8 مارچ کو ساری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے ذاتی ملکیت کے آغاز سے ہی عورت کو بھی انسان کی بجائے ایک ملکیتی چیز ہی سمجھا جاتا رہا ہے جیسے زمین ،جانور یا کوئی شے وغیرہ۔ بیسویں صدی کے آغاز سے امریکی خواتین نے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا پھر تب سے لے کر آج تک ساری دنیا کی عورتيں اپنے حقوق اور آزادی کے لیے پوری ایک صدی سے جدوجہد کررہی ہیں اور انہوں نے تعلیم،روزگار،سیاست،انتظامی امور یہاں تک کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا لوہا منوا لیا ہے ۔
خواتین کی آزادی نا صرف ان کے حقوق سے جڑی ہے بلکہ یہ ایک طبقاتی مسلہ بھی اور ہر طبقاتی مسلہ سیاسی مسلہ ہوتا جس کے لیے پوری جدوجہد کرنا ہی حقیقی آزادی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ دنیا میں دو طبقات ہیں پہلا طاقتور اور دوسرا کمزور طبقہ کہلاتا ہے ۔جس طرح طاقتور مرد،عورت یا پھر تیسری جنس ہوسکتے ہیں اسی طرح عورت مرد اور تیسری جنس کمزور طبقہ سے بھی ہوسکتے ہیں ۔ یہاں معاملہ گڑبڑ کیوں ہوتا ہے تو اس کے لیے ہمیں عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ مثال کے طور پرایک عورت ، صنعتکار ہے ،آفیسر،وزیر یا پھر ملازم پیشہ ہے تو کیا وہ ایسی عورت کے برابر ہوسکتی ہے جو کھیت مزدور یا پھر گھریلو طور پر مرد پہ انحصار کرتی ہے اس عورت کے برابر ہے جو معاشی طور پر خودمختار اور خودانحصار ہے ۔ عورتيں اگر مظلوم ہیں تو عورتيں ظالم بھی ہوسکتی ہیں۔ چھوٹے بچے بطور گھریلو ملازم زیادہ تر عورتوں کے تشدد کا شکار ہوتے ہیں .
اور کتنی بچیاں اور بچے گھریلو تشدد کی وجہ سے اپنے اجزاء اور جان سے محروم ہوچکے ہیں ۔ یہ سب مسائل طبقاتی ہیں اور ان کا حل بھی طبقاتی ہی ہے نا کہ این جی اوز کا آزادی کا نعرہ محض ایک لاحاصل کوشش ہے جس سے کچھ برآمد نہیں ہوسکتا بلکہ مایوسی اور انتہاپسندی کی طرف لے کر جاتا ہے ۔ کسی دانشور نے کہا تھا کہ ہم نے صرف معاشرے میں طوائف کو خودمختار دیکھا ہے اس لیے ہمیں ہر خودمختار عورت طوائف لگتی ہے اس لیے ضروری ہے پہلے خواتین کو حقوق دلوانے کے لیے جدوجہد کی جائے.
جس میں تعلیم کا حق ، جائیداد میں حق، اپنی مرضی کا جیون ساتھی چننے کا حق ، روزگار والی جگہ پر جنسی ہراسانی سے بچاؤ اور غیرت کے نام پر قتل جیسے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد شامل ہے۔ خواتین کو اپنے حقوق مردوں کی شمولیت کے بغیر ملنا ناممکن ہے اس کے لیے طبقاتی سیاسی جدوجہد ہی واحد ایک راستہ ہے جو عورت کو انسان کے روپ میں حقوق دے سکتا ہے اور عورتوں کی آزادی پورے معاشرے کی آزادی سے وابستہ ہے ورنہ کوئی ایک طبقہ جدوجہد سے حقوق تو حاصل نہیں کرسکتا بلکہ وہ اپنی آزادی کی جدوجہد سے دوسرے محروم طبقات کے استحصال کا سبب بنتا ہے اور وکلاء تحریک اس بات کی واضح مثال ہے آخر میں طبقاتی جدوجہد ہی مظلوم طبقات کی آزادی کی ضمانت ہے کیونکہ مزدور ،کسان،طلباء ،سرکاری ملازم اگر الگ الگ ہوکر اپنے حقوق کی جدوجہد کرتے ہیں تو وہ عارضی طور پر ہی معاشی سہولیات حاصل کرپاتے ہیں اور حکمران یا طاقتور طبقہ ان کی تقسيم سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے اس لیے ایک ہی طریقہ ہمیں اجتماعی آزادی دلوا سکتا ہے کہ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاو
نیوز فلیکس08مارچ2021