Skip to content
  • by

محبت تھی یا رسوائی

محبت تھی یارسوائی

آج وہ اسےپورے پانچ سال بعددیکھ رہی تھی وہ بدل سا گیا تھا بھری ھوا جسم بڑی آنکھیں اسے آج بھی اپنے سحر میں مبتلا کر رھی تھی شادی کا پورا ھال بھرا ھوا تھالیکن اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھاابی وہ اسی کیفیت میں تھی کہ اچانک ساحل بولاتے ہو سے  اسےایک لڑکی گزری جو اس لڑکے کی بیوی تھی جیسے دیکھ کے آج بھی مومل خود کے دل پے اختیار کھوں دیتی تھی

زہر لگ رہی ہو مجھے تم ایسی زندگی سےتم مر نہیں جاتی مومل کی بہن نےاسے غصہ سے دیکھ کے کہاچلو گھر امی بلا رہی ہےکومل نے اس ہاتھ پکڑا یسے اپنے ساتھ لے گئی-  تمھیں آج  بھی اسے مھبت کیسے ہو سکتی ہے کومل نے اسے کھا جانے والی -نظروں سےدیکھاچلو گھر اب گاڑی میں بیٹھتے ہوئےکھا مومج چپ چاپ بیٹھ گئی گھر آکے سب تھوڑی دیر میں سو گئے لیکن نیند اس کی نظروں سے کوسوں دور تھی وہ ماضی میں کھو سی گئی

ساحل ہم ٹھیک تو کر رہے ہے نا؟مومل نے ساحل کی آنکھوںمیں دیکھاتم  جانی ہو ہمارے پاس کے سوا کوئی راستہ نہیں ھےاب بیٹھوں گاڑی میں ہمارے نکاح کے بعدہمارے گھر والوں کو ہمیں قبول کرنا ہی پڑے گااس کے بعد وہ دونوں رات کے اندھیرے میں مومل کے گھر سے نکل گئے ھم کھا جارہے ہیں مومل نے سوال کیاھمارے گھر نکاح سے پہلے نکاح صبح ہوگارات گھر کے پیچے حصے میں رہے گے ویسے ھی گھر کوئی نہیں ھے شام ہی سب گائوں کے لئے نکل گئ ماموں کی طبیعت خراب ہے اترواب گھر آگیامومل اندرچلی گئی ویسے بھی یہ اس کے مامو کا گھر تھا جہاں وہ اکثر آتی تھی پر آج اسے ڈر لگ رہا تھا

تم مجھے چھوڑں تو نہیں دوگے نہ تمجانتے ھو مجھے تم سے بے پناھ محبت ہے میں مر جائوں گی تمھارے بغیر مومل نے ساحل کے دونوں ہاتھ اپنے ھاتھوں میں لے کے کہاتمیں لگتا ھے میں گے سکتا ھو تمھارے بغیرساحل کی آنکھوں نے اس کی محبت کی گواہی  دی ابھی یہ دونوں بات کے ھی رھے تھے تواچانت گیٹ کا دروازا کھولا سامنے ساحل کی ماں کھڑی تھی امی اپ یہاں ؟ساحل نے بوکھلاں کے سوال کیا؟ہاں میں یہاں تمھارے ماموں کوکراچی لا رے تھے تو ھم واپس آگئے اس کے ساتھ ہی اسکی امی نے زور دار تھپڑ ساحل کے منہ پر مارارب نے عزت بچانی تھی تو تبھی آگئےاور تم مومل کے بالوں سے پکڑ کے گھر سے باھر نکالا تمہیں لگتا ہے تمہارے گھرکی بہوبنوں گی تمہارے ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی ساحل کی امی نے اسے بالوں  سے پکڑ کے گھر سے باہر نکالاساحل تم سمجھائوں نا مامی جان کو ھم محبت کرتے ھے ایک دوسرے سے ۔نہیں امی یہ خود آئی ھے مجھےتو پتا بھی نھیں تھامیں تو بس اسے اچھا دوست سمجھتاتھا مجھے نھیں پتا تھا یہ کیا سمجھتی ھے ابھی آپ کے  انے سے پہلے آئی ھے میں آپ کو کال کرنےوالاتھا کے آپ آگئی اس کے بعد مومل کو کچھ سنائی نہیں دیامامی نے اسے گاڑی میں اپنے گھر بھج دیا گھر جیسے ھی داخل ھوئی  اس کے باپ نے اسے بہت ماراپر نہ اسے کچھ سنائی دےرھا تھا نہ ھی اسے جسم پے لگنے والی چوٹ محسوس ھو رھی تھی

صبح تک پوری بات پورے خاندان پھیل گئی اسے ھر طرح کے لفظوں سے نوازا گیابدکردارسے لے کےآواراں تک وہ اندر تک مر گئی کچھ دنوں بعد ساحل کی بڑے دھوم دھام سےشادیکر دی گئی وہ آج بھی خاندان میں میں عزے دارلوگوں میں شمار ھوتا ھے اورمومل آج بھی بدکردار مانی جاتی ھے ساحل تواسےکسی کہانی کی طرح بھول گیالیکن لوگون نے یسے اپنا ماضی آج تک بھولنے نہ دیا

آپی فجر کاٹائم ھوگیا ھے نماز پڑھ لے کومل نے اسے آواز دی مومل نے آنسوں صاف کئے اور  نماز پڑھنے چلی گئی کیوں کے ایک خدا ہی تھا جو اس کا سچ جانتاتھا مومل نے اپنافیصلہ حا لات پر چھوڑ دیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *