غزل

In ادب
July 12, 2022
غزل

تو نے پیچھے سے جب نہ دی آواز
آنکھ سے آئی دکھ بھری آواز

میرے ہونے کا بس یہ مطلب ہے
ان سنی اور ان کہی آواز

خون پانی ہوا تو دل میں ہی
زنگ سے بھر گئی نئی آواز

منتظر دست آرزو کی تھی
پانی میں ڈوبتی ہوئی آواز

اس کی آواز تھک گئی تھی مگر
میں نہیں سنتا دوسری آواز

میرے گاؤں کا پانی ایسا ہے
دل میں چبھتی رہی تری آواز

جب مرے پاس کوئی اور نہ ہو
مجھے آتی ہے تب مری آواز

دکھ تو یہ ہے سنی نہیں تو نے
اپنے اطراف گونجتی آواز

کچے رستوں سے ہو کے آیا ہوں
دھول سے اٹ گئی مری آواز

اتنے زوروں سے چیخا ہے کوئی
چلتے چلتے ٹھہر گئی آواز

لوگ قیمت بڑھاتے جاتے تھے
مجھ کھنڈر سے جو نکلی تھی آواز

میں تری سمت آ رہا تھا مگر
مجھے گمراہ کر گئی آواز

واعظا یا خموش رہ پیارے
یا لگا کوئی دلبری آواز

میں فقط ہاتھ اٹھا سکا تھا عقیل
بے دلی نے ہی گھونٹ دی آواز