عوام کی آواز
December 28, 2020

کھیلوں سے رہیں ہر لمحہ با خبر

ماؤنٹ منگنوئی ٹیسٹ: رضوان، فہیم کی شاندار شراکت، فالو آن کاخطرہ ٹل گیا -ولنگٹن (ویب ڈیسک)ماؤنٹ منگنوئی ٹیسٹ کے تیسرے روز نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان ٹیم کے کپتان رضوان اور فہیم اشرف کی سینچری شراکت نے ٹیم کو فالو آن ہونے سے بچا لیا۔ میچ کے تیسرے دن کھیل شروع ہوا تو عابد علی سکور میں 9 رنز کے اضافے کے بعد 25 کے انفرادی سکور پر آؤٹ ہوگئے، بطور نائٹ واچ مین بیٹنگ کرنے والے فاسٹ بولر محمد عباس 5 رنز بناکر لوٹ گئے۔سابق کپتان اظہر علی اور حارث سہیل کا بھی وکٹ پر قیام مختصر رہا، اظہر علی 5 اور حارث سہیل 3 رنز بناسکے، فواد عالم اور کپتان محمد رضوان نے 28 رنز جوڑ کر کچھ مزاحمت کی مگر فواد عالم 9 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے۔چائے کے وقفے سے چار منٹ قبل بارش اور ژالہ باری شروع ہوگئی جس کے سبب 112 رنز 6 کھلاڑی آؤٹ پر کھیل روک کر چائے کا وقفہ شیڈول سے پہلےکر دیا گیا۔ چائے کے وقفے کے بعد جب کھیل دوبارہ شروع ہوا تو کپتان محمد رضوان نے اپنی نصف سینچری سکور کی۔کپتان رضوان اور فہیم اشرف کے درمیان قائم ہوئی شراکت ٹیم کو بحران سے نکالنے میں کارآمد ثابت ہوئی، دونوں کھلاڑیوں نے اپنی نصف سینچری مکمل کی اور مل کر 107 رنز جوڑے۔رضوان 71 رنز بناکر رن آؤٹ ہوئے، ان کے بعد آنے والے یاسر شاہ 4 رنز بنا کر واپس پویلین لوٹ گئے۔پاکستان کی جانب سے 86 رنز بناے والے فہیم اشرف کے ساتھ 6 رنز بنا کر شاہین شاہ موجود ہیں۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے کائیل جیمی سن، ٹرنٹ بولٹ اور ٹم ساؤتھی نے دو دو وکٹیں لیں، جبکہ ویگنر نے ایک وکٹ حاصل کی ہے۔ماؤنٹ منگنوئی ٹیسٹ میں پاکستان کو پہلی اننگز میں197 رنزکا خسارہ باقی ہے جبکہ اس کے 2 کھلاڑی ابھی باقی ہیں

عوام کی آواز
December 28, 2020

کشمیر پریمئیر لیگ

کشمیر پریمئیر لیگ پوری دنیا کو ایک میسج دے گی کہ آزاد کشمیر کے عوام پرامن ہیں اور اپنی زندگیاں انجوائے کر رہے ہیں جبکہ جموں کشمیر میں آئے روز بھارت ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہا ہے۔ کشمیر پریمئیر لیگ کی افتتاحی سرمنی 24 دسمبر بروز جمعرات گورنر ہاؤس سندھ میں منعقد ہوئی جس میں گورنر سندھ عمران اسماعیل اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین شہریار آفریدی نے شرکت کی لیگ اگلے سال یکم اپریل سے 10 اپریل تک میرپور اور مظفرآباد کے کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلی جائے گی جبکہ راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم کو ضرورت کے طور پر رکھا گیا ہے لیگ کے صدر عارف ملک کا کہنا ہے کہ 7 میچ میرپور اور 11 میچ جن میں سیمی فائنل اور فائنل مظفرآباد سٹیڈیم میں کھیلے جائیں گے۔لیگ کے پہلے ایڈیشن میں ہر ٹیم میں 5 کھلاڑی کشمیر کے رہائشی لیے جائیں گے جبکہ باقی پاکستان کے بین الاقوامی سٹارز شامل ہوں گے جبکہ 2nd ایڈیشن میں بیرونی ممالک کے کھلاڑی بھی شامل کیے جائیں گے۔ کشمیر پریمئیر لیگ میں 6 ٹیمیں حصہ لیں گی جن میں راولا کوٹ ہاکس،باغ سٹالینز،مظفرآباد ٹائیگرز،میرپور رویلز،کوٹلی پینتھرز اور اوورسیز ووریرز شامل ہیں۔ کشمیر پریمئیر لیگ کے صدر عارف ملک کا کہنا ہے کہ یہ لیگ پاکستان کرکٹ بورڈ سے اپرووڈ شدہ ہے اور پی سی بی کے ہی امپائرز اور ریفری نگرانی کریں گے اور اینٹی کرپشن یونٹ دیکھ بھال کرے گا۔

عوام کی آواز
December 28, 2020

کان میں درد کا قدرتی علاج

اگر آج کے قدرتی علاج کرنے کے بعد بھی آپ کے کان کی تکلیف دورنہیں ہوتی تو آپ کو اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کان میں درد ایک انتہائی خوفناک تکلیف ہے جس کا اندازہ انسان کر سکتا ہے۔ جو لوگ کان میں درد کا تاندازہ کرتے ہیں وہ شکایت کرتے ہیں کہ وہ بجنے اور بھنگنے کے ساتھ ساتھ آواز کو ٹھیک سے نہیں سن سکتے ، اور یہ کہ وہ کان کے اندر دباؤ محسوس کرتے ہیں۔یہ عام طور پر کسی انفیکشن کے نتیجے میں ہوتا ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ کان کی نالی سے مسدود ہے یا زخمی ہو گئی ہے۔ چاہے یہ کمزور ہو یا شدید ، علاج کے بغیر گھنٹوں یا دنوں میں غائب ہوسکتا ہے ، لیکن اس سے بھی بہتر خبر ہے۔ درد کو دور کرنے کے قدرتی علاج موجود ہیں! کان میں درد کی وجوہات کان میں درد کی بہت سے ممکنہ وجوہات ہیں۔ یہ زیادہ تر کان کی نالی میں یا اس کے آس پاس کے انفیکشن کی وجہ سے ہے۔ یہ ایسٹاچین ٹیوب کو روک سکتا ہے جو درمیانی کان سے سیال نکالتا ہے۔اگر سیال کو اچھی طرح سے نہ نکالا جائے تو ، انفیکشن زیادہ سنگین ہوتاہے۔ متاثرہ جگہ پر ہلکا سا دباؤ بھی ہوتا ہے۔ تکلیف عام طور پر شدید نہیں ہوتی ہیں ، لیکن آپ کو اپنے ڈاکٹر سے ملنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اہم وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔ سائنوسائٹس اچانک دباؤ میں تبدیلی جبڑے کی تکلیف زبانی انفیکشن جیسے مسوڑوں کی بیماری یا پیریڈونٹائٹس کانوں کا پھٹنا کان میں انفیکشن کان میں درد کی علامات کان کے درد کے ساتھ مندرجہ ذیل علامات کا ہونا۔ گلے کی سوزش کان میں سیٹی کا بجنا دردمیں آواز کو اچھی طرح سے نہ سن سکنا سر درد توجہ دینے میں دشواری کان میں درد کے قدرتی علاج اگر آپ کان کے درد کے بارے میں فکر مند ہیں تو ، اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں ڈاکٹر کویہ دیکھنا چاہیے کہ آپ کے لیے کیا بہتر ہے۔ اگر آپ کی علامات ہلکی ہیں تو ، کچھ قدرتی علاج آپ کو بہتر محسوس کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ ہیٹ پیک تھرمل کمپریسس ایک روایتی علاج ہے جو تکلیف دہ جگہ کو نرم کرتا ہے اور گردش کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے۔تولیہ کو گرم پانی میں بھگو دیں ، اسے نچوڑ لیں ، اور اپنے کانوں کے خلاف 5 منٹ تک دبائیں۔متبادل کے طور پر ، آپ وارمنگ پیڈ استعمال کرسکتے ہیں یا اسے گرم کرنے کیلئے ڈرائر استعمال کرسکتے ہیں۔ * احتیاط: درجہ حرارت جلد کے لئے محفوظ ہونا چاہئے۔ ورنہ ، آپ جل سکتے ہیں۔ لہسن کچا لہسن ، جس میں اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی ویرل خصوصیات ہیں ، انفیکشن کی وجہ سے کان کے درد کو کم کرنے کا ایک مؤثر ترین طریقہ ہے۔کچے لہسن کی توری کو نچوڑ یا کچل دیں اور لہسن کا جوس چھان لیں۔کانوں کے درد پر 1-2 قطرے لگائیں۔دن میں دو بار دہرائیں جب تک کہ درد غائب نہ ہو۔ زیتون کا تیل زیتون کا تیل کان کے درد کا علاج نہیں کرتا ہے ، لیکن یہ کانوں کی نالی کو روکنے کے لئے ایک چکنا کرنے والا اثر ہے۔تھوڑا سا زیتون کا تیل گرم کریں اور 3 قطرے کھلے ہوئے زخم پر لگائیں۔ پیاز پیاز میں لہسن کی طرح خصوصیات ہیں۔ اس میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات ہیں اور وہ مائکروجنزموں کو مار سکتا ہے جو آپ کے کانوں میں پریشانی کا باعث ہیں۔ایک تازہ پیاز کاٹ کر تولیہ میں لپیٹ لیں۔اسے اپنے کان پر رکھیں اور 5 منٹ تک بیٹھنے دیں۔ضرورت کے مطابق دن میں دو بار استعمال کریں۔ ادرک ادرک ، جس میں سوزش اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات ہیں ، کان کی نالی کو صاف کرتاہے اور انفیکشن سے کان کے درد کی تکلیف کو دور کرتا ہے۔تھوڑا سا ادرک پیس لیں ، رس نچوڑ کر جمع کریں۔کانوں کے درد کیلئے 3 قطرے لگائیں اور روئی کے پیڈ سے ڈھانپیں۔اس کا استعمال ہر روز اس وقت تک کریں جب تک کہ درد دور نہ ہو۔ اوپر دیئے گئے قدرتی علاج درد میں مدد کرسکتے ہیں ، لیکن یہ نہ بھولنا کہ وہ عارضی ہیں۔ اگر آپ کے کان میں درد کسی انفیکشن کی وجہ سے ہے تو ، اس سے صحیح طریقے سے نمٹنے کے لیے دوسرے علاج کی ضرورت ہوگی۔

عوام کی آواز
December 28, 2020

نیو ز فلیکس ویب سائٹ کروڑوں لوگوں کو روزگار کی سہولت مہیا کرنے جا رہی ہے

نیو زفلیکس ویب سائٹ کروڑوں لوگوں کو روزگار کی سہولت مہیا کرنے جا رہی ہے. جس سے آپ کسی بھی وقت کہیں سے بھی بیٹھے بیٹھے پیسے کما سکتے ہیں. یہ ایک ایسی سائیٹ ہے جو کہ بغیر کسی سرمایہ کاری کے آپ کو روزگار کمانے کی سہولت مہیا کرتی ہے۔ بے روزگاری پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ چونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں دن بدن بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ نہ صرف دیہاتی علاقوں میں بلکہ شہری علاقوں میں بھی بے روزگاری کا مسئلہ بہت پھلتا پھولتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل اس بے روزگاری کی گرفت میں بہت تیزی سے آرہی ہے۔ ہر سال پاکستان کی اعلی یونیورسٹیوں سے لاکھوں گریجویٹس تیار ہو رہے ہیں۔ لیکن یہی گریجویٹس بے روزگار پھرتے ہیں اور اچھی جاب نہیں ملتی۔ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح تقریبا 5.7 فیصد تک ہو چکی ہے۔ یہ نوجوان نسل کو آگے بڑھنے سے روک رہی ہے۔ ہر پڑھا لکھا انسان چاہتا ہے کہ وہ خود سے کمائے اور اپنی ضروریات زندگی کو پورا کر سکے۔ لیکن بدقسمتی سے آج کل پاکستان میں نوکری حاصل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ بے روزگاری کی وجوہات اگر ہم یہ امید لگائیں کہ آئندہ سالوں میں بے روزگاری پر قابو پا لیا جائے گا تو یہ بھی صرف خود کو تسلی دینے والی ہی بات ہوگی۔ کیونکہ پاکستان میں آبادی پر بالکل قابو نہیں پایا جا سک رہا۔ آبادی میں میں دن بدن بہت تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کی معیشت بھی بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اب تک اس بحران سے نجات نہیں پائی جا سک رہی۔ اسی لیے دن بدن مہنگائی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ غریب انسان غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ نیوز فلیکس کروڑوں لوگوں کا روزگار لوگوں کی انہی پریشانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نیوز فلیکس نے یہ ٹھان لی ہے کہ کروڑوں لوگوں کو روزگار مہیا کیا جائے۔ جس سے تمام لوگ نہ صرف روزگار حاصل کر سکیں گے بلکہ اپنی ضروریات زندگی کو بھی بہترین طریقے سے پورا کر سکیں۔ اس کے علاوہ یہ سائیٹ آپ کو بہت سی سہولیات بھی مہیا کرتی ہے۔ جیسا کہ وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ آپ کسی بھی وقت کام کر سکتے ہیں چاہے دن ہو یا رات۔ اگر آپ کوئی پرائیویٹ جاب بھی کر رہے ہیں تب بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ آفس میں ہی فارغ وقت میں کام کر سکتے ہیں۔ اور آپ گھر کے خوشگوار ماحول میں بھی بیٹھ کر آرام سے کام کر سکتے ہیں۔ اردو زبان کو فروغ کیونکہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور تقریبا تمام ہی لوگ اردو کو پڑھنا لکھنا اور سمجھنا جانتے ہیں۔ لہذا تمام پاکستانیوں کی سہولت کے لیے یہ ویب سائیٹ بنائی گئی ہے۔ جہاں پر آپ لوگ باآسانی اپنی قومی زبان اردو میں بلاگ لکھ سکتے ہیں۔ جس کو آسانی سے پڑھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ بلاگ لکھ کر کمائیں نیوزفلیکس آپ کو یہ سہولت دیتی ہے کہ آپ اردو میں مختلف عنوانات پر بلاگ لکھیں۔ مثلا اہم خبریں، صحت، سیاسی تبصرہ، سوشل نیوز، فیشن وغیرہ۔ اس میں سے کسی ایک عنوان پر آپ بلاگ لکھ کرنیوزفلیکس پر جمع کروایں۔ نیوزفلیکس نے ایک ٹیم مقرر کی ہے جو کہ آپ کے بلاگ کا اچھی طرح سے جانچ کرے گی۔ کوئی غلطی ہونے کی صورت میں آپ کو دو مواقع دیے جائیں گے کہ اپنی غلطی کو درست کر کے واپس جمع کروائیں۔ بلاگ سے آپ کتنا کما سکتے ہیں؟ جب آپ نیوز فلیکس پر اپنا بلاگ پبلش کروائیں گے اس سے حاصل ہونے والی رقم کا 80 فیصد حصہ آپ کو دیا جائے گا۔ نیو فلیکس ایسی سائیٹ ہے جو کہ آپ کو 80فیصد رقم دے گی کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی محنت کا زیادہ سے زیادہ حصہ آپ کو دیا جائے اور آپ زیادہ سے زیادہ کمائیں اوراپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔

عوام کی آواز
December 28, 2020

نئی( COVID-19) ویکسینوں کی دو خوراکیں کیوں بہتر ہیں

(فائزر اور موڈرنہ )کے پاس سال کے آخر تک کوویڈ 19 کے خلاف امریکی آبادی کا 6 فیصد تک ٹیکے لگانے کے لئے کافی مقدار ہے۔ لیکن ایک سادہ سی تبدیلی ان لوگوں کی تعداد کو دوگنا کردے گی جو ویکسین لیتے ہیں۔ دو خوراکیں وصول کرنے کے بجائے ، لائن میں آنے والوں کو ایک مل سکتی ہے۔ ایک شاٹ اتنا موثر نہیں ہے ، لیکن یہ مدافعتی نظام کو کورونا وائرس سے ہونے والے انفیکشن کی کچھ مقدار سے دفاع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ سپلائی پھیلانے سے مزید لاکھوں افراد کو تحفظ ملے گا اور شاید زیادہ سے زیادہ زندگی بچ جائے کم سے کم اور قلیل مدت میں۔ “بوسٹن یونیورسٹی میں متعدی بیماریوں کے ماہر کرسٹوفر گل کہتے ہیں ،” یہ روزانہ کی بنیاد پر اموات کی سطح پر رونما ہونا غیر معمولی ہے ، “موجودہ روز مرہ کی شرح کوایوڈ 19 کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو سکے اس ویکسین کو پھیلانے اور نرسنگ ہوم کے زیادہ سے زیادہ رہائشیوں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو ڈھکنے کے بارے میں سوچنے کا وقت آگیا ہے جتنا ہم ممکنہ طور پر جلد اموات کو کم کرنے کے لئے کر سکتے ہیں۔ موڈرنہ اور فائزر اس بات کی جانچ نہیں کررہے ہیں کہ ان کی ویکسین کی ایک خوراک کس طرح دو سے موازنہ کرتی ہے ، لیکن ماہرین دستیاب اعداد و شمار کی لائنوں کے درمیان پڑھ سکتے ہیں۔ موڈرنہ ویکسین کا ابتدائی شاٹ مدافعتی ردعمل کو بھڑکانے میں دو ہفتوں کا وقت لگتا ہے ، اور وصول کنندگان کو 28 دن بعد بوسٹر مل جاتا ہے۔ نیو یارک ٹائمز میں لکھے گئے وقفے کے مطابق ، علامتی( COVID-19) کی روک تھام کے لئے یہ ویکسین 92 فیصد موثر ہے۔ دوسری خوراک شروع ہونے کے بعد ویکسین 94 فیصد موثر ہے۔ گل کہتے ہیں “دو خوراکیں بہتر تھیں ، لیکن حیرت انگیز طور پر بہتر نہیں تھیں۔” یہ کم واضح ہے کہ کس طرح فائزر کی ویکسین کی ایک خوراک دوہری خوراک کے مقابلہ میں ہے جو 95 فیصد موثر ہے لیکن گل کہتے ہیں کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ایک شاٹ 90 فیصد کے قریب ہے۔ کچھ ماہرین اس تجویز سے محتاط ہیں لیکن افادیت میں فرق کی وجہ سے نہیں۔ وہ سخت شواہد کے بغیر مختلف خوراک کے رہنما خطوط تجویز نہیں کرسکتے ہیں۔ ہارورڈ ٹی ایچ کے پبلک ہیلتھ ماہر بیری بلوم نے کہا ، “ہمیں کسی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے کہ کسی ایک [فائزر یا موڈرنہ] ویکسین سے مدافعتی ردعمل کتنا لمبا یا کتنا مضبوط ہوگا۔” چان اسکول آف پبلک ہیلتھ ، ایک پریس کانفرنس میں۔ مطالعے کے بغیر ماہرین پیش گوئی نہیں کرسکتے ہیں کہ ایک خوراک سے تحفظ کب ختم ہوگا۔ چھ ماہ کے فاصلے پر حفاظتی ٹیکے لگنے والے افراد یہ خیال کر کے بھیڑ والے علاقوں میں جاسکتے ہیں کہ جب ان کا تحفظ در حقیقت ختم ہوجائے گا تو وہ سلامت ہوں گے ، اور صحت کے اہلکاروں کو اس وقت تک پتہ نہیں چل پائے گا جب تک کہ اس کی حفاظت نہیں ہوگی۔ بلوم نے کہا ، “اگر سائنس دان یہ اندازہ لگانا شروع کردیں کہ ثبوت کی بنیاد پر کیا ہونا چاہئے ، شواہد کی بنیاد پر تعمیر کرنے کے برخلاف اس سے قلیل مدت میں مزید زندگیاں بچ سکتی ہیں۔ ہارورڈ ٹی ایچ کے ماہر ولیم ہینج چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کسی بھی خوراک میں تبدیلی کرنے کے لیے کلینیکل ٹرائل کا انتظار کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ بلوم کے نام ایک ہی پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا ، “ایک بار جب ہم نے شواہد اکٹھا کرلئے ، تب ہم بہتر پوزیشن میں ہوں گے کہ وہ اس قسم کی سفارشات پیش کرسکیں۔” لیکن بوسٹن یونیورسٹی کے گل کو خدشہ ہے کہ آزمائش کا انتظار کرنے سے جانیں ضائع ہوجائیں گی۔ وہ کہتے ہیں ، “ہمارے پاس مزید چھ ماہ انتظار کرنے کی آسائش نہیں ہے۔ “ہمیں اپنے پاس موجود معلومات سے کام لینا ہے۔” اگر صحت کی دیکھ بھال کرنے والوں کو بغیر کسی اعداد و شمار کے ایک خوراک کے ساتھ آگے بڑھانا ہے تو بینچ کو خدشہ ہے کہ عوام کوویڈ 19 کی ویکسین وصول کرنے میں زیادہ ہچکچاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو پہلے ہی خدشہ ہے کہ کمپنیاں اپنے ویکسین کے ٹرائلز میں پہنچ گئیں ، اور ایسی ویکسین جوشواہد پر مبنی نہیں ہے اس سے اعتماد کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اور جب ابتدائی طور پر ویکسین وصول کنندگان کو رسد کم ہوسکتی ہے جب فراہمی کم ہوتی ہے تو لوگوں کو اس دوسرے شاٹ کے لئے واپس آنے پر قائل کرنا مشکل ہوتا ہے ، خاص کر جب پیروی کا عمل مہینوں یا سالوں کے فاصلے پر ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لئے ، (COVID-19) ویکسینوں کو پھیلانے کا بہترین طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر تجربہ کردہ لیبلوں کے مطابق اس کا استعمال کیا جاۓ۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

صحت اور تندرستی

صحت کو برقرار رکھنا اور تندرستی سے انسان کو صحت مند رہنے اور معمول کی بھلائی میں مدد ملتی ہے۔ یہ بغیر تھکے ہوئے یا آرام کیے بغیر جسمانی سرگرمیاں انجام دینے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ تاہم ، صحت اور تندرستی کو برقرار رکھنے کے لئے متوازن غذا کے ساتھ باقاعدہ جسمانی ورزش ضروری ہے۔ بہت سے عام لوگوں کو صحت اور صحت مند رہنے کی اہمیت کا کبھی احساس نہیں ہوتا ہے۔ وہ عام طور پر اچھی صحت کی اہمیت کو کم نہیں سمجھتے ہیں ، کیوں کہ وہ اس کے فوائد کو کبھی نہیں جانتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ صحت دولت ہے صحت مند اور تندرست رہنا ہمارے روزمرہ کے کاموں کو انجام دینے میں معاون ہے۔ صحت مند رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بغیر جسم کے جسم کا ہونا ، بلکہ آرام دہ دماغ ہونا۔ اگر کسی کے پاس غیر صحت مند ذہن ہے تو وہ اپنے جسم کو صحت مند نہیں رکھ سکتا ہے۔ جسم اور دماغ دونوں کی اچھی صحت زندگی میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے اور پورے جوش و خروش سے اس کا لطف اٹھاتی ہے اچھی ذہنی صحت ہمیں اچھا محسوس کرتی ہے اور صحتمند جسم جسمانی قابلیت اور اعتماد فراہم کرتا ہے۔ اچھی جسمانی صحت مصیبت کے وقت ہماری مدد کرتا ہے ، جبکہ خراب یا ناقص جسمانی صحت ہمیں زیادہ خطرہ بناتی ہے اور ہمارے لئے بیماریوں کا خطرہ بڑھاتی ہے۔ ہمیں اپنے جسم اور دماغ دونوں کو صحت مند رکھنے کے لئے تمام نکات سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ اپنے جسم کو صاف ستھرا اور صحتمند رکھنے کا طریقہ بخوبی جانتے ہیں ، تاہم ان کے ذہن میں کچھ پریشانی برقرار رہتی ہے ، جس کی وجہ سے انہیں صحت مند رہنے کے فوائد نہیں ملتے ہیں۔ ذہنی تناؤ آہستہ آہستہ جسمانی صحت کو کمزور کرتا ہے اور جسم کو کمزور کرتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی صحت کے بارے میں سنجیدہ ہیں وہ کاہلی اورغیر صحتمند کھانا کو نظرانداز کرتے ہیں۔ آج کل ، لوگ اپنی مصروف طرز زندگی میں بہت مصروف ہو چکے ہیں اور ان کے پاس خود کو صحتمند رکھنے یا فٹ رکھنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ صحت مند اور صحتمند رہنے کے ہمیں صحتمند کھانا چاہئے ، اپنے ارد گرد حفظان صحت پر عمل کرنا چاہئے اور باقاعدگی سے جسمانی ورزش کرنا چاہئے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں سخت محنت کا کوئی متبادل نہیں ہے ، اسی طرح صحت اور تندرستی کا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ صحت اور تندرستی کو کیسے بنایا جائے کسی بھی شخص کی صحت اور تندرستی مندرجہ ذیل چیزوں میں مدد کرتی ہے 1- ہمیں اپنے مصروف معمول سے کچھ وقت نکالنا چاہئے اور روزانہ جسمانی ورزش میں باقاعدگی سے مشغول رہنا چاہئے۔ روزانہ کی بنیاد پر 30 سے 60 منٹ کی ورزش یا ہفتے میں 5 سے 6 بار ورزش کسی بھی شخص کے فٹ رہنے کے لئے کافی ہے۔ 2- کسی شخص کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ صحیح وقت پر صحتمند خوراک لے۔ صحت مند غذائیت کے ساتھ اعلی فائبر ، کم چربی ، زیادہ پروٹین اور وٹامن اور معدنیات کے ذرائع اچھی صحت کی اساس ہیں۔ 3- تندرستی اور صحت مند رہنے کے لیےsleeping ، کسی کے لئے نیند کا ایک اچھا نظام ضروری ہے۔ ہمیں اپنے روزمرہ کے معمولات میں نظم و ضبط برقرار رکھنے اور سونے کا صحیح عمل اپنانے کی ضرورت ہے ، جو صحیح وقت پر شروع اور اختتام پذیر ہونی چاہئے۔ ہر رات آٹھ گھنٹے کی نیند لینا ہمارے مدافعتی نظام کو بہتر بناتا ہے اور قلبی امراض سے بچاتا ہے اور ساتھ ہی ذہنی حالت کو بھی بہتر بناتا ہے۔ نیند کا ناکافی نظام نیند کی خرابی اور مختلف ذہنی خرابی کا باعث ہوتا ہے صحت اور تندرستی کی اہمیت 1-بیماریوں (ہائی بلڈ پریشر ، ذیابیطس ، دل کی بیماریوں ، پیٹ کا کینسر ، آسٹیوپوروسس ، موٹاپا ، چھاتی کا کینسر ، وغیرہ) کے خطرے کو کم کرنا۔ 2-جسمانی اور ذہنی طور پر بہتر محسوس ہورہا ہے۔ 3-اعتماد کی سطح کو بہتر بنانا۔ 4-زخموں کا فوری علاج 5-زندگی میں سالوں کا اضافہ کرکے طولانی زندگی کی مدد کرنا۔ 6-تناؤ کو کم کرنا اور معیار زندگی بہتر بنانا۔ 7-تناؤ ، اضطراب اور افسردگی کی سطح کو کم کرنا۔ نتیجہ اخذ کرنا باقاعدگی سے جسمانی سرگرمیاں اور باقاعدگی سے ورزش ہر عمر کے لوگوں کے لئے خاص طور پر نوجوان نسل کے لئے بہت ضروری ہے۔ صحت اور تندرستی زندگی میں خوشی لاتی ہے اور انسان کو تناؤ سے پاک اور بیماری سے پاک زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہے۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

اخلاق نبوی

اخلاق نبوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اخلاق عالیہ کا وہ پیکر تھی، جس کی نظیر پورے عالم میں نہیں مل سکتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا یہ عالم تھا کہ آپ سب سے زیادہ سخی تھے آپ کے پاس کوئی درہم و دینار باقی نہیں رہتا تھا۔ اگر کوئی رقم بچ جاتی اور کوئی آدمی ایسا نا ملتا جسے وہ رقم دے سکیں اور رات ہو جاتی تو آپ اس وقت تک گھر جا کر آرام نہیں فرماتے تھے جب تک اسے خرچ نہ کر لیتے۔ آپ کی عام غذا چھوارے اور جوتھی اس کے علاوہ جو کچھ ہوتا اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے جوتے گانٹھ لیتے، کپڑ وں میں پیوند لگا لیتے گھروالوں کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے۔ چونکہ آپ نے مخلوق خدا میں افضل اور پاکیزہ ترین انسان تھے۔ اس لئے آپ کے اخلاق بھی اعلی اور افضل تھے۔ حضرت مجاہد نے خلق کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ آپ میں اعلی دینداری تھی اور دین اچھے کاموں اور اخلاق حسنہ کا مجموعہ ہے۔“ حضرت عائشہ سے آپ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا۔ آپ کے اخلاق قرآن کریم ہے۔ حضرت قتادہ نے فرمایا خلق سے مراد یہاں یہ ہے کہ آپ نےقرآن کریم کے احکام پرعمل کرتے تھے وہ کام جو خدا تعالی نے منع کر رکھے تھے وہ نہیں کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ کے اس قول میں بہت بڑا راز پوشیدہ ہے اس قول کی تشریع یہ ہے کہ نفوس کی فطرت میں مختلف قسم کے مزاج اورطبیعتیں رکھی گئی ہیں جو ان کا ضروری حصہ ہیں ۔ کچھ نفوس کی تخلیق مٹی سے ہوئی، کچھ کی پانی سے اس لئے ان کے طبائع مختلف ہیں ۔ اسی طرح کچھ نفوس سیاه گارے اور کچھ سکناتی ہوئی اپنی مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ انہی کے مطابق ان کی پیدائش کے ابتدائی حصے میں ان میں حیوانیت و درندگی اور شیطانیت کے مختلف اوصاف ودیعت کئے گئے ہیں۔ انسان میں اسی صفت کی طرف اشارہ کر کے قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے۔ اس نے انسان کومٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح بجتی تھی پیدا کیا اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔ چونکہ ٹھیکرے میں آگ کا دخل ہے اس لئے شیطان کی آ گ کا اثر اس میں بھی موجود ہے مگر خدا تعالی نے اپنی مخفی لطف و عنایت سے حضور کے نفس مبارک سے شیطانی اثر کو شروع ہی سے زائل کر دیا تھا جیسا کہ حلیمہ بنت حارث رضی الہ ہاکی روایت میں مذکور ہے۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

مہارت حاصل کریں

جدت اور تخلیقی صلاحیت: ٹیکنالوجی ہر صنعت میں صف اول کی حیثیت رکھتی ہے ، لہذا یہ آپ کے تخلیقی اور اختراعی ثابت ہونے میں بہت ضروری ہے۔ جب ہم چھوٹے تھے ، ہمیں بتایا گیا کہ خانے کے باہر سوچنا ایک بہت بڑی مہارت ہے ، اور یہ آپ کے پورے کیریئر میں جاری ہے۔ جب آپ کے پاس پروجیکٹس کو نئے انداز سے دیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے تو ، آپ تخلیقی ہونے کے قابل ہوجائیں گے۔ لنکڈین کے مطابق ، تخلیقی صلاحیتیں مستقبل کی سب سے زیادہ مانگ نرم مہارت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹکنالوجی کی وجہ سے بہت سارے جسمانی ، عمل سے متعلق کام کی جگہ لی جاسکتی ہے جس میں انجام دینے کے لئے زیادہ سوچ یا تخلیقی صلاحیتوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ مسئلہ حل کرنے اور تنقیدی سوچ: ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق ، تین میں سے ایک ملازمت میں مسئلے کو حل کرنے کی پیچیدہ مہارت اور ملازمین کو تنقیدی انداز میں سوچنے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ انجینئرنگ اور سائنس جیسے مخصوص پیشوں کو روز بروز تنقیدی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن وہ صرف وہی نہیں ہوتے! یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ حقیقی مسابقتی فائدہ پیدا کرنے کے لئے ان علاقوں سے باہر کے کرداروں کو بھی ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے۔ مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت اعداد و شمار تک بہتر رسائی کو قابل بنارہی ہیں ، لہذا آپ کے پاس اسٹریٹجک فیصلے کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اگر آپ اپنا کردار سنبھالنے سے خود کار طریقے سے خوفزدہ ہیں تو ، ایسا نہ ہو! یہ دیکھنے کے لیے اپنے خیال کو تبدیل کرنا ضروری ہے کہ یہ آپ کے فیصلے کرنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت کو در حقیقت کس طرح بہتر بنا سکتا ہے۔ اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آٹومیشن انسانی وسائل کی صنعت پر کس طرح اثر ڈال رہی ہے تو آپ ہمارا بلاگ پڑھ سکتے ہیں۔ ترقی کی ذہنیت: ترقی پذیری کا ذہن سازی مندرجہ بالا دو نکات پر مشتمل ہے۔ مسلسل بدلتے ہوئے کام کے ماحول میں ، یہ نہایت ضروری ہے کہ آپ فرتیلی ہوں اور آسانی کے ساتھ محور ہوجائیں۔ تو ، ایک عروج مائنڈ سیٹ بالکل کیا ہے؟ یہ مستقل طور پر بہتری لانے کی صلاحیت ہے تاکہ جب بھی آپ اس پر دھیان دیں تو آپ کسی بھی چیز میں بہتری لاسکتے ہیں۔ نہ صرف یہ ، بلکہ ترقی پذیر ذہنیت رکھنے میں تازہ ترین رجحانات اور جدتوں کی تلاش میں مستقل طور پر شامل رہنا بھی شامل ہے جو آپ کی مدد اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ ڈیٹا تجزیہ: ہر صنعت میں ٹکنالوجی مروجہ ہے ، اس سے لوگوں کو تجزیاتی بننے کے ل a اس میں تبدیلی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ روایتی طور پر ، ان کرداروں کے لئے جن کو شاید اعداد و شمار کو دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی ، وہ اب بصیرت سے فیصلے کررہے ہیں۔ یہ ضروری ہے لہذا ثابت کرسکیں اور اس کے نتیجے میں ترقی کا منصوبہ بنائیں۔ روزگار کے بدلتے ماحول میں اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کی صلاحیتیں کچھ اچھی طرح تلاش کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ، روایتی طور پر ، مشمول مصنف نے ڈیٹا کو کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ تاہم ، آج انہیں اپنے مواد کی کارکردگی کو دیکھنا چاہئے اور رسائ کو بہتر بنانے کے ل tre رجحانات کو فائدہ پہنچانا چاہئے۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

نیوز فلیکس اور ڈیجیٹل روزگار

آج کے دور میں پوری دنیا اور بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں جس طرح بے روزگاری بڑھ رہی ہے یہ ایک قابل تشویش بات ہے۔پوری دنیا کی حکومتیں بے روزگاری پر قابو پانے کے لئے بھر پور کوششیں کر رہی ہیں جس کے لئے وہ بڑی صنعتوں کا قیام، چھوٹے پیمانے پر قرضہ جات، گھریلو صنعتوں پر توجہ اور نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لئے پروگرام شروع کرتی ہیں مگر اس کے باوجود بے روزگاری ایک ڈراؤنا خواب بن کر سامنے کھڑی ہے۔ پاکستان میں بے روزگاری ایک مشکل چیلنج بن کر ابھر رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ ہمارا ناقص اور بے کار تعلیمی نظام ہے جس میں ڈگریاں تو بٹ رہی ہیں مگر نوجوان عملی میدان میں بالکل بے کار ہیں۔ جدید دنیا میں طالب علموں کو نا صرف ڈگریاں دی جاتی ہیں بلکہ ان کو تعلیمی اداروں میں ہنر مند بھی بنایا جاتا ہے تاکہ وہ تعلیمی فراغت کے بعد خود اپنی روزی روٹی کما سکیں۔ اب تو نا صرف مختلف پیشوں سے پیسہ کمایا جا ریا ہے بلکہ انٹرنیٹ کی مدد سے بھی پیسہ کمانا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ مختلف ویب سائٹس پر سروسز فراہم کر کے معقول آمدن کمائی جا سکتی ہے۔پاکستان میں بھی بہت ساری ویب سائٹس سے پیسہ کمایا جا رہا ہے جن میں سے ایک سائٹ نیوز فلیکس کے نام سے بہت سارے لوگوں کو روزگار فراہم کر رہی ہے جہاں پر لکھنے کا فن جاننے والے حضرات قلیل مدت میں کافی سارا پیسہ کما سکتے ہیں اس سائٹ کی ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہ اپنی قومی زبان اردو کو بھی پروموٹ کرتی ہے۔ وہ لوگ جو لکھنے کا ہنر جانتے ہیں انہیں چائیے کہ اس سائٹ سے بھر پور استفادہ کریں

عوام کی آواز
December 27, 2020

سوشل میڈیا کے فوائد

سوشل میڈیا انسان کی ایجاد ہے اسکا استعمال دن بدن بڑھتا جارہا ہیں ہر چیز کی کچھ نہ کچھ فوائد و نقصانات ہوتے ہیں اس طرح سوشل میڈیا بھی ہمارے معاشرے میں غلط بھی استعمال ہوتا ہے اور مسبت بھی آۓ دیکھتے ہے کہ سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کیسے کریں۔ نمبر1۔ سوشل میڈیا رابطہ کرنے کا آسان اور سستا ذریعہ ہے اس پر ہم نہ صرف آڈیو کال کرسکتی ہے بلکہ اپنے دوست،رشتہ دار، والدین سکرین پر دیکھ کر اپنی خیالات کا اظہار ایک دوسرے کی ساتھ شئیر کرتے ہیں۔ نمبر2۔اگر آپ پڑھائی کے شوقین ہیں تو سوشل میڈیا پر لاکھو موضوع کی اوپر چینل، ویب سائیٹ ، ارٹیکل موجود ہیں آپ اسکو آن لائن بھی پڑسکتی ہیں اور ڈاونلوڈ بھیکرسکتے ہیں۔ نمبر3۔سوشل میڈیا پر آج کل بہت سے لوگ نظر آرہےہیں کہ وہ اس پلیٹ فارم کو نیک کام کرنے کیلئے استعمال کررہےہے۔ فیس بک، وٹساف ، یوٹیوب پر آن لائن قرآن پاک درس ہوتا ہے جوکہ زیادہ مرد خواتین حضرات اپنی گھر کی اندر سنتے ہیں اور مختلف قسم موضوع دنیاوی و اخری مسائل کا حل نکال کر سکتے ہیں۔ نمبر4۔ سوشل میڈیا کی ذریعے کسی علاقے کا مسائل ایک جگہ سے دوسرے جگہ پہنچانا یہ پلیٹ فارم بہت اہم رول ادا کررہےہے وہ مسائل جو ہم دوسرے بڑے ٹی وی چینل تک رسائی کرتی ہے تو کافی وقت درکار ہوتے ہےاسکے ذریعے ہم فیس بک یوٹیوب ہر اپلوڈ کرکےان مسائل کا حل نکال کر سکتے ہیں۔ نمبر5۔اگر کسی بندے پاس کسی کام میں ہنر موجود ہو اور وہ اپنا ہنر دوسروں کی ساتھ شئیر کر کہ لوگ اس سے کوئی فائدہ حاصل کرسکے تو ان لوگوں کیلۓ یہ ایک بڑا ٹی وی چینل اور سب سے بسٹ پلیٹ فارم ہے۔ نمبر6۔ سوشل میڈیا کی ذریعے دوسری کلچر تک رسائ بہت آسان ہوچکی ہے پہلے آپ اپنی پسندیدہ شخصیات صرف ٹی وی پر دیکھ سکتے تھے مگر اب ہر شعبے سے منسلک اپنی پیارے اس پر سرچ کرکے انہں فالو کرسکتے ہیں۔ نمبر7۔سوشل میڈیا کی ذریعے ہر خبر کسی بھی ملک سے حاصل ہوتے ہے دنیا کی حالات و واقعات سے واقف ہونے کیلئے بس صرف ایک کلک کی ضرورت ہوتے ہے۔ Also Read: https://newzflex.com/50453 نمبر8۔ آج کل کی دور میں کمائی حاصل کرنا سوشل میڈیا ایک بڑا ذریعہ بن چکی ہے مختلف قسم اکاونٹ بنے سے آپ کافی پیسے کماسکتے ہیں اور اپنا کام ساری دونیا کو دکھاسکتی ہے۔ جی ناظرین سوشل میڈیا کی بہت سے نقصانات بھی ہیں اگر آپ نقصانات کی بجاۓ صحیح استعمال کرے تو ذیادہ فائدہ من ہوگا۔آپ کی ذہن میں اور کون کوسے فائدے ہیں ہمارے ساتھ شئیر کیجۓ۔شکریہ

عوام کی آواز
December 27, 2020

مارک زکربرگ نے ایک ہی دن میں 2.8 بلین ڈالر کا نقصان کیا ہے

مارک زکربرگ نے ایک ہی دن میں 2.8 بلین ڈالر کا نقصان کیا ہے دوسری لہر کے  کورونا وائرس وبائی مرض کا نتیجہ امریکی معیشت اور پوری دنیا کو مار رہا ہے۔ فوربس کی خبروں کے مطابق ، پیر کے روز امریکہ کی مارکیٹ میں زبردست اثر پڑا ، جس کے نتیجے میں گہری جیب والے 10 مالدار افراد ایک ہی دن میں تقریبا$ 14 بلین ڈالر کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ ڈاؤ جونز انڈسٹریل اوسط میں پیر کو 659 پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی ، نیس ڈاق مرکب میں 1.6 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ ڈراپ کورونا -19 نئے معاملات میں بڑھتی ہوئی واردات کا براہ راست نتیجہ ہے۔ دوسرے محرک منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے جو لگتا ہے کہ دسمبر سے پہلے آنے والی چیزیں زیادہ تر امریکی کاروباروں کے لئے مشکوک نظر آتی ہیںrیہ بہت سارے افراد کے لئے اچھا پیر نہیں تھا ، ایک دن کے نقصان نے فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ کو متاثر کیا ، اسے ایک دن میں 8 2.8 بلین کا نقصان ہوا۔ بل گیٹس کی فہرست میں 1.7 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ فوربس کے مطابق ، اس کی مجموعی مالیت اب بھی 115 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس فہرست میں شامل دیگر ارب پتی افراد میں ایلون مسک اور وارن بفیٹ بھی شامل ہیں جنہوں نے بھی کامیابی حاصل کی۔ یہ حیرت کی بات ہوسکتی ہے لیکن ایمیزون کے سی ای او جیف بیزوس نے پیر کو اصل میں اپنی خوش قسمتی میں اضافہ کیا اور اس کی دولت میں اضافہ دیکھا۔ پیو ریسرچ سینٹر کے ایک نئے سروے میں پتا چلا ہے کہ ، چونکہ ، کورونا وائرس پھیلنے کے بعد ، ایک ان چار افراد کو اپنے بلوں کی ادائیگی میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے ، ایک تیسرا وباء شروع ہوا ، تیسرے حصے نے بچت یا ریٹائرمنٹ اکاؤنٹ میں ڈوب لیا ہے تاکہ اسے پورا کیا جا سکے۔ چھ میں سے چھ افراد نے دوستوں یا کنبے سے قرض لیا ہے یا فوڈ بینک سے کھانا حاصل کیا ہے۔ جیسا کہ اس سال کے شروع میں ہوا تھا ، ان اقسام کے تجربات کم آمدنی والے بالغ افراد میں ، جو کالج کی ڈگری کے بغیر اور بلیک اینڈ ہسپینک امریکیوں میں عام ہیں ، ان میں زیادہ عام ہے۔ ہسپانوی امریکیوں میں ، 53٪ کا کہنا ہے کہ وہ یا اس کے گھر کے کسی اور کو کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے یا تو چھوڑ دیا گیا ہے یا تنخواہ میں کٹوتی کی گئی ہے ، جو وائٹ (38٪) اور سیاہ (43٪) بالغوں کے حصص سے بڑا ہے اسی؛ 47٪ ایشین امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ یا ان کے گھر کے کسی دوسرے کو عدم پھیل جانے کی وجہ سے ملازمت چھوڑ دی گئی ہے یا تنخواہ میں کٹوتی کرلی گئی ہے۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

ہچکی کیا ہے؟ کیوں ہوتی ہے اور اس کا آسان حل کیا ہے؟

ہچکی کیا ہے؟ ہچکی، اچانک، غیر ارادی، غیر یکساں، پردہ شکم (ڈایافرام Diaphragm) اور پسلیوں کے بیچ موجود پٹھوں کے باربار سکڑنے اور نرخرے (لیرنکس Larynx) کے بند ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ ہوا کے بے ربط اور اچانک پھیپھڑوں میں داخل ہونے سے “ہک” (Hic) کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ عام طور پہ ہچکی خوبخود ختم ہو جاتی ہے اور کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن اگر یہ ہچکی زیادہ دیر رہے اور پریشان کن ہو تو علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہچکی کی وجوہات سائنس ابھی تک ہچکی کی واضح وجوہات بیان کرنے سے قاصر ہے۔ خود بخود ختم ہونے والی ہچکی کی وجوہات میں بسیار خوری (زیادہ کھانا)، تیزی سے کھانا، مصالحے دار غذا کھانا، کاربونیٹڈ مشروبات کا استعمال کرنا، گرم کے اوپر ٹھنڈا یا ٹھنڈے کے اوپر گرم پینا یا کھانا، ٹھنڈے پانی سے نہانا، شراب نوشی اور کثرت سے تمباکو نوشی کرنا شامل ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح زیادہ دیر یا مستقل ہچکی کی وجوہات میں مرکزی اعصابی نظام کی بیماریاں (اسٹروک یا فالج، دماغ کا کینسر، دماغ کی سوزش، دماغی چوٹ، اور مرگی وغیرہ)، سینے کی بیماریاں (میڈیاسٹائینم کی کوئی بیماری یا پردہ شکم کی رسولی)، دل کا دورہ (ہارٹ اٹیک)، خواتین کے کینسر، آپریشن، کیمیائی علاج (کیمو تھیراپی)، مختلف ادویات، جسم میں الیکٹرولائٹس کا غیر متوازن ہونا، تپ دق اور گردوں کا فیل ہونا شامل ہیں۔ ہچکی کا علاج عام ہچکی کو آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے چند ایک تکانیک اور حربے درج ذیل ہیں (1) چند سیکنڈ کے لئے سانس روک کے رکھیں (2) تھوڑی دیر کے لئے زبان کو نوک سے پکڑ کر کھینچ کے رکھیں (3) تالو (حلق کا کوا) کو چمچ سے اوپر اٹھائیں (4) دانے دار چینی کھا لیں (5) چھینک ماریں (6) کسی بند تھیلے یا شاپر میں چند سیکنڈ سانس لیں جس میں سوراخ نہ ہو (7) کچھ دیر اپنے گھٹنوں کو چھاتی کے ساتھ جکڑ کے رکھیں (8) اگر ان تکانیک سے ہچکی ختم نہ ہو تو ادویات کا استعمال کریں ۔ ان ادویات میں کلورپرومازین (chlorpromazine)، بیکلوفن (Baclofen)، میٹوکلوپرامائیڈ (Metoclopramide) کے علاوہ بہت ساری ادویات شامل ہیں۔ (یاد رکھیں یہ ادویات ڈاکٹر کی تجویز کے بغیر استعمال نہ کریں)۔ تحریر: ڈاکٹر مزمل ارشاد، میڈیکل آفیسر، تحصیل ہیڈ کوارٹر تھل ہسپتال لیہ۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

صحت کی نفسیات

***صحت کی نفسیات *** صحت کی تعریف : صحت کا لفظ عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی تندرستی اور شفا کے ہیں۔ اصطلاحی لحاظ سے صحت سے مراد جسمانی اور ذہنی طور پر درست اور طاقتور ہونا ہے اگر کسی فرد کے جسمانی اعضاء درست طریقے سے اپنے افعال دے رہے ہوں اور ذہنی افعال بھی متوازن ہوں تو ایسا فرد صحت مند کہلائے گا۔ بین الاقوامی تنظیم صحت ( ڈبلیو-ایچ-او ) کے مطابق “صحت سے مراد مکمل جسمانی، ذہنی اور سماجی بہتری ہے”۔ صرف بیماری کی عدم موجودگی صحت نہیں کہلائے گی۔ صحت کی نفسیات کی تعریف صحت کی نفسیات سے مراد صحت کے لیے وہ نفسیاتی اصول، نظریات اور تقاضے ہیں جو صحت کی ترویج و ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ ماہرین نفسیات فرد کی ذہنی ، جسمانی اور سماجی صحت کے لیے نہ صرف مختلف نظریات پیش کرتے ہیں بلکہ ان پر تحقیقات بھی کرتے ہیں۔ صحت کی نفسیات فرد کی بقاء اور بھرپور زندگی کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے جس کے تحت فرد اپنے سماجی ماحول میں رہتے ہوئے اپنے طرز زندگی کو متعین کرتا ہے۔ صحت کی نفسیات کے مطابق اختیار کیا گیا طرز زندگی فرد کی صحت اور بہترین کارکردگی کا ضامن ہوتا ہے جبکہ صحت کی نفسیات سے عدم واقفیت نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ صحت کی نفسیات کے حوالے سے جو تحقیقات سامنے آئی ہیں ان سے یہ ثابت ہوا کہ دو تہائی اموات اس لیے موخر ہو گئیں کیونکہ بیماریوں کی روک تھام کر دی گئ اور طرز زندگی کو تبدیل کر دیا گیا۔ اعلی درجے کے مطابقتی کردار یا ادنی درجے کی مطابقتی کردار کا دارومدار فرد کے ذاتی، سماجی اور ماحولی اسباب پر مبنی ہے جس کے اندر رہتے ہوئے فرد اپنی بقاء کے لیے کوشاں رہتا ہے ایک تحقیق میں صحت اور دیگر ضروریات زندگی کی درجہ بندی صحت کو اولین درجہ کی ترجیح میں شمار کیا گیا۔ اچھی صحت کے لیے جسمانی، ذہنی اور سماجی ضروریات کا پورا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ وٹامن، روغنی اجزا، نشاستہ دار غذائیں اور معدنیات اچھی غذا کا ضروری جزو ہیں۔ تعلیم اور بہتر ماحول ذہنی صحت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ اسی طرح اچھی سوچ، صحت مند کردار، مضبوط ارادے تمام افراد کے لیے یکساں مواقع، بہتر اقتصادی حالات اور مثبت رویے زندگی اور ذہنی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

نظر کمزوری ہمیشہ کیلئے ختم

سائنسی دنیا میں نیا تہلکہ روس کے سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ انھوں نے ایک ویکسین تیار کرلی ہے جس کے استعمال سے نظر کمزوری کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے یہاں تک کہ آپ کو عینک بھی لگ چکی ہے تب بھی نظر پہلے جیسی ہوجاے گی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس ویکسین کے کچھ ٹیسٹ باقی ہیں مکمل ٹیسٹ کرنے کے بعد ویکسین کو مارکیٹ میں اتارہ جاے گا فلحال کچھ انتظار کرنا ہوگا۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

کرکٹ کا سٹار کھلاڑی

پاکستانی کرکٹر محمد عامر نے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیر آباد کہہ دیا۔ جس وقت محمد عامر نے اپنی رٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو اس وقت اس کے چاہنے والوں کو یہ خبر سن کرکافی دکھ پہنچا اور شاید اب کبھی محمد عامر کے چاہنے والے گرین شارٹ میں نہ دیکھ پاۓ تعارف پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گجر خان میں رہتے ہیں ،محمد عامر گجر فیملی سے تعلق رکھتے ہیں بائیں ہاتھ سے بولینگ کرتے ہیں اور پاکستان کے تیز ترین بالرز میں انہوں کا شمار ہوتا ہے محمد عامر کی بولینگ کی رفتار پر گھنٹہ 140 سے 145 میل تھی۔ فاسٹ بولینگ کیمپ: 2007ء میں سابق فاسٹ بولر وسیم اکرم “سوینگ کے سلطان” نے جب محمد عامر کو بولینگ کرتے دیکھا تو محمد عامر کی بولینگ سے کافی متاثر ہوتے ہوۓ ان کو سلیکٹ کر لیا۔ بولینگ کیریئر : محمد عامر نے انٹرنیشل ٹیسٹ میچ 2009۶ سے 36میچ کھلیے،67 انینگ،3627 سکور دیا،119 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا،بیسٹ کارگردگی 6آؤٹ کیے،44 سکور دے کر،ایکنومی 2۔85،اوسط 30۔5،سیٹگریٹ 64۔0،ویکٹ 4 مرتبہ 6 دفعہ کی اور 5 ویکٹیں 4 دفعہ لی۔ اگر بات کرے ایک روزہ میچ کی تو اس میں محمد عامر نے 61 میچ کھیلے،60 اینگ،2400 سکور دیا،81 ویکٹ حاصل کی،بیسٹ کارکردگی 5وکٹ لی 30 سکور دے کر،اکنومی انہوں کی 4۔77،اگر اوسط کی بات کرے تو 29۔6 ہے اور اگر سیٹگ ریٹ دیکھے تو 37۔2 ہے اور 4 ویکٹیں 1 دفعہ کی اور 5 ویکٹ بھی ایک دفعہ لی۔ اگر انٹرنیشل 20ٹونٹی کی بات کرے تو 50 میچ کھیلے ،50ہی اینگ اور 1263 سکور دیا 59 ویکٹیں حاصل کی،اگر بیسٹ بولینگ کی بات کرے تو 4 ویکٹ لی صرف 13 سکور دے کر،ایکنومی 7۔02،اوسط 21۔4،سٹیگ ریٹ،18۔3،اور 4 وکٹ ایک دفعہ ہی حاصل کی۔ سپاٹ فکسینگ: محمد عامر کو انگلینڈ کے ایک دورے کے دوران ،29 اگست 2010 میں سپاٹ فکسنگ کے جرم میں گرفتار کرلیا اور محمد عامر کو 5 سال قید ہوگی۔ ان کے ساتھ 2 اور بھی پاکستانی کھلاڑی شامل تھے ۔ کرکٹ کا آغاز: محمد عامر نے اپنا پہلا میچ سری لنکا کے خلاف کھیلااور آخری ٹیسٹ میچ ساؤتھ افریقہ کے خلاف کھیلا۔ مقبول ترین کارگردگی2017 محمد عامر کی مقبول ترین کارگردگی2017 کے چمپیئن ٹرافی کے فائنل میں سے ہوئی جب انہوں نے انڈیا کے 3 ایسے کھلاڑیوں کو پہلے ہی چند اوور میں ڈھیر کر دیا جس سے پاکستان جی جیت یقنی نظر آنے لگ گی تھی۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے پاکستان ٹیم کے لیے شانداد کارگردگی قابلِ تعریف ہے۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

کر ونا وائرس کب ختم ہوگا؟

کورونا وائرس کب ختم ہوگا؟ کرونا کب ختم ہوگا؟ ان چند مہینوں میں گلوبل لیول پر 4 کروڑ سے زیادہ کیسز اور 10 لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ آپ اس بڑھتی ہوئی تعداد سے یہ سوچ کر پرشان ہونگے کہ یہ کرونا وائرس آخر کب ختم ہوگا؟ پاکستان میں کورونا کا پہلا  کیس کراچی میں  26 فروری 2020 کو پیش آیا اور اگلے ہی مہینے یعنی 18 مارچ 2020 کو پاکستان میں کورونا کی وجہ سے  پہلی موت پیش آیی۔ اب بات آتی ہے کہ کورونا  آخر ختم کب ہوگا؟  دراصل اس  کا جواب دینا ذرا مشکل ہے۔ وبائی مرض کے آغاز میں،وبائی امراض کے ماہر اور صحت عامہ کے ماہر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اور  مستقبل کی پیش گوئی کے لئے ریاضی کے ماڈلز کا استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن متعدی بیماری کا ماڈلنگ مشکل ہے اور یہاں تک کہ جدید ترین ورژن ، جیسے پیشن گوئی کو یکجا کرتے ہیں یا مشین لرننگ کا استعمال کرتے ہیں ، لازمی طور پر یہ ظاہر نہیں کرسکتے کہ وبائی بیماری کب ختم ہوگی یا کتنے افراد کی موت ہوگی۔ اس مرض کے شروع میں لوگوں نے امید کی کہ یہ خود بخود گرمی کی وجہ سے ختم ہو جائے گا اور  دوسروں نے دعوی کیا کہ ایک بار کافی افراد میں انفکشن ہونے کے بعد ریوڑ کی قوت مدافعت شروع ہوجاتی ہے۔  لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ  ہو سکتا ہے ویکسین کے بن جانے کے بعد بھی کورونا وائرس کبھی ختم نہ ہو ۔ یہ ممکنہ طور پر دوسری جگہوں پر بھی جاری رہے گا ، اور کہیں اور بھی انفیکشن کا باعث بنے گا۔ تاریخی اور عصری مثالوں کے پیش نظر ، انسانیت صرف یہی امید کر سکتی ہے کہ COVID-19 کا سبب بننے والا کورونا وائرس ایک قابل علاج ثابت ہوگا۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

روات قلعہ

روات قلعہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں راولپنڈی شہر کے قریب روات میں واقع ہے یہ سولہویں صدی کا ابتدائی قلعہ ہے۔ قلعہ پوٹھوہار کے دفاع کے لئے پشتون بادشاہ شیر شاہ سوری کی افواج سے بنوایا گیا . اس قلعے کی بنیاد 15 ویں صدی میں ایک کاروانسرائی کے طور پر سالٹین ای دہلی نے رکھی تھی ، حالانکہ یہ قافلہ خود غزنوی دور کے قلعے کے اوپر تعمیر کیا گیا تھا جو 1036 عیسوی میں قائم ہوا تھا۔ اس کے بعد کاروان سری کو بعد میں 16 ویں صدی میں مغل بادشاہ ہمایوں کے وفادار جنگجو قبیلہ نے شیر شاہ سوری کی افواج سے پوٹھوہار مرتبہ کا دفاع کرنے کے لئے مضبوط کیا تھا۔ یہ قلعہ 1546 میں گکھڑ کے سردار سلطان سارنگ اور افغان بادشاہ شیر شاہ سوری کے مابین لڑائی کا منظر تھا۔ سلطان سارنگ کو شیر شاہ سوری کی فوج نے قبضہ کیا ، تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اسے قلعے میں دفن کردیا گیا قلعہ تقریبا مربع شکل میں ہے اور اس کے دو دروازے ہیں۔ قلعے کے اندرونی علاقے میں گنبد کے ساتھ ایک چوکور عمارت بھی ہے۔ یہ علاقہ جس میں بہت سی قبریں بھی ہیں۔ فریم کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے خلیے بھی موجود ہیں ، جو ممکنہ طور پر سفر کرنے والے تاجروں کو کرایے پر دیئے گئے چھوٹے کمرے تھے۔ اس قلعے میں ایک مسجد بھی ہے جس میں تین گنبد ہیں۔ گکر کے سربراہ ، سلطان سارنگ خان کی قبر قلعے کے اندر موجود ہے۔ اس کے 16 بیٹے ، جو وہاں لڑتے ہوئے فوت ہوئے اورقلعے کے اندر دفن ہیں۔ اس قلعے کو وفاق نے پنجاب کے ثقافتی ورثہ کے طور پر محفوظ کیا ہے ، اور اس کا انتظام وزارت اطلاعات ، نشریات اور قومی ورثہ کے زیر انتظام ہے۔ نومبر 2016. میں ، قلعے کے تحفظ کے لئے ایک تحفظ منصوبہ تیار کیا گیا۔ مارچ 2017 میں راوت قلعے کے تحفظ کے دو مراحل میں پہلے 50 ملین روپے مختص کیے گئے تھے

عوام کی آواز
December 27, 2020

بابر اعظم کی کہانی

بابراعظم 15 اکتوبر 1994 کو پاکستان کے مشہور شہر لاہور میں پیدا ہوئے۔پیدائش کے وقت بابر اعظم کی فیملی بہت ہی غریب تھی۔جیسے جیسے بابر اعظم کی عمر بڑھتی گئی ویسے ویسے ہی ان کا کرکٹ کا جنون بھی بڑھتا گیا۔بابراعظم بچپن سے ہی پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ کھیلنے کی خواہش رکھتے تھے۔لیکن ان کی فیملی کے حالات اتنے خراب تھے کہ وہ بابر اعظم کی کرکٹ اکیڈمی کی فیس بھی نہیں ادا کر سکتے تھے۔اور اسی لیے بچپن میں بابراعظم گلی محلوں میں کرکٹ کھیلتے رہے۔اور آخرکار بابر اعظم نے ایک کرکٹ اکیڈمی جوائن کرلی۔ انہیں اسلام آباد یونائیٹڈ اسکواڈ نے پاکستان سپر لیگ کے پہلے سیشن کے لئے 25،000 امریکی ڈالر میں اٹھایا۔ پی ایس ایل 2017 کی دوسری نیلامی میں ، بابراعظم کو کراچی کنگز فرنچائز نے 50،000 امریکی ڈالر میں خریدا تھا۔ بابر اعظم اس ٹورنامنٹ میں دوسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین تھے۔2019 کے پلیئر ڈرافٹ میں ،بابر اعظم کو اسی ٹیم نے پلاٹینم کیٹیگری میں منتخب کیا تھا ، جہاں انہوں نے تین نصف سنچریوں کی مدد سے 335 رنز بنائے تھے اور وہ کراچی کنگز کے لئے دوسرے نمایاں رنز بنانے والے کھلاڑی بھی تھے۔ وہ پی ایس ایل کے 2020 سیزن میں کنگز کے نائب کپتان تھے.سال 2015 میں ، بابر اعظم زمبابوے کے ساتھ ساتھ ہوم سیریز کے لئے پاکستانی ون ڈے ٹیم کے لئے منتخب ہوئے تھے۔ 31 مئی کو ، اس نے تیسرا ون ڈے میں اپنا پہلا ون ڈے ڈیبیو کیا اور 60 گیندوں پر 54 رنز بنائے۔ بابر اعظم نےاپنا ٹی ٹوئنٹی ڈیبیو 7 ستمبر 2016 کو انگلینڈ کے خلاف کیا جبکہ ٹیسٹ ڈیبیو 13 اکتوبر 2016 کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کیا۔بابر اعظم 560نمبر کی شرٹ زیب تن کرتے ہیں۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

انجیر کے فائدے

انجیر کے فائدے نمبر1:مثانے اور گردے کی پتھری صاف کرتا ہےاور زہر سے بچاتا ہے نمبر2:بدن کا رنگ نکھارتا ہےاور فربہ کرتا ہے نمبر3:ایک لمبا عرصہ انجیر کھانے سے بواسیر کے مسے خشک ہوتے ہیں چار سے چھ ماہ نمبر4:منہ کے زخم زبان کی جلن اور جسم کی حدت ٹھیک ہوتی ہے نمبر5:برص کے داغ ٹھیک کرتا ہے نمبر6:انجیر کھانے سے چہرے پر نکھار آتا ہے نمبر7:درد قولنج میں مفید ہے نمبر8:کمر درد ٹھیک کرتا ہے نمبر9:خوراک کو مکمل ہضم کرنے کی صلاحیت ہو تی ہے نمبر10:جسم کی چربی کو کم کرتا ہے نمبر11:متعدد دماغی امراض میں فائدے مند ثابت ہوتا ہے نمبر12:اسکا منجن دانتوں کی میل اور دانتوں پر داغ صاف کرتا ہے نمبر13:انجیر کھانے سے دبلا انسان فربہ اور تنومند ہو جاتا ہے نمبر14:حلق کی سوزش سینے کے بوجھ پھپھڑوں کی سوجن میں فائدہ دیتا ہے نمبر15:انجیر جگر تلی کو صاف کرکے طاقت دیتا ہے نمبر16:بلغم نکالتا ہے نمبر17:پیٹ کی کئی بیماروں کو فائدہ پہنچتا ہے

عوام کی آواز
December 27, 2020

غذائی قلت اور اس کے مضر اثرات

غذا انسان کے زندہ رہنے کے لیےاور اس کی جسمانی نشوونما کے لیے لازم و ملزوم ہے. انسان مناسب غذا کے حصول سے ہی اپنی جسمانی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے , نہ صرف اپنی بلکہ اپنے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیتا ہے.اور جب وہ بنیادی غذا ہی اس کے پہنچ سے دور ہو تو وہ نہ صرف بہت سی بیماریوں اور کمزوریوں کا شکار بنتا ہے, بلکہ اپ نی صحیح طریقے سے پرورش نہیں کر پاتا. اس حالت کو جب انساں ایک مقرر مقدار کی غذا سےہی محروم ہو تو اسےغذائی قلت کہتے ہیں۔ غذائی قلت آج ایک تلخ اور افسوسناک حقیقت بن گئی ہے کہ اس سے ساری دنیا متاثر ہو رہی ہے, خاص کر کے وہ ممالک جو غربت اور معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ ان ممالک میں غذائی قلت کاسب سے بڑا سبب ن ختم ہونے والی جنگین اور معاشی غیر استحکام اور پابندیاں ہیں۔ غذائی قلت کا سب سے زیادہ شکاربچے اور عورتیں ہوتے ہیں. وہ عورتیں جو غذائی قلت کا شکار ہوتی ہیں جب اپنے بچوں کو جنم دیتی ہیں تو وہ بچے بہت سی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور ضعیف ہوتے ہیں. حتی کےوہ غذائی قلت کا شکار مائیں اپنے بچوں کو دودھ تک نہیں پلا سکتی .نہ صرف بچوں کی زندگی خطرے میں ہوتی ہے بلکہ ماءیں بھی اسی مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں. جب وہ بچے بڑے ہوتے ہیں تو بہت سی بیماریوں اور کمزوریوں کا شکار ہوتے ہیں نتیجتا وہ دوسروں کے محتاج ہو جاتے ہیں.اقوام متحدہ کے مطابق سالانہ ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر وفات پاتے ہیں اس عالمی مسئلے کا حالیہ مثال یمنی بچوں کی دل شکن اور تشویشناک حالت ہے, جو ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں. نہ صرف بچے بلکہ ان کی مائیں .بھی ہلاکتوں میں شامل ہیں اگر عالمی تنظیموں,امیرممالک اور سارے انسانوں نے جن کے پاس اسباب ہیں اس عالمی مشکلات کے حل کے لئےایک ہوکر کچھ نہیں کیا تو نہ صرف ایک خطہ یاملک بلکہ ساری دنیا ایک ناقابل یقین.اور خطرناک صورتحال کا سامنا کر سکتی ہے۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

انتظام(Business management):

انتظام(menagement): انتظام اپنے کاروبار کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے منصوبہ بندی ، تنظیم سازی ، ہدایت ، ہم آہنگی اور مشاورت کی سرگرمی کے بارے میں ہے.انتظام ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے وسائل اور لوگوں سے نمٹنے یا ان پر قابو پانے کا عمل ہے۔آسان الفاظ میں مینجمنٹ کو تنظیم میں لوگوں کے ذریعے کام کرنے کا فن قرار دیا جاسکتا ہے۔ انتظامیہ کے 5 اقدامات ہیں منصوبہ بندی(planning): پہلے سے طے شدہ کاموں ، اس کے وقت اور طریقہ کار کو پورا کرنے کا فیصلہ کرنا۔ منظم کرنا( organizing): درکار تمام وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہدایت کاری) (directing): رہنمائی کرنے والے اور رہنمائی کرنے والے افراد تاکہ وہ موثر اور موثر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔ کنٹرولنگ: نگرانی اور پیشرفت کو جانچنا کوآرڈینیٹنگ: اس بات کو یقینی بنانا کہ مختلف محکمہ اور گروہ مطابقت پذیر ہوں۔ عابد عقیل انتظام(menagement): انتظام اپنے کاروبار کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے منصوبہ بندی ، تنظیم سازی ، ہدایت ، ہم آہنگی اور مشاورت کی سرگرمی کے بارے میں ہے.انتظام ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے وسائل اور لوگوں سے نمٹنے یا ان پر قابو پانے کا عمل ہے۔آسان الفاظ میں مینجمنٹ کو تنظیم میں لوگوں کے ذریعے کام کرنے کا فن قرار دیا جاسکتا ہے۔ انتظامیہ کے 5 اقدامات ہیں منصوبہ بندی(planning): پہلے سے طے شدہ کاموں ، اس کے وقت اور طریقہ کار کو پورا کرنے کا فیصلہ کرنا۔ منظم کرنا( organizing): درکار تمام وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہدایت کاری) (directing): رہنمائی کرنے والے اور رہنمائی کرنے والے افراد تاکہ وہ موثر اور موثر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔ کنٹرولنگ: نگرانی اور پیشرفت کو جانچنا کوآرڈینیٹنگ: اس بات کو یقینی بنانا کہ مختلف محکمہ اور گروہ مطابقت پذیر ہوں۔ عابد عقیل

عوام کی آواز
December 27, 2020

وہ ممالک جنہوں نے فیس بک پر پابندی عائد کردی

وہ ممالک جنہوں نے فیس بک پر پابندی عائد کردی مشہور ممالک | ہندوستان | پاکستان | ترکی بہت سے ممالک میں ، فیس بک کو اپنے زیادہ تر مواد کو سینسر کرنا پڑتا ہے۔ یہ فیس بک کی اپنی پالیسیوں میں سے کسی کا نتیجہ نہیں ہے ، بلکہ مقامی حکومتوں کی درخواست پر ہے۔ صفحات ، اشاعتیں یا تبصرے جو دوسرے تمام ممالک میں ظاہر ہوتے ہیں۔ کچھ ممالک میں قابل رسائی نہیں ہے۔ جن ممالک میں فیس بک نے اپنے مشمولات کو سنسر کرنا ہے ان میں سب سے زیادہ ہندوستان ، ترکی اور پاکستان شامل ہیں ، جہاں حکومت کی درخواست پر ہزاروں صفحات قابل رسائی نہیں ہیں ، اور ان حکومتوں کی درخواست پر ہر سال ہزاروں مزید تصاویر بھی حذف کردی جاتی ہیں۔ ہندوستان ، ترکی اور پاکستان کی حکومتوں کے ذریعہ ملک میں اس طرح کے مواد کو روکنے کی وجوہات ہمارے قارئین کو معلوم ہوں گی کہ فیس بک پر ایسے ہزاروں صفحات ہیں جو مسلمانوں کو ناراض کرتے ہیں۔ حکومتیں اور صارفین چاہتے ہیں کہ اس طرح کے مواد کو فیس بک سے یکسر ختم کیا جائے ، لیکن فیس بک انھیں صرف کچھ ممالک میں آزادی اظہار رائے کے نام پر روکتا ہے۔ گذشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں ، بھارت کی درخواست پر بھارت میں تقریبا 5،000 5000 صفحات بلاک کردیئے گئے تھے ، جبکہ ترکی اور پاکستان میں تقریبا 2،000 2 ہزار صفحات مسدود کردیئے گئے تھے۔ فیس بک نے ایک الگ ویب سائٹ بھی بنائی ہے جو حکومتی درخواستوں کے اعدادوشمار فراہم کرتی ہے نہ صرف ہندوستان ، ترکی اور پاکستان بلکہ بہت سارے ترقی یافتہ اور اظہار رائے کی آزادی کے ممالک نے فیس بک پر مشمولات کی سنسرشپ کے لئے درخواست دی ہے لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ انڈیا نے فیس بک پر پابندی عائد کردی۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

ذیابیطس سے تحفظ، محفوظ مستقبل

ذیابیطس یا شوگرتیزی سے بڑھتا ہوا ایک دائمی مرض ہے جو کہ بہت سے صحت کے مسائل اور پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔ پورے دنیا میں ایک اندازے کے مطابق قریباً 5 کروڑ افراد اس بیماری کا شکار ہیں اور آنے والے وقت میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ ایک سروے کے مطابق پاکستانی آبادی کا کل %15فیصد حصہ اس مرض کا شکار ہے اور مزید %13ایسے افراد ہیں جو اس مرض کی ابتداٰیStages پہ ہیں۔ آئیے، اس مرض کو جانیے، اپنے تحفظ کو یقینی بنائیے اور آنے والے مستقبل کو صحت مند بنائیے۔ (Diabetes) شوگر کیا ہے؟ انسانی جسم کے اندر لبلبہ یا Pancreas نامی ایک عضو ہوتا ہے جو کہ ایک Insuline نامی ہارمون پیدا کرتا ہے۔ یہ انسولین انسانی خون میں شوگر کی مقدار کو کنٹرول میں رکھتا ہے۔ ذیابیطس کے مرض میں یہ لبلبہ انسولین پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتا یا انسولین اپنا کام صحیح طریقے سے سر انجام نہیں دے پاتا تو جسم میں شوگر یا گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اس مقدار کے حد سے زیادہ بڑھنے سےسے مختلف قسم کے مسائل پیش آ سکتے ہیں مثلاً بینا ئی ضائع ہونے کا خطرہ، گردے فیل ہونے کا خطرہ یہاں تک کہ یہ ہارٹ اٹیک کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ Type-2 Diabetes ذیابیطس کی اس قسم میں جسم میں انسولین تو پیدا ہو رہا ہوتا ہے مگر اپنا کام صحیح طریقے سے سرانجام نہیں دے پاتا۔ اس قسم کی ذیابیطس عموماً جسمانی کام نہ کرنے اور بہت زیادہ جسمانی وزن کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس میں مریض کو جسم کے باہر سے انسولین لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور ادویا ت سے علاج ہوسکتا ہے۔ اس قسم میں کم علامات کی وجہ سے لمبے عرصے تک بیماری کی تشخیص نہیں ہوپاتی۔ Type-1 Diabetes ذیابیطس کی اس قسم میں جسم انسولین بنانے کے قابل نہیں رہتا اور مریض کو روزانہ کی بنیاد پر جسم کے باہر سے انسولین لگانا پڑتی ہے۔ اس کی علامات میں پیشاب کا بہت زیادہ آنا، بہت زیادہ بھوک یا پیاس لگنا، وزن میں کمی ہو جانا، بینائی کمزور ہونا اور تھکاوٹ محسوس کرنا شامل ہیں۔ یہ علامات اچانک بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔ علامات کی صورت میں فوراً فزیشن ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور پرہیز و علاج میں تاخیر نہ کریں۔ احتیاط اور تحفظ کیسے کریں ذیابیطس کے مریض افراد کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، آپ اس کے ساتھ بھی ایک نارمل لائف گزار سکتے ہیں۔ سادہ طرز زندگی اس سے بچاوُ اور تحفظ میں کافی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ 1. ایک متوازن جسمانی وزن قائم کرنے کی کوشش کریں اور اس کو Maintain کریں۔ 2. روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ پیدل چلنے اور ورزش کرنے کیلےُ وقف کردیں۔ اس کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں۔ 3. اپنے کھانے پینے کی اشیاُ پر کنڑول رکھیں۔ ذیادہ میٹھی چیزیں کھانے سے پرہیز کریں۔ مرغن غذائیں بھی کم کردیں۔ صحت مند کھانوں پر مشتمل ایک چارٹ بنائیں اور اس پہ عمل کریں۔ 4. سگریٹ نوشی کو مکمل ترک کردیں۔ اس سے شوگر اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتاہے۔ 5. اپنی ادویہ مقررہ وقت پر لیں اور اپنے ڈاکٹر سے مشور کیےُ بغیر کوئی دوائی نہ چھوڑیں۔ طے کردہ اوقات یا دنوں میں اپنا شوگر لیول چیک کروالیں۔ 6. اپنے بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھیں اور جسم کو چوٹ سے بچائیں خصوصاً اپنے پاؤں کا خاص خیال رکھیں۔ اگر آپ کو ذیابیطس کی علامات ظاہر ہوں تو اپنے قریبی ہسپتال یا فزیشن کلینک پہ جا کہ اپنا معائنہ کروائیں اور مرض کی تشخیص ہونے پہ گھبرائیں نہیں۔ بروقت علاج شروع کریں اور زندگی کی نعمت سے لطف اندوز ہوں۔ مضمون نگار ڈاکٹر مبشر نعمانی، شوگر سپیشلسٹ، ڈسٹرکٹ ہسپتال لیہ

عوام کی آواز
December 27, 2020

چین ۲۰۲۸ تک دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے طور پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا

عالمی معاشی طاقت کی دوڑ کیلئے چین اور امریکہ کے مابین لڑائی” /> معروف تھنک ٹینک سی ای بی آر (سنٹر برائے اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ) کے مطابق چین 2033 کی بجائے 2028 میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے طور پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا برطانوی تھنک ٹینک نے مزید وضاحت کی کہ چین نے کوڈ 19 وبائی بیماری کو کنٹرول کرنے کے لئے ابتدائی مرحلے میں سخت لاک ڈاؤن لگا دیا ، جس کی وجہ سے چین نے اپنی طویل مدتی معاشی نمو میں بہتری لائی۔ امریکہ اور چین معاشی نمو رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 میں وبا سے ابھرنے کے بعد 2022 سے 2024 کے درمیان امریکی معیشت میں سالانہ 1.9 فیصد بہتری متوقع ہے۔ جو کہ بعد میں کم ہو کر 1.6 فیصد رہ جائے گی۔اس کے برعکس، چین کی معیشت 2025 تک 5.7 فیصد بہتری کا مظاہرہ کرسکتی ہے اور 2026 سے 2030 کے درمیان 4.5 فیصد بہتری کا امکان ہے۔ چین کی معاشی ترقی کے باوجود امریکہ کا پلڑا بھاری کیوں؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت میں چین کی حصہ داری 2000 کے اعداد و شمار کے مطابق 3.6 فیصد تھی جو کہ ایک مستحکم معیشت بننے کے بعد اب 17.8 فیصد ہے۔لیکن دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کے بعد بھی چینی شہری معاشی اعتبار سے امریکہ کے ایک اوسط شہری سے زیادہ غریب رہے گا، اور اسکی سب سے اہم وجہ ہے چین کی آبادی جو کہ امریکہ سے کہیں زیادہ ہے۔ امریکی سیاسی اختلاف اور بیروزگاری کرونا وائرس کی ابتدا اگرچہ چین سے ہوئی تھی لیکن امریکہ اس وائرس سے ابھی تک دنیا کاسب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے جہاں تقریباً 330,000 سے زیادہ افراد اس وبا کیوجہ سے ہلا ک ہو چکے ہیں اور مصدقہ کیسز کی تعداد ایک کروڑ ۸۰ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہیں۔اگرچہ حکومت ہونے والے معاشی نقصان پر قومی پالیسیوں کی مدد سے قابو پانے کی کوشش کررہی ہے، لیکن نئے پیکیج پر ٹرمپ اور کانگریسی ارکان میں اختلاف ہونے کیوجہ سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آنے والے سال تقریباً 1.4 کروڑ بے روزگار افراد، حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد حاصل نہ کر سکیں گے۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

بلاگ کیسے شروع کریں

بلاگ کیسے شروع کریں: مرحلہ وار ٹھیک ہے ، اگر میں ابھی ابھی آپ سے مطمعن نہیں ہوا ہوں ، اور آپ اگلے میشبل یا ٹیککرنچ کو لانچ کرنے میں سنجیدہ ہیں یا جو بھی بلاگ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی نظروں میں بری طرح کامیاب ہے ، تو یہاں ایک قدم بہ قدم آپ کو جو کرنا چاہے وہ ہے۔ مرحلہ فیشن. آپ جتنا زیادہ تیاری اور منصوبہ بندی کریں گے ، آپ کو طویل مدتی میں کامیابی کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ نمبر1. ایک عنوان منتخب کریں آپ کے بارے میں کیا لکھیں گے اس پر واضح ہوجائیں۔ ایک عنوان یا طاق کی وضاحت کریں ، اور ان تمام چیزوں کے آس پاس اپنے تمام مواد کو ڈیزائن کریں۔ اس سے آپ کو نہ صرف اپنی تحریر کو لیزر فوکس کرنے میں مدد ملے گی بلکہ ایسے ڈیجیٹل مصنوعات اور خدمات کی تعمیر میں بھی مدد ملے گی جو آپ کے مواد کی تعریف کریں۔ اس سے آپ کو صارفین کو اپنی انتہائی معلوماتی پوسٹوں کے ساتھ راغب کرنے ، اپنی طرف متوجہ کرنے کی سہولت ملتی ہے ، پھر آپ کو اپنے سیل فونیل میں چھوڑنے سے پہلے لیڈ مقناطیس کی طرف راغب کرتے ہیں (مزید کچھ دیر بعد)۔ نمبر2. پلیٹ فارم منتخب کریں اگرچہ ورڈپریس اب تک بلاگنگ کا سب سے زیادہ مقبول پلیٹ فارم ہے ، لیکن وہاں بھی بہت سے دوسرے ایسے ہیں جن کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جیسے ٹمبلر ، بلاگر ڈاٹ کام اور یہاں تک کہ میڈیم جیسے مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم۔ تاہم ، اگر آپ اپنی بلاگنگ کی کوششوں کے بارے میں سنجیدہ ہیں ، تو آپ اپنی مرضی کے مطابق ڈومین پر خود میزبان ورڈپریس انسٹالیشن کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ جب کہ آپ ورڈپریس ڈاٹ کام پر ایک سب ڈومین جیسے مائی بلاگ ڈاٹ آرڈپریس ڈاٹ کام کے ذریعہ ایک بلاگ ترتیب دے سکتے ہیں ، آپ کو خود میزبان حل کی مدد سے زیادہ کاریکیشن ملے گا ، اور پھر آپ اپنے مواد کی مارکیٹنگ کی کوششوں کے لئے مقبول پلیٹ فارم پر ذیلی ڈومین استعمال کرسکیں گے۔ . نمبر3. ایک ڈومین نام منتخب کریں اگر آپ اپنے شروع کردہ بلاگ سے رقم کمانے میں سنجیدہ ہیں تو کسٹم ڈومین کے نام اہم ہیں۔ کسی تیسری پارٹی کے زیر انتظام ذیلی ڈومین پر انحصار کرنے کی بجائے ، ایک مختصر لیکن متعلقہ مطلوبہ الفاظ سے مالا مال (اگر ممکن ہو تو) ڈومین نام تلاش کریں جو آپ کے مطلوبہ عنوان ، صنعت یا طاق کی وضاحت ہے۔ اپنے ڈومین کو ماخذ کرنے کے لئے بلیو ہسٹ ، ہوسٹ گیٹر ، 1 اور 1 ہوسٹنگ یا ڈومین نام فراہم کرنے والوں کی کسی اور تعداد کا استعمال کریں۔ اگر آپ کو ایس ای او جیسے چیزوں سے قطع تعلق ہے تو ، اپنے ڈومین کا نام منتخب کرتے وقت ، آپ کو درج ذیل مشوروں پر عمل کرنا چاہئے: ایک اعلی سطحی ڈومین جیسے .کام یا .نیٹ استعمال کریں ڈومین کو مختصر رکھیں ، 15 حروف یا اس سے زیادہ نہیں ہائفن والے ڈومین نام کی خریداری نہ کرنے کی کوشش کریں ، کیونکہ وہ اکثر اسپامرز کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں پوسٹس کو درجہ بندی یا درجہ بندی کرنے کیلئے خود میزبان ذیلی ڈومینز کے استعمال سے پرہیز کریں نمبر4. ایک اچھی ویب ہوسٹنگ کمپنی تلاش کریں اچھی ہوسٹنگ کمپنیاں بہت ساری ہیں۔ اگر آپ ورڈپریس ، خود میزبان بلاگ شروع کررہے ہیں تو ، بہت دیر کے اختیارات موجود ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی مستعدی تندرستی کریں اور صحیح بجٹ منتخب کریں جو آپ کے بجٹ کے لئے موزوں ہے اور یہ یقینی بنانا ہے کہ خدمت کی سطح اور وقت کی ضمانت موجود ہے۔ شروع میں ، آپ ممکنہ طور پر یا تو مینیجڈ ورڈپریس سلوشن یا ورچوئل پرائیویٹ سرور (وی پی ایس) ، اور وہاں سے پیمانے پر شروعات کرنا چاہتے ہیں۔ ایک دن جب آپ روزانہ کچھ ہزار زائرین کو توڑ دیتے ہیں تو آخرکار ، آپ کو سی ڈی این (نیچے) کے ساتھ ایک سرشار ہوسٹنگ حل کی ضرورت ہوگی۔ نمبر5. کیچنگ اور مواد کی فراہمی کے نیٹ ورک (سی ڈی این) ڈبلیو 3 ٹوٹل کیشے یا ڈبلیو پی پی سپر کیشے جیسے سسٹم کا استعمال کریں اور یہ یقینی بنانے کیلئے براؤزر کیشن آن کریں کہ آپ اپنے ویب صفحات کی فراہمی کو تیز کریں۔ شروع میں ، یہ اتنا اہم نہیں لگتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے آپ بڑھ رہے ہیں اور آپ کا ٹریفک روزانہ ہزاروں زائرین تک بڑھتا ہے ، یہ اہم ہوگا۔ تنصیب سے پہلے اور بعد میں چیزوں کو جانچنے کے لئے گوگل کے پیج اسپیڈ بصیرت کا استعمال کریں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ سی ڈی این ترتیب دیں ، جو آپ کے مواد کی عالمی ترسیل کو تیز کرے۔ مثال کے طور پر ، شاید آپ کا صفحہ ریاستہائے متحدہ میں نسبتا تیزی سے لوڈ ہوسکتا ہے ، لیکن جب آسٹریلیا میں کوئی آپ کے مواد کو لوڈ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ سی ڈی اینز پوری دنیا میں متعدد ذخیروں میں ڈیٹا کی نقل تیار کرتے ہیں اور مواد کی فراہمی کو انتہائی تیز تر بناتے ہیں۔ یہ صارف کے تجربے کے لیے اہم ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ جو کسی صفحے کو لوڈ کرنے کے لیے کچھ سیکنڈ تک بھی انتظار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، اکثر ویب سائٹ ترک کردیتے ہیں اور تلاش کے نتائج میں اگلے صفحے پر جاتے ہیں۔ ڈبلیو3 ٹوٹل کیشے ایمیزون کے او ڈبلیو ایس اور میکس سی ڈی این کے ساتھ ضم ہوتا ہے ، جب سی ڈی این کی بات آتی ہے۔ نمبر6. پرمالنکس کو فعال کریں ورڈپریس میں ، آپ کو چیزوں کو زمین سے دور کرنے سے پہلے پابندیوں کو چالو کرنا چاہئے ، جو آپ کو اچھی طرح کے یو آر ایل فراہم کرے گا جو ایس ای او- دوستانہ ہیں۔ پرمال لنکس آپ کے ورڈپریس ایڈمن کی ترتیبات پرمالینک سیکشن کے اندر موجود ہیں اور پوسٹ نام کے آپشن کو منتخب کریں۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمت اللہ

حضرت بابا فرید الدین گنج الشکر رحمتہ اللہ لاھور کے نواحی گائوں کھٹوال میں [April اپریل ، ११7979 س.م.] کو پیدا ہوئے۔ وہ اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی براہ راست اولاد ہیں۔ بچپن روایت ہے کہ اس کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی سنت کو ثابت کرنے والا ایک معجزہ ہوا۔ ایک دن ، اس کی والدہ کے حمل کے دوران ، وہ اس کی اجازت کے بغیر اپنے پڑوسی کے درخت سے کچھ کھجوریں کھینچنا چاہتی تھی، لیکن اس کے رحم میں موجود بچے (حضرت بابا فرید) نے اس کے پیٹ میں شدید درد پیدا کردیا جس نے اسے اس خیال کو ترک کرنے پر مجبور کردیا۔حضر ت بابا فرید رحم اللہ علیہ کے پیدائش کے کچھ سال بعد ، ان کی والدہ نے پیار سے اظہار کیا: “میرے پیارے بیٹے ، آپ کی قید کے دوران میں نے کبھی بھی ایسا کچھ نہیں کھایا جو غیر قانونی تھا۔” حضرت بابا فرید ردی اللہ تعالٰی عنہو نے بہرحال مسکرا کر کہا ، “لیکن ، میری پیاری والدہ ، آپ اس کی اجازت کے بغیر ہمارے پڑوسی کے درخت سے کچھ آلو نکالنا چاہتے تھے جب میں نے آپ کے پیٹ میں شدید درد پیدا کیا تھا جس سے آپ نے بچایا تھا۔ یہ غیر قانونی کام تھا ابتدائی تعلیم کھٹوال میں 7 سال کی عمر میں ابتدائی دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ، ان کی والدہ نے انہیں اعلی تعلیم کے لئے ملتان بھیج دیا۔ یہاں انہوں نے ایک مسجد میں قیام کیا جہاں انہوں نے دل سے قرآن مجید سیکھا اور مولانا منہاج الدین کی تعلیم کے تحت حدیث ، فقہ ، فلسفہ اور منطق کا مطالعہ کیا۔ روحانی رہنمائی خواجہ قطب الدین بختیار کاکیاپنی تعلیم کے دوران ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ دہلی سےملتان تشریف لائے جہاں حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ چشتی سلسلا میں ان کے مرید (شاگرد) بنے۔ اپنے پیر ال مرشد کی ہدایت پر ، اس نے ہجری [1196 عیسوی سے 1214 عیسوی] تک تقریبا 18 سال اسلامی ممالک کا دورہ کیا ، وہ غزنی ، بغداد شریف ، یروشلم ، افغانستان ، شام ، ایران ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ نے بہت سارے عظیم اولیاء اور صوفیاء سے ملاقات کی۔ حضرت خواجہ قطب الدین رحمتہ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد چشتی سلسلہ میں روحانی قیادت کا آستانہ حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کے کندھوں پر پڑا جب خواجہ قطب الدین رحمتہ اللہ نے انہیں اپنا خلیفہ یا روحانی جانشین نامزد کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ایک سخت عقیدت مند انہوں نے ساری زندگی روزے رکھے اور رات کی دعائیں اور عقیدت کو برقرار رکھا۔ اللہ کا خوف ہمیشہ اس پر حاوی رہا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت عقیدت مند تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر میں ، وہ اکثر اپنی محبت اور عقیدت سے روتے تھے۔ حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ نے بادشاہوں ، سرکاری اہلکاروں اور امیروں سے گریز کیا۔ اس نے اپنے خلیفوں ، عقیدت مندوں اور مریدوں کو بھی خبردار کیا کہ وہ ان کی صحبت سے بچیں۔ وہ عاجزی کی زندہ تصویر تھی۔ جو کچھ بھی اس نے حاصل کیا وہ اللہ کے نام پر خرچ ہوا اور اس کا سینہ رحمت اور مغفرت سے مغلوب ہوگیا۔ اس کی زندگی میں اور ان کے انتقال کے بعد بہت سارے معجزات اس سے منسوب ہیں۔ حضرت بابا فرید کی داستانیں حضرت بابا فرید رحمت اللہ علیہ کے عقیدت مندوں میں سے ایک محمد نشاپوری نامی گجرات میں رہتا تھا اور تین دیگر ساتھیوں کے ساتھ دہلی جا رہا تھا۔ جنگل سے گزرتے ہوئے ڈاکوؤں نے ان کا سامنا کیا۔ محمد نیشاپوری اور اس کے ساتھیوں کے پاس اپنے دفاع کے لئے کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ ایسی بے بسی کی حالت میں ، محمد نشاپوری نے اپنے پیر حضرت بابا فرید رحمت اللہ علیہ تعالٰی کو یاد کیا ، اور ان کی حالت زار میں اللہ کی مدد کےلیے دعا بھی کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈاکوؤں نے اپنے ہتھیار پھینک کر پارٹی کو معافی مانگنے کی پیش کش کی اور چلے گئے۔ مزار شریف ان کا مزار شریف پاک پتن پاکستان میں ہے۔ حضرت صابر پاک ، حضرت نظام الدین اولیاء اور حضرت جمال الدین ہانسی رحمتہ اللہ علیہ ان کے پسندیدہ مرید اور خلیفہ میں شامل ہیں۔ عام طور پر یہ پہچانا جاتا ہے کہ اس کی تین بیویاں اور بہت سارے بچے تھے۔ حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ واقعتا چشتی سلسلہ کےسب سے زیادہ روشن ستارے میں سے ایک تھے ۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

پرائیویٹ تعلیمی نظام پر کرونا وائرس کے اثرات

پچھلے چند ماہ سے یہ بات دیکھنے میں آ رہی ہے کہ پرائیویٹ نظام پر کرونا کے سب سے زیادہ اثرات پڑے ہیں۔بظاہر تو اس بات کو کافی حد تک سچ مانا جا سکتا ہے ہے لیکن اگر الزام صرف اور صرف حکومت پر دیا جائے جائے تو یہ ایک بہت بڑی بے وقوفی ہوگی۔ اس کی پہلی اور اہم وجہ یہ ہے ہے کہ کرونا ایک عالمی وباء ہے اور اس میں حکومت کا کا کوئی عمل دخل نہیں۔بے شک حکومت اس وبا کی روک تھام کے لیے لئے کوشش ضرور کر سکتی ہے لیکن اس میں  سب سے بڑا کردار انسان کا اپنا انفرادی عمل ہے۔ اگر ہم کہیں کہ کرونا کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین متاثر ہوئے ہیں تو یہ بات بالکل سچ ہے لیکن اس میں حکومت سے  کہیں زیادہ قصور ان اداروں کے مالکان کا ہے جو اب مافیا بن چکا ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت سے ہٹ کر اس بات کو مثبت انداز میں بالکل نیوٹرل ہو کر سوچا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ اس میں سب سے بڑا قصور ان مالکان کا ہے جن کا رویہ اب کسی ظالم سے کم نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک چھوٹے سے کرائے کے گھروں سے اپنے سکولوں اور کالجوں کا آغاز کیا۔ طلباء سے سارا سال مہنگی فیسیں لے کر محدود سطح پر وسائل دئیے ۔ خود پرانی موٹر سائیکل سے گاڑیوں پر آگئے۔ اپنے گھروں کو بڑی بڑی کوٹھیوں میں بدل دیا۔ یہ وہ طبقہ ہے کہ اگر خدانخواستہ کرونا اگلے سال بھی رہ گیا تب بھی ان کے بنک خالی نہیں ہونے والے کیونکہ انہوں نے اپنے خاندان میں کئی لوگوں کے نام آڈٹ سے بچنے کے لیے اکاؤنٹ کھلوائے ہوئے ہیں  اور سب سے بڑی شرمندگی کی بات یہ ہے کہ یہ اس سب سرمایہ کو اپنا حق اور رزق حلال سمجھتے رہے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے اپنے اداروں میں تقریباً سب ملازمین کی تنخواہ کسی مزدور کی ایک اوسط تنخواہ سے بھی کم رکھی ہوئ ہے اور خود علاقے کے سرداروں کی طرح ایک شاہانہ زندگی کی عادت ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ وہ مافیا ہے جو اپنے اداروں میں بیشتر اساتذہ اور ملازمین کو وزٹنگ پر صرف اس لیے رکھتے ہیں تاکہ تعطیلات کے دوران انہیں عملے کو کچھ دینا نہ پڑے مگر اس کے باوجود وہ طلباء سے چھٹیوں کی پوری پوری فیس وصول کرتے ہیں۔ اور مزید یہ کہ یہ ادارے اتنی کم تنخواہ دینے کے باوجود بھی اس میں سے سیکیورٹی کی رقم کاٹنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور جب کبھی کسی ملازمین کو اطلاع دے کر چھوڑنا بھی پڑ جائے تو وہ رقم اول تو ملتی نہیں، اگر ملتی ہے تو پھر بہت زیادہ اثرورسوخ کے بعد اور  بہت بار ادارے کے چکر لگانے کے بعد یعنی کئی بااثر لوگوں کی فون کال کروانے کے بعد یا ان کو لیبر کورٹس میں دھکیلنے کے بعد – ایسے بہت سے اداروں میں کچھ ایسے بھی محنتی ملازمین ہیں جنہوں نے اس ادارے کو اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ دے دیا ہے مگر ان ہنگامی حالات کے اندر یہ مافیا ان کو بھی مدد کرنے سے پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔  جہاں دنیا کے بیشتر ممالک میں مہنگی ترین یونیورسٹیوں نے بھی اپنی فیسوں میں کرونا جیسے حالات کی وجہ سے کمی کی ہے وہاں ہمارے ملک میں موجود اس چھوٹے پرائیویٹ مافیا نے فیسوں میں کمی تو نہیں کی، مگر آن لائن پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہوں میں ضرور خاطرخواہ کمی کر دی ہے اور جب ان سے بات کی جائے کہ تنخواہ کو بڑھائیں تو یہ حکومت وقت کو تین چار گالیاں نکال کر اور حالات کا بہانہ بنا کر ان کو مختصر وقت کے لیے مطمئن کر دیتے ہیں۔ اب بتائیں ان حالات میں قصور کس کا ہے؟؟۔ یہ لوگ کیا ہماری آنے والی نسلوں کی ذمہ داری لیں گے جو اپنے ملازمین کو  مکمل سہولیات دینا، مشکل وقت میں مدد کرنا یا ان کو عزت واحترام دینا نہ سمجھتے ہوں۔ اس تحریر کا مقصد ہمارے ملک میں موجود ہر پرائیویٹ تعلیمی ادارے کو بدنام کرنا نہیں ہے بلکہ یہ صرف ان اداروں کے سربراہان کی غوروفکر کے لیے ہے جو اپنے ملازمین کے ساتھ ایسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور ایسے اداروں کا علم وہاں کے ملازمین کو بخوبی ہے۔ خداراہ اگر آپ بھی کسی ایسے ادارے میں کام کرتے ہیں تو حکومت وقت کو برا بھلا کہنے کی بجائے اس چھوٹے تعلیمی مافیا کے خلاف جائیں جو نہ صرف آج آپ کو معاشی مشکلات میں دھکیل رہا ہے بلکہ آئندہ ہ آنے والی ہماری نسل کو تربیتی لحاظ سے بہت کھوکھلا کر سکتا ہے۔۔۔۔ والسلام تحریر سے متعلق اپنی قیمتی رائے ضرور دیجیے گا۔ شکریہ

عوام کی آواز
December 27, 2020

Online real work with your phone in pakistan

میرا نام جنید ہے میں اس ویب سائٹ پر آج ہی جوائن ہوا ہوں اس ویب سائٹ کے بارے میں میں نے تحقیق کی ہے یہ بالکل اوریجنل ویب سائٹ ہے پاکستان میں پہلی بار مجھے ایسی ویب سائٹ دیکھنے کو ملی ہے جس سے میں گھر بیٹھ کر آن لائن کام کر اچھی خاصی انکم مہینے کی جنریٹ کر رہا ہوں اگر آپ دوستوں کو بھی اس پر رشک کرنا ہے تو اس کی ڈیٹیل نیچے میں اسی ڈسکرپشن میں بتا رہا ہوں آپ اس کو فالو کر لیں اس ویب سائٹ کا نام نیوز فلیکس ڈاٹ کام ہے اس کے ذریعہ آپ مہینے کے بیس ہزار تک کما سکتے ہیں گھر بیٹھ کر . میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس ویب سائٹ پر تحقیق ضرور کریں گے شکریہ ۔ https://newzflex.com/registration

عوام کی آواز
December 27, 2020

ایک لاحاصل جنگ

ایک لاحاصل اور خطرناک جنگ جو انسانیت کی طرف بڑھ رہی ہے اور انسان اس سے بے خبر اپنی زندگی میں مصروف ہے خلاء میں اپنی برتری اور معدنیات پر قبضہ کی خواہش دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان ایک خطرناک ٹکراو کا باعث بنے گی کچھ ممالک آجکل چاند اور خلاء کے دوسرے حصوں پر معدنیات کے حصول کے لئے کان کنی کا سوچ رہے ہیں اس خواہش کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہیں ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان وسائل پر حق کس کا ہے اور مستقبل میں اس کا انجام کیا ہو گا دنیا میں امریکہ روس اور چائنہ کے بعد اب ایک اور ملک انڈیا بھی سیٹیلائٹ کو تباہ کرنے والے ممالک کی صف میں آکھڑا ہوا ہے سیٹیلائٹ دنیا بھر کے آپریشنز سینٹرز کو انٹیلیجنس معلومات اور تصاویر بھیجتے ہیں خلاء کا افواج کے درمیان زمینی تصادم میں اہم کردار ہے خلاء میں جانے والے ممالک بہت جلد خلاء خاص طور پر چاند پر اپنی ملٹری تنصیبات اور تعمیرات کا آغاز کر دیں گے اس ضمن میں امریکہ نے باقاعدہ اپنی خلائی فورس کا ادارہ بھی قائم کر دیا ہے اس کاوش کے بعد روس اور چائنہ بھی بہت جلد ایسے پروجیکٹس کا آغاز کریں گے خلاء فورس کے قیام کے پیچھے امریکہ کا سب سے بڑا مقصد اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کو خلاء میں پہچانا ہے دوران جنگ زمین پر اپنی ملٹری تنصیبات کی تباہی کے بعد وہ خلاء سے اپنے دشمن کو تباہ کر سکتا ہے اس کے علاوہ ایک خطرناک ہتھیار لیزر ویپن ہے جو کہ سیٹیلائٹ کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے انسان اپنی لالچ سے پہلے ہی اس دھرتی کو تباہی کے دہانے پر لے جا چکا ہے ماحول تباہ ہو چکا ہے اوزون کی تہہ تباہی کے قریب پہنچ چکی ہے جب خلائی ٹکراو کا آغاز ہو گا انسانیت مٹ جائے گی اوزون کی تہہ تباہ ہو جائے گی انسانیت کا وجود زمین پر نہ رہے گی انسان کی لالچ امن کو تباہ کر دے گی ہمیں ابھی سے اس مسئلے کو توجہ دینا ہو گی دنیا کے تمام ممالک کو مل کر ایک ایسا معاہدہ کرنا ہو گا جس سے اس تباہی کو روکا جا سکے اگر ہم نے اس مسئلے پر توجہ نہ دی تو عنقریب ایک لاحاصل جنگ شروع ہو گی اور تباہی ہی تباہی ۔

عوام کی آواز
December 27, 2020

نہار منہ بھیگے بادام کھانے کے 9 حیرت انگیز فوائد۔

نہار منہ بھیگے بادام کھانے کے 9 حیرت انگیز فوائد۔ بادام غذائیات سے بھرپور ہوتے ہیں جو شاید ہی کسی اور چیز میں موجود ہوں۔ 28g باداموں سے اپکو بےشمار غذایت مل جاتی ہے۔ جو کہ اپکے ان تمام مسائل کا حل ہے۔ دماغی کمزوری۔ نہار منہ بادام کھانے سے اپکا دماغ طاقتور ہوتا ہے۔ دماغ کا حافظہ مضبوط ہوتا ہے۔ اگر اپ چاہتے ہیں کہ آپ کا دماغ کمپوٹر جیسا ہو جائے تو بادام سے بہتر کوئی شے نہیں۔  سستی کا علاج اگر آپ صبح اٹھ کر سستی محسوس کرتے ہیں تو یے اس بات کی علامت ہے کہ اپکا دماغ کمزوری کا شکار ہے اور دماغ کی مضبوطی کے لیے بادام سے اچھی شے کوئی نہیں۔اگر آپ نہار منہ بادام کھانا شروع کردیں تو آپ دس دن کے دوران سستی میں کمی محسوس کرینگے۔  دل کے دورے کا حل نہار منہ بادام کھانے سے اپکا دل مضبوط ہوتا ہے اور دل کی کمزوری دور ہوتی ہے۔ بادام اپکی دل کی گھبراہٹ کو بھی ختم کرتا ہے۔ بادام میں موجود روغنیات آپ کے دل کی حفاظت کرتے ہیں اور آپکی شریانوں کو بندھ نہیں ہونے دیتے۔ بادام میں موجود پروٹین اپکے دل کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں اپکو دل کا دورا نہ آئے تو آپ روزانہ نہار منہ 10 بادام کھانا اپنی عادت بنا لیں۔ دانتوں اور ہڈیوں کی مضبوطی کا ذریعۂ۔ کسرت سے نہار منہ بادام کھانے والوں میں دکھا گیا ہے کہ بڑھاپے میں نہ تو انکے دانت ٹوٹتے ہیں اور نہ ہی انکو ہڈیوں کہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں فاسفورس ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس میں موجود تمام معدنیات اپکے جسم کو اثر کرتے ہیں۔ میدے کا مضبوط ہونا۔ روز صبح نہار منہ بادام کھانے سے اپکا میدا مضبوط ہوتا ہے۔ بادام اپکے میدے کے لیے بہت مفید ہے۔ باداموں میں موجود روغنیات اپکے میدے کو صاف رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں موجود معدنیات اپکا ہاضمہ مضبوط کرتے ہیں۔ قبض سے نجات۔ وہ لوگ جو قبض کا شکار رہتے ہیں وہ اگر روز صبح نہار منہ بادام کھائیں تو بدم میں موجود روغنیات اپکے میدے کی خشکی کو بھی ختم کرتے ہیں۔ اگر اپکا میدا طاقتور ہوگا تو آپ کا قبض کا مسلہ بھی دور ہو جائےگا۔  جلد اگر میں جلد کی بات کروں تو نہار منہ بادام کھانے سے اچھا اور کچھ نہیں۔ باداموں میں وٹامن ای ہوتا ہے جو کہ آپکی جلد کو جاندار بناتا ہے۔اگر اپکی جلد خشک ہے تو بادام کھانے سے اپکی جلد تروتاذہ رہے گی۔ وٹامن ای اپکی جلد کے لیے دوسری زندگی ہے۔ اگر وٹامن ای اپکی جلد میں وافر مقدار میں موجود ہے تو سمجھیں اپکی جلد کبھی خراب نہی ہوگی۔ بادام میں ایسے معدنیات موجود ہیں جو آپکی جلد کو جلدی خراب نہیں ہونے دیتے اور سورج کی گرم شواون سے بھی اپکو محفوظ رکھتے ہیں۔ بالوں کے لیے بہت مفید۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپکے بال گھنے رہیں تو آج سے ہی 10بادام بھگو کر رکھ دیں اور روز کسرت سے کھائیں۔ بادام اپکے بالوں سے خشکی کو بھی ختم کرتا ہی اور صرف اتنا ہی نہی اپکے بالوں کو لمبا گھنا اور مضبوط بھی بناتا ہے۔ اس مین موجود وٹامن ای ان سب مسلوں کا حل ہے۔ موٹاپا۔ موٹاپا ایک ایسی بیماری ہی جو بنا کسرت کی ختم نہی ہوتی لیکن اگر آپ روز صبح کسرت سے 10 بادام کھائیں گے تو عمر بھر موٹاپے کا شکار ہونے سے بچے رہیگے۔ تو کیا سوچ رہےہیں؟ آج ہی 10 بادام بھگو کر رکھ دیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ میری اس تحریر سے اپکو بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہوگا۔ شکریہ۔

عوام کی آواز
December 26, 2020

محمد بن قاسم

محمد بن قاسم 695 ء کے گرد پیدا ہوئے ۔ وہ سققافا قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔ جس کا تعلق عرب میں طائف سے ہوا ۔ وہ اپنی ماں کی دیکھ بھال میں پلا بڑھا ۔ وہ جلد ہی ان کے چچا محمد بن یوسف ، یمن کے گورنر کے لئے ایک عظیم اثاثہ بن گیا. ان کا فیصلہ ، ممکنہ اور مہارتوں نے بہت سے دوسرے افسران کو چھوڑ دیا اور ریاستی محکمہ میں اسے مقرر کرنے کے لئے حکمران پر مجبور کیا ۔ حجاج بن یوسف کے ایک قریبی رشتہ دار بھی اس وجہ سے کہ اس کی جوانی میں ، نوجوان محمد بن قاسم نے فارس کا گورنر مقرر کیا تھا اور اس علاقے میں بغاوت کو کچل دیا ۔ حجاج بن یوسف کے بیٹے میں قانون کے طور پر پیش کرتا ہے کہ ایک مقبول روایت بھی ہے. انہوں نے سندھ اور پنجاب کے علاقوں کو اموی خلافت کے ساتھ دریائے سندھ کے ساتھ فتح کیا ۔بھارت کی فتح کے لئے طویل اور مختصر مدتی وجوہات دونوں ہیں. عربوں کو ہندوستان اور مشرقی ایشیا کے ساتھ تجارت کرنا پڑی ۔ تجارت سمندر بگدڑ کے ذریعے کیا گیا تھا; سندھ کے قزاقوں کی لوٹ مار کرنے کی وجہ سے بگدڑ غیر محفوظ تھی ۔ عرب باغیوں کا بھی سندھ میں پناہ حاصل ہے ۔ اس طرح اموی اپنے اقتدار کو مضبوط بنانا اور تجارتی بگدڑ کو بھی محفوظ بنانا چاہتا تھا ۔ حجاج علیہ السلام کے گورنری کے دوران (قزاقوں) نے ایسا کے حکمران کو ہاججاج پر پلونداراد اور عرب کے جہازوں پر حملہ کیا جو سری لنکا میں مرنے والے مسلمان فوجیوں کے یتیموں اور بیواؤں کو لے رہے تھے ۔ اس طرح اموی خلافت کو جائز وجہ فراہم کرنے کے بعد انہیں مکران اور سندھ کے علاقوں میں قدم جمانے کا اہل بنا دیا گیا ۔ اموی خلافت نے حکم دیا کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا ۔ انہوں نے 6,000 شامی گھڑسوار فوج کی قیادت کی اور سندھ کی سرحدوں پر وہ ایک پیشگی گارڈ اور 6000 اونٹ سواروں اور پانچ کاتاپولتس (منجانیکس) کے ساتھ شمولیت اختیار کی ۔ محمد بن قاسم نے سب سے پہلے یہ پکڑا کہ عرب فوج نے سندھ کے ساتھ وہاں سے مارچ کیا ۔ روہرا میں ظہیر کی افواج نے ملاقات کی ۔ ظہیر جنگ میں مر گیا ، اس کی افواج کو شکست دی گئی اور محمد بن قاسم نے سندھ کا کنٹرول لیا ۔ محمد بن قاسم 712 ء میں داابال میں داخل ہوئے ۔ اس کی کوششوں کے نتیجے میں ، انہوں نے داابال پر قبضہ کرنے میں کامیاب کیا. انہوں نے اپنی کامیابی کی ترقی کو جاری رکھا ، ناران ، قلعہ (سکہ نامی) ، برہمن آباد ، Alor ، ملتان اور گجرات میں فتح حاصل کی ۔ ملتان فتح کے بعد ، انہوں نے کشمیر کے Kigdom کی سرحدوں کو اپنا ہتھیار اٹھایا ، لیکن ان کی برطرفی نے مزید آگے بند کر دیا. اب مسلمان پورے سندھ کے مالک تھے اور شمال میں کشمیر کی سرحد تک پنجاب کا ایک حصہ تھے ۔ فتح کے بعد ، انہوں نے ایک مصالحتی پالیسی اختیار کی ، ان کے مذہبی اور ثقافتی طرز عمل میں عدم مداخلت کی واپسی میں مقامی کی طرف سے مسلم حکومت کی منظوری سے مطالبہ کیا. انہوں نے ایک مضبوط ٹیکسیشن نظام کے ساتھ امن قائم کیا. واپسی میں انہوں نے مقامی کے لئے زندگی اور جائیداد کی گوارنٹی کی حفاظت فراہم کی. 714 میں حجاج نے وفات پائی ۔ جب ولید بن عبدالملک کا انتقال ہو گیا تو اس کے چھوٹے بھائی سلیمان کو خلیفہ کے طور پر کامیابی حاصل ہوئی ۔ وہ حجاج کے خاندان کے ایک تلخ دشمن تھا. انہوں نے سندھ سے محمد بن قاسم کو یاد کیا جس نے احکامات کو جنرل کی ذمہ داری قرار دیا ۔ جب وہ واپس آ گیا تو وہ بیس سال کی عمر میں 715AD کی 18 جولائی کو موت کے طور پر مارا گیا ۔

عوام کی آواز
December 26, 2020

ناران کاغان

ناران اور کاغان پاکستان کے شمالی علاقوں میں سے دو بہت ہی خوبصورت علاقے ہیں۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ میں واقعہ یہ علاقے قدرتی حسن سے مالا مال ہیں ۔ضلع مانسہرہ میں کاغان 165 کلومیٹر کے علاقے پر پھیلا ہوا ہے ۔ناران مانسہرہ سے 119 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ناران اور کاغان سطح سمندر سے بہت زیادہ بلندی پر ہونے کی وجہ سے گرمیوں میں کافی خوشگوار موسم رکھتے ہیں اور انہیں دِنوں میں سیاحوں کی بڑی تعداد ان وادیوں کا رُخ کرتی ہے۔سردیوں میں ان علاقوں کا درجہ حرارت منفی میں بھی چلا جاتا ہے ۔اور برفباری کی وجہ سے ان علاقوں کو جانے والے راستے دشوار گزار بن جاتے ہیں ۔لیکن ان دِنوں میں بھی سیاح ان علاقوں کے قدرتی حسن کے نظارے کے لیے جاتے ہیں ۔نہ کے پاکستان سے بلکہ باہر کے علاقوں سےبھی لوگ ان قدرتی نظاروں کو اپنی آنکھوں میں سمانے کے لیے آتے ہیں ۔کوہ ہمالیہ سے لپٹا ہو کاغان کا یہ علاقہ اپنے دیکھنے والوں کے لیے اور بھی خوبصورت ہو جاتا ہے۔جب گلیشیرز کے پگلنے سے دریائے کنہار میں بہتا ہو صاف شفاف پانی وادی کاغان سے گزرتا ہو جاتاہے۔ قدرت کے اس حسین نظارے کو دیکھ کر قرآن مجید کی سورت الرحمن کی وہ آیت یاد آتی ہے ترجمہُُ ُ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ٗٗ ناران اور کاغان کے علاقوں میں موجود زیادہ تر لوگ بازار اور ہوٹلوں سے اپنا گزر برس کرتے ہیں۔سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے ان جگہوں پر کچھ دن قیام کے لیے ان ہوٹلوں میں ہی ٹھہرتے ہیں۔ سیف الملوک جھیل: بہت سارے زائرین ناران کا دورہ کرتے وقت اسے ایک ضروری اسٹاپ سمجھتے ہیں۔ سطح سمندر سے 10 ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے اور پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے ، اس جھیل کا نام ایک مصری شہزادے کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس کی پُرسکون سطح کے ساتھ جھیل سیف الملوک اپنے پانیوں میں آس پاس کے پہاڑوں کی عکاسی کرتی ہے اور ایک خاص مقام پیدا کرتی ہے۔ شہر سے تقریبا پانچ میل دور جیپ کے ذریعہ ایک گھنٹہ کی سواری ہے یا سیف الملوک جھیل دیکھنے کے لئے دو گھنٹے کی مسافت ہے۔ لولوسر جھیل: سیاحوں کو راغب کرتی ہے کیونکہ یہ وادی کاغان کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ ناران سے 30 میل دور واقع ہے کیونکہ جیپ کی سواری آسانی سے سستی ہوتی ہے۔ تاہم ، برف اور بارش سے موسم سرما اور موسم گرما کے ابتدائی حصوں میں جھیل بند رہتی ہے۔ زائرین نوٹ کرتے ہیں کہ جھیل کے ہموار سطح کے پانی میں آس پاس کے پہاڑوں کی عکاسی ہوتی ہے جو نہایت خوبصورت مقام کے لئے بنتے ہیں۔ آس پاس کی دیگر جھیلوں میں اضافے کا منصوبہ بنانے والوں کے لئے یہ ایک اچھا نقطہ اغاز بھی ہے۔ لالا زار: ناران سے 13 میل دور واقع گھاس کا میدان ہے۔ قدرتی ماحول ہے۔ لالہزار مقامی پہاڑوں کے قریب واقع ہے اور اس کے چاروں طرف دیودار کا جنگل ہے۔ زائرین نے نیچے کی وادی کے خوبصورت نظارے پر بھی تبصرہ کیا ہے کیونکہ لالہزار سطح سمندر سے 10،500 فٹ بلندی پر بیٹھا ہے۔دودی پتسار جھیل: ناران کی مقامی جھیلوں میں سے ایک اور ہے۔ پہاڑی چوٹیوں کے ساتھ واقع دریا سال کے چند مہینوں کے دوران ان برف پوش پہاڑوں کی عکاسی کرتا ہے جو منجمد نہیں ہوتا ہے۔ بہت سارے زائرین کے ذریعہ وادی کی سب سے خوبصورت جھیل سمجھا جاتا ہے جس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دودیپسر جھیل کا دورہ کرنے کے لئے موثر انداز میں وہاں جانے کے لئے کئی گھنٹوں کی اضافے اور جیپوں یا گھوڑوں کا استعمال درکار ہے۔ دریائے کنہار: وادی کے وسط سے بہتا ہے اور ناران کے وسیلے سے واقع ہے۔ بہت سارے زائرین جھیل کے کنارے بیٹھنے اور باہر یا رافٹنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو حالیہ برسوں میں ایک مقبول سرگرمی بھی بن گیا ہے۔ سری پائی: دیودار جنگل کے ذریعے اضافے کے آخر میں ایک گھاس کا میدان ہے۔ جبکہ کسی حد تک محل وقوع سے دور ہی سیری پائی کے پاس موسم گرما میں کرایے کے لئے ہوٹلوں اور جھونپڑیاں ہیں۔ یہ اونچا مقام نیچے وادیوں اور دریا کا قدرتی نظارہ بھی پیش کرتا ہے۔

عوام کی آواز
December 26, 2020

اچھی صحت کا راز

آج کے دور مین کون ہے جو بیمار ہونا چاہتا ہے۔بیماری کی وجہ سے ایک تو طبیعت بےزار رہتی ہے،دوسرا جیب بھی خالی ہوجاتی ہے ٹکنالوجی کے ترقی یافتہ دور مین ھم لوگ اپنی صحت کے اصولوں کو نظرانداز کررہے ہیں اور بہت سی بیمار یوں کی لیپٹ میں ہیں۔حضرت ابوحریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ،حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا”قیامت کے دن انسان سے جن انعامات کے بارے میں پوچھا جاے گا أن میں سے ایک صحت بھی ہے” نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تلقین کی کہ اللہ تعالی سے صحت و عافیت کا سوال کرو کیونکہ ایمان کے بعد صحت سے بڑھ کر اور کو یٔ نعمت نہیں . مندرجہ ذیل اصولوں کو اپنا کر اچھی صحت کو پایا جا سکتا ہے۔ 1=پیٹ کی پہلی غذا جب تک ہضم نہ ہوجاے تب تک کھانا نہیں کھانا چاہیے چاہے تین دن ہی کیوں نہ ہوجاںٔیں . 2=دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد تھوڑا ارام کرنا چاہیے شام کے کھانے کے بعد چہل قدمی کرنا تکہ کھانا ٹھیک سے ہضم ہوسکے۔ گوشت جوان جانور کا کھانا چاہیے ۔ اور اچھی طرح پکا کر کھانا. 3=پانی ہمیشہ کھانے سے پہلے پینا چاہیے بعد میں پینا ٹھیک نہیں۔ 4=رات کو بستر پر جانے سے پہلے واش روم جانا چاہیے . 5=پھلوں کے موسم میں پھل کھانا چاہیے موسم جانے لگے توپھل چھوڑ دینا چاہیے۔ ہم لوگ ان سب باتوں پر توجہ نیں دیتے۔اپنا اٹھنا،بیٹھنا کھانا،پینا،سونا،جاگنا،خالص غذا کو ترک کر چکے ہیں۔فاسٹ فوڈ کو استعمال کرنے لگے ہیں ۔ اخر میں یہی کہنہ ہے جان ہے تو جہان ہے.-

عوام کی آواز
December 26, 2020

کھلے دودھ اور ڈبے والے دودھ میں فرق

صدیوں سے بزرگ کھلا دودھ پیتے آرہے ہیں اسی لیے صحت مند تھےکوئی بیماری نہیں تھی سو سو سال ان کی عمر تھی بہتر زندگی گزار کر گئے۔ہمیں کیا ضرورت ہے ڈبے کادودھ استعمال کریں۔بہت ساری کمپنیوں نے مل کر انوسٹمنٹ کر کےمہم چلائی ہوئی ہے کہ کھلا دودھ بند کیا جائے گا تو ڈبے والا دودھ لوگ استعمال کریں گے اور اس مقصد کےلیے میڈیکل کے لوگوں کو ساتھ ملایا اور پبلک سروس پیغامات کیے۔یہ ایسے پیغامات ہوتے ہیں جو بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے کسی کی خدمات کے لیے چل رہے ہوں لیکن اس کے پیسے under table ملتے ہیں سامنے نہیں۔ اس مہم میں ڈاکٹرز اور اینکرز کو استعمال کیا جارہا ہے۔ڈاکٹرزکوساتھ ملاکرانسےیہ کہلوایاجارہاہےکہ ہم سب ڈاکٹرز یہrecommendکرتےہیں کہ ڈبےوالادودھ استعمال کریں اگرکھلادودھ استعمال کریں گےتووہ مضرصحت ہےکسی کمپنی کانام سامنےنہیں آتا۔ اینکرزکوبھی اس مہم میں استعمال کرکےان سےکہاجاتاکہ عوام کوڈبےوالےدودھ استعمال کرنے کی طرف راغب کیاجائےاوروہ خودایسی ہستیاں ہوتی ہیں جوخوددس کلومیٹرتک نہیں چل سکتے۔اگرڈبےوالادودھ اتنا ہی مفید ہےتوخوداستعمال کرکےصرف چھ کلومیٹرہی چلنےکے قابل ہوجائیں تاکہ ڈبےوالےدودھ کی افادیت بتاکرجواس کےاستعمال کی پیشکش کرتےہیں سچ توثابت ہوسکے۔ ڈبےوالےدودھ بنتاکیسےہے؟ 17کمپنیاں ایسی ہیں جودودھ ڈبےوالابیچتی ہیں دوکمپنیاں ایسی ہیں جو گوالوں سےدودھ لیتی ہی نہیں اور بیرونی ممالک میں جانورکی خوراک کےطور پراستعمال ہونےوالےپائوڈرملک سے ڈبےوالادودھ بناتی ہیں اورجوکہ انسانوں کےلیےنقصان دہ ہے اوراسی ڈبےپرلکھاہوتاکہ12ماہ سےچھوٹابچےکےلیے نہ استعمال کریں۔دودھ توبچوں کےلیےمفیدہوتاپھرایساکیوں لکھاہوتااس کایہی مطلب ہوا کہ وہ دودھ ہےہی نہیں۔ اورجوباقی کمپنیاں گوالوں سےدودھ لیتی ہیں25% دودھ وہ ہوتا جو گوالوں سےلیتےاور100%بیچتےہیں تو75%vegetable fat اورکیمیکلز ہوتا۔ اور چولہےسےزیادہ درجہ حرارت پر گرم کرتےاور جلدی ٹھنڈاکرتےتوقدرتی اجزاءختم ہوجاتےتوجب انسان قدرتی اشیاءکےساتھ کھیلتےتوقدرت کی طرف سےبھی غلط ہوگا چاہےوہ کروناکی صورت میں ہویاکوئی اورہو۔کھلےدودھ کوگرم کریں تووہ آہستہ بوائل اورٹھنڈاہوتااور قدرتی اجزاءبرقراررہتے۔ ہمارےوزیرصحت آنکھوں پرپیسوں کی پٹی باندھےسوئےہوئےہیں اگرکوئی دیانتدارصحافی یا کوئی حاکم آئےتو اسکو عہدےسےہٹادیاجاتا۔پوری قوم اورنسل کا انحصارغذاپرہےاورچھوٹےبچوں کی غذادودھ ہےپبلک سروس پیغامات کی بناپرجوڈبےوالےدودھ کوpromoteکیاجارہاہےتاکہ تازہ دودھ کےخلاف مہم چلائی جائےاس مہم کوبند کرنا چاہیے۔پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کی صحت کا خیال رکھیں۔آپ بحیثیت شہری اس بات سے سب کو آگاہ کریں آگرمجھ پر نہیں یقین تو خوددودھ کا ڈبہ اٹھائیں اجزاءپڑھیں اور دیکھیں کہ دودھ ہے یاکچھ اور۔

عوام کی آواز
December 26, 2020

مریخ پر زندگی

1911 میں ، ایک ماہر فلکیات پروفیسر پاسیول نے مریخ پر انسانوں سے زیادہ ذہین زندگی کی دریافت کا دعوی کیا یہ ایک غیر معمولی دعوی تھا۔ان کا خیال تھا وہاں بڑی بڑی نہریں ہیں جن کی ایجاد صرف ایک ذہین ترین انسان ہی کرسکتا ہے۔ کچھ سالوں بعد پروفیسر پاسیول کے دعوے غلط ثابت ہو گئے۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا گیا ، سائنس نے مزید ترقی گیا 1964 میں امریکہ نے پہلے فلائی بائی مشن مرینر تھری کو مریخ پر بھیجنا تھا لیکن یہ مشن ناکام رہا۔ بلاآخر اسی سال نومبر میں مرینر فور مریخ پربھیجنے کا اعلان کیا اور یہ مشن کامیاب رہا۔ اس مشن میں مرینر فور نے زمین پر مریخ کی اکیس تصویرں بھیجی۔ ان تصاویر سے یہ بات ثابت ہوئی کے مریخ پر زندگی کا کوئی نام و نشان نہیں ۔ 1971 میں امریکہ نے مریخ پر مرینر نائن کو بھیجا اس مشن کا مقصد مریخ کے ارد گرد چکر لگنا تھا۔ اس مشن کی کھِنچی گئی تصاویر پہلے سے زیادہ صاف تھی مریخ کی سطح پر بہت بڑا پہاڑ تھا جو ماؤنٹ ایورسٹ سے کئی گناہ بڑا تھا اس کے علاوہ مریخ پر کئی رقبہ پر پھیلی بڑی بڑی گھٹیاں موجود تھی ۔مرینر نائن نے حیرت انگیز کلمات انجام دیئے ، جس میں تفصیلی اسپیکٹروسکوپک اعداد و شمار اور 7300 فوٹو گرافی کی تصاویر زمین پر بھیجی گئیں جو پوری مریخ کی سطح کو احاطہ کرتی تھیں۔ لیکن یہ مشن بھی مریخ پر زندگی تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ لیکن سائنس دانوں نے امید نہیں چھوڑی انہوں نے مریخ پر اترنے کا فیصلہ کیاتاکہ مریخ میں زندگی تلاش کی جا سکے آخر کار 1975 میں وائکنگ ون مشن نے مریخ پر پہلا قدم رکھا۔یہ سائنس دریافت کی ایک بڑی کامیابی تھی۔وائکنگ چھ سال تک مریخ پر تجربے کرتا رہا جس میں وائیکنگ نے زمین پر تقریبا 50،000 تصاویر زمین پر بھیجی جس میں سرخ ریت ، بڑے پہاڑ تھے ، لیکن زندگی زندگی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کے مریخ پر درجہ حرارت منفی پچاس سے ساٹھ ڈگری کے قریب ہے، جان لیوا تابکاریاں ہیں، آکسیجن تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے جہاں نہ کچھ بویا جا سکتا ہے ،اس سب کے باوجودانسان 2024 میں مریخ پر زندگی کا آغاز کرنا چاہتاہے لیکن کیے؟