نچا لیاہے۔اصل میں انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے بنایا گیا ہے کیونکہ ا مخلق میں دماغ جیسی ایڈوانس ٹیکنالوجی رکھی گئی ہے جس سے یہ صحیح اور غلط میں فرق کر کے اپنے فیصلے کر سکتا ہے۔اور اس سے بھی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مخلوق میں الله پاک کے سب سے پیارے اور تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد (ص) کا نزول کیا جانا تھا۔

ہر انسان کو چاہیے کے اپنے اچھے سلوک سے لوگوں کا دل جیتے اور لوگوں کی بنا کسی لالچ کے خدمت کرے کیوں کہ اس کو پیدہ کرنے کا اصل مقصد یہی ہے کہ یہ اایک دوسرے سے پیار سے رہیں اور اسی سی الله پاک خوش ہوتا ہے
ہر انسان کو اپنی زندگی کا تعین تب سے ہی کر لینا بہتر ہے جب سے وہ بالغ ہو۔ کیونکہ اگر وہ بچپن سے ہی اپنا کردار بنانے پہ محنت کرے گاتو بڑے ہو کر اسکی خود ہی دوسروں کی عزت اور خدمت کی عادت بن چکی ہو گی ۔ کسی بھی بچے کی پرورش کا انحصار مندرج ذیل 3 باتوں پہ ہوتا ہے:

نمبر۱۔ والدین
اس دور میں بچوں کی منفی سوچ کی سب سے بڑی وجہ والدین کی نا اہلی ہے ۔ والدین جب بچوں کے سامنے بیٹھ کر دوسروں کی برائیاں کرتے ہیں یا کسی کو نیچا دیکھانے کی سازشیں کرتے ہیں تو بچے بھی اسی ماحول کی وجہ سے سازشی بنتے ہیں اور دوسدوسروں کی عزت نہیں کرتے ۔

نمبر۲۔ ماحول
والدین کے بعد بچوں پہ سب سے زیادہ اثر ماحول کا پڑتا ہے اس لیے سب سے پہلے تو والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو اچھا ماحول فراہم کریں ۔ اگر باہر کا ماحول اچھا نہیں تو بچوں کو گھر میں ہی ہر چیز فراہم کریں ۔ اور معاشرے والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچہ چاہے کسی کا بھی ہو اسے ہمیشہ اچھی نصیحت کریں۔

نمبر۳۔ فطرت
دوستو کسی بھی انساانسان کی فطرت ایک ایسی چیز ہے جو نہ ہی والدین اور نہ ہی معاشرہ تبدیل کر سکتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو ماحول اچھا ملا ہوتا ہے پپھر بھی وہ برے ہوتے ہیں اس کا صاف یہی مطلب ہے کہ اس کی فطرت ہی ایسی ہے کیوںکہ حضرت أدم (ع) نے تو سب بچوں کی تربیات ایک جیسی کی ہو گی پھر بھی ایک بھائی نے دوسرے بھائی کا قتل کر دیا کیونکہ قاتل کی فطرت ہی ایسی تھی

اسی لئے ہم سب کو چاہئے کہ ہم خود کو بدلیں اور اپنے بچوں کی تربیت اچھی کریں کیونکہ کل کو ھماری تربیت کی وجہ سے ہمارا بچہ کوئی اچھا کام کرے گا تو االله پاک ہم سے بھی خوش ہو گا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *