انصاف

In افسانے
October 11, 2022
انصاف

واجدعلی جس کا تعلق زمیندار گھرانے سے تھا. نسل در نسل سیاست کے میدان سے کوئی نہ کوئی وابستہ ضرور رہا. جن میں واجد علی کا شمار بھی ہوتا تھا.عالقے کا ایم پی اے ہونے کی حیثیت سے وہ اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کرتا طاقت کا نشہ اور پیسے کی ہوس نے اس کے ضمیر کو مردہ کر دیا تھا.

“سکندر آج کا کام پر نہیں نہیں جائیں گے؟.”فیروزہ نے اپنے شوہر سکندر سے پوچھا.واجد علی کے پاس بطور ڈرائیور کام کرتا تھا. “سکندر نے درد سےکراہتے ہوئے کہا. ” جاؤں گا تو گھر کا خرچہ چلے گا.” ” فیروزہ بیگم!” “میں اس لیے کہہ رہی ہوں اپنی حالت دیکھو آج چھٹی کر لو کل چلے جانا.” “نہیں بیگم” “جانا ضروری ہے. ورنہ نوکری چلی جائے گی نوکری چلی گئی. تو پھر بچوں کو اچھی تعلیم کیسےدالؤ گا .”

“میرا ایک ہی خواب ہے. میری نازو جج کے عہدے پر فائز ہو جائے.اور میرا وقار ایک بڑا آفسر بن جائے.”” پھر زندگی میں سکون ہی سکون ہوگا.”
” کتنی دفعہ کہا ہے .سکندر اتنا آگےکا مت سوچا کرو. زندگی کا کیا بھروسہ آج ہے کل نہیں.” وقار میٹرک کے پیپرز دے چکا تھا اور نازو نے انٹرکے پیپرز دئیے تھے. سکندر بخار کی وجہ سے بہت مشکل سے سے اٹھتا ہے. واجد علی کے بنگلے کی طرف روانہ ہوجاتا ہے. اور اس کی زبان پر جاری ہے. جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے واجد علی کے بنگلے سے گولی کی آواز سنائی دیتی ہے.” واجد علی گرجدار آواز میں کہتا ہے. آج تک کسی کی اتنی ہمت نہ ہوئی میرے اوپر انگلی اٹھانے کی جو بھی ایسا کرے گا. اس کا یہی انجام ہوگا.”

واجد علی نے صحافی کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا تھا .جس نے اس بھیڑیے کے خالف آواز اٹھا کر بے بس الچارمظلوم لوگوں کی آواز بنا تھا .اس کو اس بھیڑیا صفت انسان نے موت کی ابدی نیند سال دیا تھا. کئی دہائیوں سے ایسا ہی چال رہا ہے. اگر کوئی انسان کسی جرم کے یا طاقتور انسان کے خالف آواز اٹھاتا ہے . تواس کی آواز کو اسی کے ساتھ دفن کر دیا جاتا ہے. سکندر یہ سارا منظر دیکھ رہا ہوتا ہے. ڈرائنگ روم کے باہر کھڑے ہو کر اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں.اس کوکچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا وہ کیا کریں اپنی ٹانگوں پربا مشکل کھڑا ہو پا رہا تھا.واجد علی الش کو ٹھکانے لگانے کا اپنے آدمیوں کو حکم دیتا ہے. واجد علی کے آدمی الش کو باہر الن میں لے جا کر دفنا دیتے ہیں.

سکندر سب منظر دیکھتا ہے. اور سوچتا ہے “کیسے درندہ صفت لوگ بھی ہیں دنیا میں جن کی نظر میں کسی غر یب کی یا وہ جو ان جیسوں کے خالف آواز ا ٹھتا ہے ان کی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہی تھی.”سکندر گھر کی جا نب چل پڑتا ہے.سکندر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے.

صبر آرہی ہوں دروازہ توڑنا ہے—–
کیا ہو گیا ہے؟
“جلدی کرو ہم لوگ شہر چھوڑ رہے ہیں”
اس کی بیوی حیران و پریشان کھڑی پوچھتی ہے.
” کیا ہوا.؟ “”ہم یہ شہر کیوں چھوڑ رہے ہیں.؟”
“فیروزہ بیگم ابھی بتانے کا ٹائم نہیں ہے. سب راستے میں بتا دوں گا. ابھی بس یہی سمجھ لو زندگی اور موت کا سوال ہے.”

