جب مقدر میں ہی ناکامی لکھی ہے تو پھرمیری ساری کوششیں بے معنی ہیںرب تعالٰی جب کسی پر مہربان ہو جاتا ہے
اسے پھر کسی اور کی کیا ضرورت رہ جاتی ہےدشمنوں کے حسد بخیلی کی اسے کیا پرواہاگر رب چاہے اپنا یار مہربان ہو جائےسچی گل یہ ہے کہ جس بندے کا یار ہی دشمن بن جائےاسکی مثال اس بندے جیسی ہے جو اپنے وطن میں پردیسی ہواور جب کوئی اپنے وطن میں ہے یردیسی ہو جائےتو پھر یہ دوری نہیں ناپی جا سکتی
پیار میں دکھوں کے سوا کچھ نہیں آتا،وہ جو کہتا ہے اسے کہنے دو،کبھی کبھی بیری بھی سجن بن جاتے ہیں،پر رحمان سے اس کے محبوب نے یاری نہ نبھائی اگر تو اپنے رب کا قاصد ہے تو اپنی جان اور اپنے دل کو بھول جا اس راہ میں جو کچھ بھی تیرے آگے آ جائے اس میں تو اپنا فائدہ ہی سمجھ ایک ہی با رب کی رضا کے آگے سر جکھا کر خوش ہو جا اس کی ہستی کی طرف دیکھ جیسے بادل ہوں یا دھواں تو اپنے وجود کی طرف دھیان دے اور پھر بتا تجھے پسند ہے یا نہیں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا امتی بن کہ رہ تو کبھی غرور کی تا بعداری شروع نہ کرنا غفلت کی نیند سے جاگ کب تک ایسے سوتا رہے گا دعا ہو چاہے درود اس شغل کا کبھی پا بند بھی ہوا کر جو بھی عارف ہے جو حق کی ثناء بیان کرتا ہے سوہنی آواز میں جیسے داود سن تیری نیند اگر کھلی اور تو اپنے آپ کو ڈھونڈے گا
تو پھر یہ سوہنی آواز سنائی دے گی اگر تو بندگی میں ایاز کی طرح تا بعداری سیکھ لے تبھی تو اپنی باتیں رب سے منوا سکتا ہے جو سیانوں نے کہا ہے اور جو نہیں کہا اس بھید کو عقل مند ہی جان سکتا ہے بے شک کوئ اگر سپند کی طرح آگ میں جل جائے پر لوبان کی خوشبو اور مزہ کہاں اپنی جان گندگی تو اسے پاک صاف کر لے جیسے دور تک لہریں مارتا سمندر ہے رحمن اپنے محبوب کے ذکر کے بغیر کوئ اور بات جانتا ہی نہیں
رحمان بابا در حقیقت پشتو کے ایک بہت بڑے شاعر گزرے ہیں اور انھوں نے اپنی شاعری میں عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں کے بارے میں بتایا۔ آپ پرانے زمانے کے ایک مشہور شاعر ہیں