بیت اللہ:
روۓزمین پر اللہ تعالی کی عبادت کے لیے بنایا جانے والا پہلا گھر خانہ کعبہ ہے۔قرآن کریم میں ہے کہ:”تحقیق پہلا گھر جو لوگوں کے لیے (عبادت کے لیے)مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو (بکہ) مکہ میں ہے۔بابرکت اور تمام جہانوں کے لیے موجب ہدایت ہے۔”(سورہ آل عمرآن: آیت نمبر؛96)
“بکہ”کے معنی ہجوم کی جگہ کے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی مکہ کے کئی نام ہیں ۔حاطمہ (غرورتوڑنے والا)،معاد (جاۓ پناہ )،باسہ (ملحدوں کو ہلاک کرنے والا)، ام القری ( شہروں کی ماں)،بلدالامین (پرامن شہر )، ام رحم،القرش ، اقادس،الطیبہ وغیرہ۔۔۔۔ازلی اور ابدی حرمت کی حامل ہونے کی وجہ سے مسجد حرام کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔اللہ تعالی کی عبادت کا خالص مرکز ہونے کی بناء پر “بیت اللہ” کہا جاتا ہے ۔قرآن مجید میں اسے کئی جگہ پر مسجد حرام کہا گیا ہے۔ترجمہ:””پس اپنا چہرہ مسجد حرام کی جانب پھیر لو۔(سورہ بقرہ: آیت؛14)ترجمہ:”وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات میں اپنے بندے کو مسجد حرام (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی(بیت المقدس) تک جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔”(سورہ بنی اسرائیل: آت؛1)
مسجد حرام سے وہ کشادہ صحن مراد ہے جو کعبہ کے گرد بیرونی دیوار تک پھیلا ہوا ہے ۔آئندہ مسجد کے صحن میں جو بھی اضافہ اور وسعت ہو گی وہ مسجد حرام میں شامل ہے ۔مسجد حرام سےوہ کشادہ صحن مراد ہے جو کعبہ کے گرد بیرونی دیوار تک پھیلا ہوا ہے ۔کعبہ کی بنیاد رکھنے کےبعد حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت جبرائیل کے ایماء پر مکہ مکرمہ کے چاروں طرف حد بندی کرکے نشان کے پتھر گاڑے ۔مکہ سے جدہ کی سمت گیارہ میل ،جعرانہ کی جانب چھ میل یمن کے راستے پر مقام اضاۃ کی طرف سے سات میل اور مدینہ منورہ کی جانب سے آتے ہوئےتنعیم ہے جو مکہ سے صرف تین میل ہے۔
دین حنیف کی تجدید کرنے ولے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم کے نشانات حرم میں از سر نو واضح بنوا دیے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کہ مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب عام مسجدوں میں ایک لاکھ مرتبہ نماز پڑھنے کےبرابر ہے ۔مسجد حرام کرہ ارض پر سب سے زیادہ حرمت والی جگہ ہے۔”
تعمیر کعبہ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں ،حضرت سارہ اور اسحاق علیہ السلام کے ساتھ مقیم تھے کہآپ کو تعمیر کعبہ کا حکم ہوا ۔اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر 106 سال ،حضرت اسماعیل کی20 سال اور حضرت اسحاق کی 7 سال تھی۔عرش الہی کے نیچے ساتویں آسمان پر فرشتوں کا کعبہ ہے جس کا نام بیت المعمور ہے ۔اور پھر اللہ کے حکم سے زمین پر کعبہ تعمیر کیا جو ساتویں زمین کے نیچے ہے ۔اس طرح کعبہ کی پہلی تعمیرفرشتوں سے منسوب ہے ۔اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ جس طرح زمین اور آسمان کے نیچے میرا گھر ہے اسی طرح تم زمین پر تیار کرو اور جس طرح فرشتوں کو طواف کرتے دیکھا ہے اسی طرح تم بھی کرو ۔آپ مقام تلاش کرنے کے لیے نکلے ۔آخر آپ مکہ آپہنچے اور یہیں کعبہ تعمیر کیا ۔جسم میں ناف بھی عین وسط میں نہیں ہوتی ۔اسی طرح مکہ زمین کی ناف دنیا کا وسط اور ام القراء (شہروں کی ماں)ہے۔ حضرت ابراہیم عہ نے کعبہ تعمیر کیا یہاں نماز پڑھی اور اولین طواف کیا۔
مقام ابراہیم:
کعبتہ اللہ کی دیواریں جب ہاتھ کی بلندی تک چن گئیں تو حضرت اسماعیل عہ ایک پتھر لائے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم نے دیواریں مزید بلند کیں ۔اس پر معمار حرم کے نشان قد اب تک موجود ہیں ۔اسی کو مقا م ابراہیم کہتے ہیں۔
حجر اسود:
خانہ کعبہ کی بنیادوں کو بلند کرتے ہوئے ایک خاص مقام تک پہنچے تو حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹےسے فرمایا کہ سنگ اسود تلاش کرکے لاؤ حضرت اسماعیل ایک پتھر اٹھا لائے تو رکن کے پاس حجراسود کو موجود پایا ۔تعجب سے پوچھا اس کو کون لایا ؟فرمایا تم سے چاق و چوبند نے (اشارہ تھافرشتے کی طرف) یہ کہہ کر اسے اسکےرکن پر لگایا گیا جہاں سے طواف کا آغاز مقصود تھا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:”حجر اسود جنت سے آیا ہے ۔ یہ دودھ سے زیادہ سفید تھا بنی آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا۔”
چاہ زم زم:
مسجد حرام کا یہ کنواں ” بثر اسماعیل ” بھی کہلاتا ہے ۔زم زم ” چشمۂ آب بقاء “ہے ۔شیر خواراسماعیل عہ نے جس مقام پر جاں بلب کیفیت میں ایڑیاں رگڑی تھیں وہاں جبرائیل عہ نے اپنی ایڑی ماری تو پانی کا جھرنا پھوٹ پڑا ۔حضرت بی بی ہاجرہ متحیر ہو کر پانی جمع کرنے لگیں ۔”زم زم ” جس کے معنی ” ٹھر ٹھر ، وافر پانی ، کثیر (بہت)،چھوٹے چھوٹے جرعوں میںپینا۔”انہوں نے اس کی حد باندھی تاکہ پانی محفوظ رہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
“ام اسماعیل عہ اگر پانی کو اپنے حال پر رہنے دیتیں تو پانی جاری رہتا۔”
غلاف کعبہ:
کعبتہ اللہ کے لیے سب سے پہلا پردہ یا غلاف حضرت اسماعیل عہ نے بنوایا ۔صدیوں بعد پھر عدنان نے یہ شرف حاصل کیا ۔اکثر قبیلوں کے سردار کعبہ کی زیارت کو آتے تو مختلف رنگوں کے پردے لاتے ۔یہ کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیے جاتے۔قریش نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے پانچ سال پہلے کعبہ کی تعمیر نو کی تو بڑے اہتمام سے غلاف بھی چڑھایا ۔مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے غلاف چڑھایا اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔
تیرے گھر کے پھیرے لگاتا رہوں
میں سدا شہر مکہ میں آتا رہوں
mashallah…keep it up
informatve…
good
دسویں محرم الحرام کےدن کونسے بڑے بڑے فیصلے ہوئے؟ - نیوز فلیکس