انسان گناہ کیوں کرتاہے ؟

In اسلام
December 31, 2020

انسان کبهی اپنی جسمانی و طبعی ضروتوں کی وجہ سے کبھی خواہشات نفس سے مغلوب ہو کر کبھی اہل و عیال کی محبت سے مجبور ہو کر کبھی شیطانی حملوں کا شکار ہو کر اور کبھی بے صبری اور عدم برداشت میں گرفتار ہو کر کسی نہ کسی گناہ کا مرتکب ضرور ہوتا ہے

اس لیے گناہ ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں مگر شرط یہ ہے کہ انسان اپنے گناہ کو گناہ سمجھے گناہ ہوجانے کے بعد اس پر نادم و شرمندہ ہو کر اللّٰہ کے خوف سے اپنے گناہ پر کپکپا اٹھے اور بلاتاخیر اپنے کیے ہوئے گناہ پر اللّٰہ کے حضور سچی معافی مانگ لےاور اللّٰہ کے حضور یہ وعدہ کرے کے آئندہ میں یہ گناہ کبھی نہیں کروں گا ِ انشاءاللّٰہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان اور گناہ لازم و ملزم ہیں ِِاللّه تعالٰی نے انسان کی جسمانی ساخت ہی کچھ ایسی بنائی ہے کہ وہ گناہ سے بچ نہیں سکتا البتہ انبیاء پر چونکہ اللّٰہ تعالٰی کا خاص فضل ہوتا ہے اس لیے ان کے بارے میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں اللّٰہ تعالٰی گناہوں سے بچالیتا ہے ِان کے علاوہ کسی اور شخص کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا غلط ہے کہ اس سے پہلے کبھی گناہ سرزد نہیں ہوتا یہ الگ بات ہے کہ کسی کا گناہ چھوٹا ہو اور کسی کا بڑا ہو یا کسی کا گناہ کم ہو یا کسی کا زیادہ لیکن تمام انسان فرشتوں کی طرح معصوم عن الخطابن جائے

یہ اللّٰہ کی مشیت کے منافی ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ الّٰلہ کی نافرمانی سے تعلق رکھنے والا ہر کام اپنے انجام کے اعتبار سے نہایت مہلک ہے البتہ اپنے وجود اور حیثیت کے اعتبار سے کچھ گناہ چھوٹے ہوتے ہیں اور کچھ بڑے ِاس لحاظ سے جمہور اہل علم گناہوں کی دو قسمیں بیان کرتے ہیں ایک وہ جس میں چھوٹے گناہ شامل ہیں اور دوسری وہ جس میں بڑے گناہ شامل ہیں کچھ لوگ گناہوں کی اس تقسیم کو تسلیم نہیں کرتے ان کے بقول الّٰلہ تعالٰی کے کسی بھی حکم کی خلاف ورزی کو صغیرہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ کبیرہ ہی کہا جائے گا ِانسان پھر بھی انسان ہے اسی سچی توبہ کے باوجود وہ دوبارہ اسی یا کسی اور گناہ کا بھی ارتکاب کر سکتا ہے اس لیے جتنی مرتبہ گناہ ہو اتنی مرتبہ اللّٰه سے سچے دل سے معافی مانگی جائے

انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللّٰه تعالٰی اس وقت تک اپنے بندے کے گناہوں کو معاف کرتے رہتے ہیں جب تک گنہگار بندے کا سانس جاری اور ہوش وحواس قائم رہتے ہیں البتہ جب ہوش وحواس قائم نہ رہیں جان کنی کا وقت اور نزع کا عالم طاری ہو جائےسانس اکھڑ جائے موت کے فرشے نظر آجائیں اور روح کھینچی جانے لگے تو پھر اس کی معافی اور توبہ کا موقع ختم ہو جاتا ہےلیکن اے انسان ! کبھی اس دھوکے میں نہ مارے جانا کہ جب موت کے آثار ظاہر ہوں گے تب فوراً توبہ کرکے نیک بن جاوٴں گا یا جب بڑھاپے کے آثار نمایاں ہوگے تب گنہگارانہ زندگی چھوڑ کر نمازی پرہیزی بن جائوں گا ِ