فیروزہ بچوں کو بالتی ہیں. ان کو کہتی ہیں.” سامان وغیرہ تیارکر لو جلدی سے. ہم جا رہے ہیں.” نازو اپنی ماں سے کہتی ہے .”امی ہم کہاں جا رہے ہیں؟. بیٹا سوال نہیں کیا کرو جو کہا ہے وہ کرو ابھی بس.” لاہور ریلوے اسٹیشن پر بارہ بجے کی ٹرین کا اعلان ہوتا ہے.جس کی منزل اسالم آباد تھی. سکندر اپنے گھر والوں کے ساتھ سوار ہو جاتا ہے کچھ دیر میں ٹرین چلنے لگتی ہے. جو اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی. فیروزہ بیگم جو پریشان تھی اپنے شوہر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہے.

“سکندراس کو دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ بس ہم اپنی منزل تک پہنچ جائے پھر سب بتاؤں گا بس بھروسہ رکھو مجھ پہ ابھی.” ٹرین اسالم آباد ریلوے اسٹیشن پر رکتی ہے. مسافر اپنی منزل کی طرف جانے کے لیے ٹرین سے اترنا شروع ہو جاتے ہیں. جن میں سکندر کی فیملی بھی ٹرین
سے اترتی ہے. سکندر اپنی بیوی کا زیور بھیجتا ہے. اور ایک گھرکرائے پر حاصل کر لیتا ہے. اپنےایک دوست کی مدد سے جو اسٹیشن پر پہلے سے موجود تھا. وہ دوست جس کی سکندر نے ایک دفعہ جان بچائی تھی جب زبیر ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوا تھا. جب زبیر کو خون کی ضرورت پڑی تو سکندر نے اپناخون زبیر کو دیا تھا .سکندر اپنے دوست سے کہتا ہے.” کہ شکریہ یار میری بہت مدد کی تم نے.””ورنہ یہاں میں کسی کو جانتا بھی نہیں تھا. تو کون میری مدد کرتا.؟” ” یارشکریہ کس بات کا.؟ تو نے بھی تو میری مدد کی تھی. جب میں بے بس تھا.” سکندر کا دوست چال جاتا ہیں.—-
فیروزہ گھر میں سامان رکھتی ہے. اور سب کے لئے کھانے وغیرہ کا انتظام کرتی ہے. کھانا کھانے کے بعد سب آرام کرنے لگتے ہیں . “فیروزہ بچوں سے کہتی ہے . کہ وہ بھی جائیں اور تھوڑی دیر آرام کرلیں.”

سکندر اپنی بیوی سے کہتا ہے.” فیروزہ بیگم آج جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.”
” وہ نہ تو میں بھول سکتا ہوں اور نہ ہی میں اس کوجھٹال سکتا ہوں. مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے بہت بڑی غلطی کر دی ہےسچائی کو چھپا کر.” “میں سچائی کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہوں. ظلم کے خالف آواز نہیں اٹھا سکتا .جس وجہ سے شہر تک چھوڑ آیا ہوں” “فیروزہ کہتی ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں؟.” “پہیلیاں نہیں بجوائیں جو بات ہے صاف صاف کہیں.”
“سکندرتمام واقعہ اپنی بیوی کے گوش گزار دیتا ہے.”
“فیروزہ سکتے میں آ جاتی ہے. —”
“فیروز کہتی ہے. اچھاہوا ہم وہ شہر چھوڑ آئے ہیں. ورنہ وہ ظالم شخص ہمیں بھی جان سے مار دیتا.”
“نازو اور وقار دونوں پہلے سے ہی اس تجسس میں تھے .کہ وہ لوگ شہر چھوڑ کر کیوں آئے ہیں اسی لیے باہر دروازے پر کھڑے ہو کر اپنے والدین کی باتیں سن لیتے ہیں.”

وقت گزرتا ہے.—–
سکندر بطور ڈرائیور کام کرتا رہتا ہے. ایک نجی کمپنی میں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ڈیپریشن کا مریض بن چکا تھا. ” وہ یہی سوچتا رہتا کےصحافی کو انصاف ملنا چاہیے مجھے حق کا ساتھ دینا ہوگا .” وقار اور نازو یہ سب جانتے تھے. اور دونوں نے ارادہ کیا تھا .کے وہ صحافی کے حق میں آواز اٹھائیں گےتاکہ ابو جان کوسکون مل سکے. وقار سی ایس ایس کی تیاری کر رہا تھا.اورنازو ایل ایل بی کےسالانہ امتحانات کی تیاری کر رہی تھی.
آخر وہ دن بھی آگیا.—-
جب وقارسی ایس ایس آفیسر بن جاتا ہے .اور اسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز ہوتا ہے. نازولاء کا ٹیسٹ پاس کر لیتی ہے ساتھ میں اپنی چھ ماہ کی انٹرنشپ مکمل کر لیتی ہے. کچھ ہی دنوں میں اس کو وکالت کا الئسنس جاری ہو جاتا ہے. سکندربہت خوش ہوتا ہے اپنے دونوں بچوں کو دیکھ کر جنہوں نے اس کے خواب کو پورا کیا اور اس کی محنت کا صلہ دیا تھا.

فیروزہ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں .اور “وہ کہتی ہےکے میرا خواب تھا.کہ میرا بھی ایک عالیشان گھر ہو آج وہ خواب میرے بیٹے نے پورا کیا.”
“نازواپنے والد سے کہتی ہے. ابو جان آپ عدالت میں کیس دائر کر دے. میں آپ کا کیس لڑو گی.”
سکندر کہتا ہے. “بیٹی کون سا کیس.؟”
وہ کہتی ہے.” ابو جان ہم دونوں جانتے ہیں سب کچھ.”
” بس چپ تھے کہ کب ہم اس قابل ہو کہ آپ کا ساتھ دیں اور حق کے خالف آواز اٹھائیں. اب ہم آپ کو مزید اور اذیت میں نہیں دیکھ سکتے ہیں. فیروزہ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں .اورکہتی ہیں ٹھیک ہے ہم صحافی کے حق میں آواز اٹھائیں گے.”

“وقار کہتا ہے. “ابو جان آپ عدالت میں کیس دائر کریں. نازوں پوری محنت کرے گی اس کو جیتنے کی.”
“اور میں انکوائری کا حکم دے دیتا .اب کوئی بھی گنہگار انسان قانون کی نظرسے نہیں بچے گا. اس کو اس کے کیے کی سزا ضرور ملے گی. ہم حق کے خالف آواز اٹھانے میں کوئی خوف محسوس نہیں کریں گے.” واجد علی کے خالف سکندر کیس دائر کر دیتا ہے.اس کیس کو لڑنے کے لیے ان کی اپنی بیٹی تھی. ادھر وقار انکوائری کمیٹی بناتا ہے .جو واجد علی کے بنگلے میں جاتی ہے .اور تمام ترثبوتوں کے ساتھ واجد علی کو گرفتار کر لیا جاتا ہے. انکوائری کے دوران صحافی کی دفن ہوئی الش برآمد ہوتی ہے. عدالت میں کیس کی سماعت کا دن مقرر ہوتا ہے. وقار اپنی انکوائری کمیٹی کے ساتھ اور نازو اپنی کیس فائل کے ساتھ اور واجد علی کمرہ عدالت میں ہتھکڑی کے ساتھ داخل ہوتا ہے. کیس کی سماعت شروع ہوتی ہے. ادھر واجد علی کا وکیل دالئل پیش کرتا ہے .اور دوسری طرف نازو جو تمام ثبوتوں کے ساتھ واجد علی کے وکیل کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے.
آخر کار انکوائری کمیٹی کی رپورٹ پراور نازو کے دیئے ہوئے ثبوتوں کی بنا پر عدالت واجد علی کو سزائےموت اور عمر قید کی سزا سنا دیتی ہے.
واجد علی کے دوسرے گناہوں کا بھی پردہ فاش ہو جاتا ہے. جن کی سزائیں بھی مقرر کی جاتی ہے. واجد علی غریبوں کی زمینوں پر قبضہ اور تین قتل میں بھی ملوث پایا جاتا ہے.

