ایک لاحاصل اور خطرناک جنگ جو انسانیت کی طرف بڑھ رہی ہے اور انسان اس سے بے خبر اپنی زندگی میں مصروف ہے خلاء میں اپنی برتری اور معدنیات پر قبضہ کی خواہش دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان ایک خطرناک ٹکراو کا باعث بنے گی
کچھ ممالک آجکل چاند اور خلاء کے دوسرے حصوں پر معدنیات کے حصول کے لئے کان کنی کا سوچ رہے ہیں اس خواہش کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہیں ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان وسائل پر حق کس کا ہے اور مستقبل میں اس کا انجام کیا ہو گا
دنیا میں امریکہ روس اور چائنہ کے بعد اب ایک اور ملک انڈیا بھی سیٹیلائٹ کو تباہ کرنے والے ممالک کی صف میں آکھڑا ہوا ہے سیٹیلائٹ دنیا بھر کے آپریشنز سینٹرز کو انٹیلیجنس معلومات اور تصاویر بھیجتے ہیں خلاء کا افواج کے درمیان زمینی تصادم میں اہم کردار ہے
خلاء میں جانے والے ممالک بہت جلد خلاء خاص طور پر چاند پر اپنی ملٹری تنصیبات اور تعمیرات کا آغاز کر دیں گے اس ضمن میں امریکہ نے باقاعدہ اپنی خلائی فورس کا ادارہ بھی قائم کر دیا ہے اس کاوش کے بعد روس اور چائنہ بھی بہت جلد ایسے پروجیکٹس کا آغاز کریں گے خلاء فورس کے قیام کے پیچھے امریکہ کا سب سے بڑا مقصد اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کو خلاء میں پہچانا ہے دوران جنگ زمین پر اپنی ملٹری تنصیبات کی تباہی کے بعد وہ خلاء سے اپنے دشمن کو تباہ کر سکتا ہے اس کے علاوہ ایک خطرناک ہتھیار لیزر ویپن ہے جو کہ سیٹیلائٹ کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے
انسان اپنی لالچ سے پہلے ہی اس دھرتی کو تباہی کے دہانے پر لے جا چکا ہے ماحول تباہ ہو چکا ہے اوزون کی تہہ تباہی کے قریب پہنچ چکی ہے جب خلائی ٹکراو کا آغاز ہو گا انسانیت مٹ جائے گی اوزون کی تہہ تباہ ہو جائے گی انسانیت کا وجود زمین پر نہ رہے گی انسان کی لالچ امن کو تباہ کر دے گی
ہمیں ابھی سے اس مسئلے کو توجہ دینا ہو گی دنیا کے تمام ممالک کو مل کر ایک ایسا معاہدہ کرنا ہو گا جس سے اس تباہی کو روکا جا سکے اگر ہم نے اس مسئلے پر توجہ نہ دی تو عنقریب ایک لاحاصل جنگ شروع ہو گی اور تباہی ہی تباہی ۔
Thursday 7th November 2024 10:11 am