ایک دفعہ ایک چھوٹی سی بچی بھاگتی ہوئی ہاتھ میں مٹی کا گلک لیے ایک دوائیوں کی دوکان پر گئی وہ کافی دیر تک وہاں پر کھڑی رہی لیکن دکاندار کا دھیان نہیں گیا کیوں کہ وہاں پر اور بھی بہت سے لوگ تھے اس نے دوکاندار کو کئی بار بلایا لیکن وہاں پر بھیڑ اتنی تھی کہ دکاندار کو سنائی نہیں دیا
اور جب بچی کوتھوڑا سا غصہ آیا تو اس نے مٹی کی گلک کو اٹھا کر کاؤنٹر پر رکھ دی اس کے بعد دکاندار اور جتنے بھی لوگ وہاں پر کھڑے تھے بچی کی طرف دیکھنے لگ گئے اور پھر دوکاندار نے اس بچی کو پوچھا بیٹا کیا چاہیے اور پھر بچی نے معصوم الفاظ سے کہا کہ مجھے ایک چمتکار چاہیے یہ سن کر دکاندار کو کچھ سمجھ نہیں آیا اور نہ ہی وہاں کھڑے لوگوں کو بس سب اس بچی کی طرف دیکھ رہے تھے پھر دوکاندار نے کہا بیٹا چمتکار تو یہاں نہیں ملتا پھر بچی کو لگا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے تو اس نے کہا کہ گلک میں بہت پیسے ہیں آپ بتاؤ آپ کو کتنے پیسے چاہیے آج میں چمتکار لیکر ہی جاؤں گی
اور وہاں کاؤنٹر پر ایک اور آدمی کھڑا تھا اس نے بچی کو پوچھا کہ بیٹا کیوں چاہیے آپ کو چمتکار تب بچی نے اپنی کہانی بتائی کہ کچھ دن پہلے میرے بھائی کے سر میں بہت تیز درد ہوا میرے امی ابو اسے ہاسپٹل لے کر گئے اس کے بعد کئی دن تک میرا بھائی گھر نہیں آیا میں نے کئی بار ابو سے پوچھا تو انہوں نے یہی کہا کہ کل آ جائے گا کل آ جائے گا لیکن وہ آ ہی نہیں رہا تھا پھر ایک دن میں نے دیکھا کہ امی رو رہی تھی اور ابو امی سے کہہ رہے تھے کہ جتنے پیسے اس کی دوائیوں اور علاج کے لیے چاہیے اتنے میرے پاس نہیں ہے اب اسے کوئی چمتکار ہی بچا سکتا ہے
تب مجھے لگا کہ ابو کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں تو کیا ہوا میرے پاس تو ہیں اس لیے جتنے بھی میرے گلک میں پیسے ہیں میں لے کر اس دوائیوں کی دکان پر آگئی
پھر اس آدمی نے بچی سے پوچھا کتنے پیسے ہیں تمہارے پاس یہ سن کر بچی نے گلک زمین پر پھینک دیا اور پیسے گننے لگی باقی سب لوگ کھڑے ہوکر اسے دیکھ رہے تھے تھوڑی دیر بعد بچی نے کہا میرے پاس پورے 19 روپے ہے یہ سن کر آدمی مسکرایا اور کہا کہ بیٹا اتنے کا ہی تو آتا ہے چمتکار
اور وہ آدمی کوئی عام آدمی نہیں تھا
وہ ایک بہت بڑا نیو رل سرجن تھا جس نے صرف 19 روپے میں اس کے بھائی کی سرجری کی
کچھ دن بعد اس کا بھائی ٹھیک ہو کر گھر واپس آگیا پھر اس کی امی نے اس کے ابو سے پوچھا کہ اب تو بتا دو یہ چمتکار تم نے کیسے کیا اس کے ابو نے کہا یہ چمتکار میں نے نہیں ہماری بیٹی نے کیا
تو ہمیں اس بچی سے یہ سبق ملتا ہے کہ کبھی کبھی ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا اور ہم ہمت ہار جاتے ہیں تب ہمارے اندر ایک بچہ ہوتا ہے جو کوشش کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا وہ ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتا ہے کیوں کہ اسے لفظ سمجھ نہیں آتا ہے۔