عدالت کی سماعت ختم ہونے پر سکندر واجد علی کے پاس جاتا ہے. اور کہتا ہے. “جب میں شہر چھوڑ کر یہاں آیا تھا” تب مجھے فکر تھی اگر میں کچھ بوال تو تم مجھے بھی مار دو گے. پھر میرے بیوی بچوں کا کیا ہوتا وہ کہاں جاتے یا ہو سکتا تھا تم ان کو بھی ماردیتے.”

“لیکن آج یہی سب میری ہمت اور طاقت ہے.” “انہی کی بدولت آج تم سالخوں کے پیچھے ہو.” “بآلخر آج سچائی کی جیت ہوئی.” جس صحافی کا نام و نشان نہیں مل رہا تھا. صحافی کے بارے میں کہا جا رہا تھا. کہ وہ پتا نہیں کہاں چال گیا.کہی غائب ہوگیا. یہ ملک چھوڑ کر چال گیا.—– آج اس کا پتہ چال کہ وہ اس دنیا میں ہی نہیں ہے. صحافی کی بوڑھی ماں یہ آس لگائے بیٹھی تھی .کہ اس کا بیٹا آئے گا. لیکن جب اس کو پتہ چلتا ہے. کہ وہ واجد نامی
درندے کی گولی کا نشانہ بن چکا ہے. تو اس کے دل سے آہ نکلتی ہے ہیں. “کہ خدا تمیں آخرت میں کبھی سرخرو نہ کریں.”” دنیا و آخرت میں چین نصیب نہ کریں.” آج صحافی کو انصاف مل چکا تھا لیکن مال تو بہت دیر سے.

ِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

جو چپ رہے گی زباں

آج سکندر کو ایسا محسوس ہو رہا تھا. جیسے برسوں کا بوجھ اس کے دل سے اتر چکا تھا.
سکندر کو لگتا ہے “کہ اب وہ سکون کی نیند سو سکتا ہے.”
نازو آج بہت خوش تھی. کہ اس نے اپنا پہال کیس جیتا ہے.اور وقار نے جو کارنامہ سرانجام دیا تھا .اس کے افسران بہت خوش تھے. اس نے جو انکوائری رپورٹ تیار کی تھی اس کی وجہ سے اس کی خوب داد رسی ہوئی. “سکندر اپنے دونوں بچوں وقار اورنازو کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے. “اور اپنے کمرے کی جانب چال جاتا ہے. “ابو جان آپ کہاں جا رہے ہیں”؟. نازو پوچھتی ہے. ” کھانا نہیں کھائے گے.؟”” بیٹا مجھے بھوک نہیں ہے.”—- ” تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتا ہو.” نازوابو کو بالؤ. ” آج ہم سب باھر جائیں گے بہت انجوئےکریں گے.”—– “آج ابو بہت خوش ہے اس لئے آج ان کو بہت ساری شاپنگ کروائیں گے. ” ” ٹھیک ہے میں بالتی ہوں ابو کو.” ” تم امی کو بولو جلدی سے تیار ہو جائے پھر ہم سب مل کر چلیں گے. اور رات کا کھانا بھی باہر سے ہی کھا کر آئیں گے.”

نازو کمرے میں داخل ہوتی ہے.سکندر کو آواز دیتی ہے. “ابو جان! چلے ہم سب باہر چلتے ہیں. بہت مزہ آئے گا.” لیکن اسکندر آگے سے کوئی جواب نہیں دیتا. “تو قریب جاتی ہے اور دوباره آواز دیتی ہے.” جب سکندر کوئی حرکت نہیں کرتا .نازو گھبرا جاتی ہیں. اور آگے بڑھ کر سکندر کو دیکھتی ہے. نازو کی چیخ سنائی دیتی ہیں. “نازو کہتی ہے ابو جان آپ کو کیا ہو گیا ہے؟.” سکندر کوئی حرکت نہیں کرتا. فیروزہ کے گھر میں صف ماتم بچھ جاتا ہے. صحافی کو انصاف کیا مال سکندر بھی موت کی گہری نیند سو گیا