Skip to content

کہیں ماں واپس نہ پلٹ آۓ!

قدرتی نظاروں سے مزین شہر اسلام آباد میں آۓ ہوۓ مجھے ابھی کچھ ہی دن ہوۓ تھے‫‫‫ ‫- آج شام آفس سے فارغ ہوکر پیدل اپنی جاۓ رہائش کی طرف چل دیا- رہائش گاہ کے قریب ہی ایک بہترین فلیٹ کے باہر ایک بوڑھی اماں بیٹھی دکھائی دی- اس کے چہرے پہ اداسی صاف دکھائی دے رہی تھی-
شاید اس کی پریشانی کو دور کرنے میں اس کی مدد کر سکوں، یہ سوچ کر میں اس عورت کے پاس جا پہنچا‫- سلام عرض کرنے کے بعد خیریت دریافت کی تو اس نے اثبات میں سر ہلانے کے سِوا کچھ نہ کہا‫- تذبذب کے عالم میں،میں اسکا چہرہ سیکھ رہا تھا کہ مجھے بوڑھی اماں کی آنکھوں میں نمی دکھائی دی-
گویا وہ مسلسل کسی غم کو چھپانے کی کوشش کررہی تھی-وہ اپنے اوپر گزرے ہوئے کرب کے لمحات بتانے سے ہچکچا رہی تھی-لیکن غم اور دکھ کی تاریکی اس کے چہرے سے عیاں ہورہی تھی- وہ بات ٹالنے کی کوشش تو کر رہی تھی مگر اس کی ہر سانس میں کراہت تھی-
ہزار کوشش کے باوجود اس کا ضبط ٹوٹا اور وہ غم آنسوؤں کی لڑی بن کر اس کی آنکھوں سے بہنا شروع ہوگیا-میرے شدید استفسار پر اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے اپنی زندگی کی روداد سنانا شروع کی-
اس نے بتایا کہ ابھی میرے دونوں بیٹے حسن اور عابد بہت چھوٹے تھے جب ان کا باپ ایک حادثاتی موت کا شکار ہو گیا اور یوں ان کے باپ کے چلے جانے کا دکھ اور بچوں کی تربیت کی ذمہ داری میرے ناتواں کندھوں پر آگئی-میں نے اپنی تھوڑی بہت تعلیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھانا شروع کردیا تاکہ اپنے بچوں کے لئے بہتر معاش کما سکوں اور ان کو اچھی تعلیم دلوا سکوں-وقت کے ظلمت کدے سے گزرتے ہوے انتھک محنت کر کے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوائی،جتنا ایک ماں اپنے جگر کے ٹکڑوں کے لیے کرسکتی تھی میں نے کیا اور یوں میرے دونوں بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے
کی سند حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے- میں نے اپنے ورثے میں آئی ہوئی تھوڑی بہت جائیداد بھی اپنے دونوں بچوں کو منتقل کردی-اب میری جائیداد کے وارث میرے لعل ہی تو ہیں-

میرے بڑے بیٹے حسن کو دبئی کی ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی جبکہ میرا چھوٹا بیٹا عابد یہیں لاہور میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بھرتی ہوگیا-
اب دنیا کی ہر ماں کی طرح میرے ذہن میں بھی چند خوابوں نے جنم لیا،میرے اندر بھی اپنے بیٹوں کے لیے اچھے حسب و نسب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حور جیسی دلہنیں لانے کا شوق پیدا ہوا-چنانچہ میں نے اپنی بچوں کی اونچے خاندانوں میں شادیاں کروا دیں- اب یہ گھر دوبارہ ہنستا بستا آشیانہ بن گیا-
لیکن وقت کیے ساتھ ساتھ مجھے کچھ انکشافات ہونے لگے،مجھے ایسے لگنے لگا جیسے اس گھر میں میری قدر میں کچھ کمی آنی شروع ہوگئی ہو لیکن ایک برا خیال کہہ کر میں نے اس بات کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا-
لیکن میرا انکشاف آہستہ آہستہ سچ معلوم ہونے لگا جب گھر میں مجھے ایک جملہ عام سنائی دینے لگا “امی آپ سمجھتی نہیں ہیں”- پھر میرے سامنے میرے بچوں کی آوازیں قدرے اونچی ہوتی گئیں- اور میں کمزور ہوتی گئی- ایک ماں اپنے بچوں کے سامنے طاقت کا مظاہرہ کر ہی نہیں سکتی پھر وہ بچے جو اب بہت بڑے ہوگئے تھے،اتنے بڑے کے ان کی آوازیں اپنی ماں کے لیے کرخت ہوچکی ہوں-
میں نے حالات کی نزاکت سمجھ کے خود کو خاموش رکھنا شروع کردیا تھا- مگر میرے لیے وہ دن کسی قیامت سے کم نہیں تھا جب کسی بات پہ میرا بیٹا عابد اتنا برہم ہوا اور اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ مجھے خوف ہونے لگا کہیں اس کا ہاتھ نہ اٹھ جائے- مجھے ڈر اپنے اوپر اٹھنے والے ہاتھ کا نہیں تھا بلکہ مجھے ڈر اس کے اٹھے ہوئے ہاتھ کی وجہ سے رب کی طرف سے اس پہ آنے والی سختیوں کا تھا-اور میں خاموش ہوگئ-
کچھ دنوں بعد میرا بڑا بیٹا دبئی سے واپس آیا اور گھر میں کچھ فیصلے ہوناشروع ہوئے- حتمی فیصلہ یہ طے پایا کہ امی کو اب آرام کی ضرورت ہے تو کیوں نا امی کے لیے ایک الگ فلیٹ کا انتظام کیا جاے، جہاں امی سکون سے رہ سکے، عبادت اور ذکر میں مشغول رہ سکے- مجھے ایک جھٹکا تو لگا مگر میں یہ جاننے کی کوشش کررہی تھی کہ یہاں میرے سکون کا انتظام ہورہا ہے یا پھر یہ اپنے سکون کا بندوبست کررہے ہیں-

فیصلہ یہ طے ہوا کہ امی کہ لیے بہت اچھا فلیٹ ڈھونڈا جائے جہاں امی کو کوئی تنگی نہ ہو اور ان کی سہولت کی تمام تر اشیاء وہاں میسر ہوں-

پھر طے شدہ فیصلے پہ عملدرآمد ہوگیا اور اپنی ماں کے لیے ایک دیدہ ذیب فلیٹ( جہاں ضرورت کی ساری چیزیں مہیا تھیں)کا انتظام ہوگیا اور مجھے یہاں اس فلیٹ میں منتقل کردیا گیا-مگر اس سب کے باوجود میرے بیٹوں کی طرف سے میرے لیے ایک کام بڑی باقاعدگی سے ہوتا رہا-اور وہ کام یہ تھا کہ میرے فلیٹ کا کرایہ وقت سے پہلے ادا کردیا جاتا تھا- شاید میرے بیٹوں کو یہ ڈر تھا کہ وقت پر کرایہ نہ دینے کی وجہ سے ماں کا فلیٹ نہ چھن جائے اور “کہیں ماں واپس نہ پلٹ آئے”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *