Skip to content

ہمارے اندر کا وہ بچہ جو کبھی ہار نہیں مانتا

ایک دفعہ ایک چھوٹی سی بچی بھاگتی ہوئی ہاتھ میں مٹی کا گلک لیے ایک دوائیوں کی دوکان پر گئی وہ کافی دیر تک وہاں پر کھڑی رہی لیکن دکاندار کا دھیان نہیں گیا کیوں کہ وہاں پر اور بھی بہت سے لوگ تھے اس نے دوکاندار کو کئی بار بلایا لیکن وہاں پر بھیڑ اتنی تھی کہ دکاندار کو سنائی نہیں دیا

اور جب بچی کوتھوڑا سا غصہ آیا تو اس نے مٹی کی گلک کو اٹھا کر کاؤنٹر پر رکھ دی اس کے بعد دکاندار اور جتنے بھی لوگ وہاں پر کھڑے تھے بچی کی طرف دیکھنے لگ گئے اور پھر دوکاندار نے اس بچی کو پوچھا بیٹا کیا چاہیے اور پھر بچی نے معصوم الفاظ سے کہا کہ مجھے ایک چمتکار چاہیے یہ سن کر دکاندار کو کچھ سمجھ نہیں آیا اور نہ ہی وہاں کھڑے لوگوں کو بس سب اس بچی کی طرف دیکھ رہے تھے پھر دوکاندار نے کہا بیٹا چمتکار تو یہاں نہیں ملتا پھر بچی کو لگا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے تو اس نے کہا کہ گلک میں بہت پیسے ہیں آپ بتاؤ آپ کو کتنے پیسے چاہیے آج میں چمتکار لیکر ہی جاؤں گی

اور وہاں کاؤنٹر پر ایک اور آدمی کھڑا تھا اس نے بچی کو پوچھا کہ بیٹا کیوں چاہیے آپ کو چمتکار تب بچی نے اپنی کہانی بتائی کہ کچھ دن پہلے میرے بھائی کے سر میں بہت تیز درد ہوا میرے امی ابو اسے ہاسپٹل لے کر گئے اس کے بعد کئی دن تک میرا بھائی گھر نہیں آیا میں نے کئی بار ابو سے پوچھا تو انہوں نے یہی کہا کہ کل آ جائے گا کل آ جائے گا لیکن وہ آ ہی نہیں رہا تھا پھر ایک دن میں نے دیکھا کہ امی رو رہی تھی اور ابو امی سے کہہ رہے تھے کہ جتنے پیسے اس کی دوائیوں اور علاج کے لیے چاہیے اتنے میرے پاس نہیں ہے اب اسے کوئی چمتکار ہی بچا سکتا ہے

تب مجھے لگا کہ ابو کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں تو کیا ہوا میرے پاس تو ہیں اس لیے جتنے بھی میرے گلک میں پیسے ہیں میں لے کر اس دوائیوں کی دکان پر آگئی
پھر اس آدمی نے بچی سے پوچھا کتنے پیسے ہیں تمہارے پاس یہ سن کر بچی نے گلک زمین پر پھینک دیا اور پیسے گننے لگی باقی سب لوگ کھڑے ہوکر اسے دیکھ رہے تھے تھوڑی دیر بعد بچی نے کہا میرے پاس پورے 19 روپے ہے یہ سن کر آدمی مسکرایا اور کہا کہ بیٹا اتنے کا ہی تو آتا ہے چمتکار

اور وہ آدمی کوئی عام آدمی نہیں تھا

وہ ایک بہت بڑا نیو رل سرجن تھا جس نے صرف 19 روپے میں اس کے بھائی کی سرجری کی
کچھ دن بعد اس کا بھائی ٹھیک ہو کر گھر واپس آگیا پھر اس کی امی نے اس کے ابو سے پوچھا کہ اب تو بتا دو یہ چمتکار تم نے کیسے کیا اس کے ابو نے کہا یہ چمتکار میں نے نہیں ہماری بیٹی نے کیا

تو ہمیں اس بچی سے یہ سبق ملتا ہے کہ کبھی کبھی ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا اور ہم ہمت ہار جاتے ہیں تب ہمارے اندر ایک بچہ ہوتا ہے جو کوشش کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا وہ ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتا ہے کیوں کہ اسے لفظ سمجھ نہیں آتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *