سامنے آنے والا ہر لمحہ نیا ہی ھوتا ھے جو لمحے میں گُزر کر پُرانا ھو جاتا ھے ،سالوں اور صدیوں کو یہ گزرتے لمحے حال بناتے بناتے ماضی میں تبدیل کرتے رہتے ھیں اور انسان اپنے اپکو کو بدلنے کی بجائے اج ،کل پر نظرے گھاڑے بس اچھے کی اُمید ہی کرتا رہتا ھے۔۔۔۔اج کو کل بننے میں دیر نہی لگتی ۔اپنے اج کو کل بننے سے پہلے اپنے اج کو سنبھالیے کیونکے شائد کل اپکی اللہ کے سامنے پیشی کا دن ھو ۔۔۔ہر اج کو توبے کا دن سمجھ کر کل رحمت کی اُمید رکھیئے ۔۔۔کیونکہ شائد تیرا اج ہی تیرا کل ھو ۔۔اور پھر کبھی اپکے لیے کل ہی نہ ھو ۔۔۔۔۔۔۔بدلنا ھے تو خود کو بدلئے وقت بدلنے کا اختیار انسان کے سامنے لگے انسان کے بنائے ھوئے کلینڈرز کا نام نہی بلکے خُدا کے بنائے ھوئے دن رات کے ساتھ چلتے سورج ،چاند ستاروں کی گردش کا نام ھے ۔۔۔
اج بھی سورج مشرق سے نکل کر مغرب میں ہی غروب ھوگا ۔۔۔۔جس دن یہ مغرب سے نکل کر مشرق میں غروب ھوگا وہی پھر وقت بدلنے کا نام ھوگا ۔۔۔۔اج بدلنا ھے تو ھم نے وقت نے نہی ۔۔قدم اُٹھائے اور نکلے اپنے بُرے عادات کی اندھیر نگری سے ،گُناہوں کے تاریک کمرے سے اور تبدیل کرے اپنے عادات سے بننے والے فضول روایات کو ،اپنے وسوسوں سے پیدا ھونے لاحاصل خواہشات کو،بغض اور حسد سے خود سے خود پر زندگی تنگ کرنے والے بے جا فسادات کو ۔۔۔پھر دیکھیں ہر لمحہ نئے احساس کے ساتھ زندگی میں کیسی نئی خوشبو بکھیر دیتی ھے۔۔۔۔۔۔کُل کے لیے اُمید ھمیشہ زندہ رکھے لیکن اج تبدیلی کا جدوجہد جاری رکھئے کیونکے کل ھو نہ ھو اج کل کی بنیاد ضرور ھے اور جس کل کا اج خراب ھو کل کبھی خوشگوار نہی بن سکتی ۔۔۔ اج اپ جس لمحے کو اپنا قرار دے کر کل اس لمحے کی ضیائع پر بے قرار رہتے ھیں اُسی اج کو اللہ نے بھی انسان کے لیے ایک غنیمت مانا ھے بشرتیکہ انسان وقت کے ان لمحات کو اپنے احساسات کی روشنی سے منور کرے ۔۔۔تاریخ کے بڑے چھوڑے سینے پے ھمیشہ اُن لوگوں کی تاریخ رقم ھوتی ھے جنہوں نے اپنے وقت کو درست وقت پر پہچان کر اپنی زندگی کو بدلہ ھے اور وہی لوگ ہی زندہ و جاوید بن کر سامنے ائے ھیں ۔۔
۔تاریخ انسانی کو اگر غور سے پڑھا جائے تو ہزاروں قبرستانوں میں پڑے ان گنت لوگوں میں سے بہت کم لوگوں کو جو پہچان ملی ھے وہ دراصل میں وقت کی عطا کردہ نہی بلکے اُن لوگوں کی اپنی محنت اور وقت کے ساتھ اُنکی محبت تھی جو اُنہوں نے خود کو بدل کر دُنیا کے سامنے اپنا ایک نام پیش کیا اور اُسی سورج اور چاند کی روشنی میں سانس لیتے ھوئے کارہائے نمایاں سرانجام دی جس میں اج ھم سانس لے رہیں ہیں ۔۔اُن کے لیے نہ کوئی خاص سورج چمکا تھا نہ کوئی مخصوص چاندنی ظاہر ھوئی تھی بلکے اسی ہوا میں خود کو بدل کر نہ صرف کلینڈر میں موجود ہندسوں کو اپنے نام اور کام سے جوڑا بلکے اُنکے لیے بھی مانوس بن گئے جنہوں نے کبھی اُنکی ایک جھلک بھی نہی دیکھی ۔۔۔اب انکے دن بھی منائے جاتے ھیں اور اُنکے کیک بھی کاٹے جاتے ھیں ۔۔۔اداروں پر انکے نام کی تختیاں بھی لگائی جاتی اور اُن اداروں میں انکے نام سے منسوب تاریخ بھی پڑھائی جاتی ھے۔۔
پس بدلنا ھے تو خود کو بدلئے وقت خود اپکو پھر نئے سحر کی نوید دے گی ۔۔