وہ دن نہیں رہے تورہیں گے یہ بھی نہیں
یہ پنجابی کی مشہور کہاوت ہے کے۔(جے او دن نیں رے تے رینے اے وی نیں)
قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک گاوں میں ایک کسان رہتا تھا جو بہت غریب تھا۔ایک دن جب کسان دوپہر کا کھاناکھانے بہٹھا اس کے پاس ایک فقیر آیا اور اس نے صدا کی کے مجھے کچھ کھانے کو دے اس کسان نے اسکو کھانے کے لیے پاس بٹھا لیاجب فقیر کھانا کھا چکا تو اس نے کسان سے پوچھا کہ تم تو بہت غریب ہو تو کسان نے جواب دیا کہ اگر وہ دن نہیں رہے تو رہیں گے یہ بھی نہیں یہ جواب سن کر فقیر حیران رہ گیا ۔
اب وہ دونوں اچھے دوست بن چکے تھے۔فقیر نے اگلے سال آنے کا وعدہ کیا اور چلا گیا ۔ادھر کسان محنت کرتا رہا اور اب اس کے پاس اچھا مکان اور کچھ روپے جمع ہو گیے تھے ۔ایک سال گزر گیا تھا اور فقیر نے سوچا کے اب وہ اپنے کسان دوست کو ملنے جائے۔فقیر کسان سے ملنے آیا اور اس نے دیکھا کے اب کسان کے حالات بہت اچھے ہو گئے ہیں اسنے کسان سے کہا کہ اب تو تمہارے حلات بہتر ہو گئے ہیں تو کسان نے پھر سے وہی جواب دیا کے وہ دن نہیں رہے تو رہیں گے یہ بھی نہیں ۔ کسان نے فقیر کی مہمان نوازی کھانا کھلایا فقیر چلا گیا۔فقیر ایک سال بعد پھر آیا اسنے دیکھا کہ کسان کے حالات اور بہتر ہو گئے ہیں اب کسان کے پاس کئی ایکڑ زمین تھی اور لوگوں نے اس کو گاوں کا نمبردار بنا دیا تھا۔فقیر نے اس سے پھر یہی سوال کیا کہ اب وہ امیر ہو چکا ہے کسان نے اسے پھر وہی جواب دیا کہ وہ دن نہیں رہے تو رہیں گے یہ بھی نہیں۔
فقیر چلا گیا اسی سال کسان کی طبیعت بہت خراب ہو جاتی ہے اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور وصیت کی کے جب وہ مر جائے تو اس کی قبر کی تختی پریہ الفاظ کندہ کروئے جایں(وہ دن نہیں رہے تو رہیں گے یہ بھی نہیں)کسان کی مت ہو گئی بیٹوں نے وصیت کے مطابق تختی پر یہ الفاظ کندہ کروادیے۔فقیر سال بعد پھر آیا جب اس کو پتہ چلا کے اس کسان دوست فوت ہو گیا ہے تو اس نے کسان کے بیٹون سے اس کی قبر پر جانے کو کہا فقیرنے جب دعا کےلے ہاتھ اٹھائے تو دیکھا کہ تختی پر وہی الفاظ لکھے تھے(جے او دن نیں رے تے رینے اے وی نیں)فقیر نے سوچا ابھی بھی جب دوبارہ سال بعد فقیر قبر کی جگہ آیا تو دیکھا وہاں دریا بہ رہا ہے فقیر کھڑا یہ مناظر دیکھ رہا تھا کے غائب سے آواز آئی (جے او دن نیں رے تے رینے اے وی نیں)