آج کی اس بھیڑ بھاڑ کی زندگی میں جہاں ہر انسان اپنی ذات میں تنہا ہے، جہاں ہر کوٸ اپنے دل کا غبار اپنے اندر چھپاۓ بیٹھا ہے، جہاں ہر انسان ہر ایک مسکراہٹ کے پیچھے ایک روگ لگاۓ بیٹھا ہے ، جہاں ہر ایک ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھاۓ اپنے اندر کی توڑ پھوڑ کو سنبھالے بیٹھا ہے۔۔۔ہر ایک کو ایک کَندھا درکار ہے. وہ کندھا جس پہ سر رکھ کر دنیا کے سارے غم کم لگنے لگیں ۔ جس پہ سر رکھ کر اپنے وجود کی تھکاوٹ کم لگنے لگے۔ جس پہ سر رکھ کر دل کے غبار دُھل جاٸیں۔ جس پہ سر رکھ کر انسان پھُوٹ پھُٹ کر رو سکے، اپنے دل کی آہ و بکاہ کھول سکے۔ جس پہ سر رکھ کر جتنا رویا جاۓ اُتنی ہی جینے کی ہمت بڑھتی جاۓ۔ جس پہ سر رکھ کر زندگی پھر سے خوبصورت لگنے لگے۔ جس پہ سر رکھ کر رَب کی محبت محسوس ہو سکے۔ جس پہ سر رکھ کر اپنے وجود کی اہميت معلوم ہوسکے۔
پر سوال یہ ہے کہ یہ کندھا کہاں ملے گا!!؟
یہ کندھا کس کا ہے؟؟
یہ کندھا آپ ہیں……..آپ خود…!!
کیا سوچا کبھی آپ نے ؟ ہم صرف اسی تلاش میں کیوں رہتے ہیں کہ ہمیں یہ کندھا ملے۔۔۔ ممکن ہے کہ ایسا کندھا آپ کو ڈھونڈنے سے نہ ملے مگر جب آپ خود یہ کندھا بن جاٸیں تو یقیناً ایک دن آپ کو بھی یہ کندھا میسر ہوگا۔ یہ قدرت کا قانون ہے جب آپ دوسروں کو کچھ دینا شروع کردیتے ہیں تو وہ چیز خود بہ خود آپ تک پہنچ کر ہی رہتی ہے، جو آپ دیں گے ، گھوم پھر کر آپ کو وہ ملنے لگے گا. یہ قدرت کا انصاف ہے۔ قدرت کا یہ اصول آپ کے دیے ہوۓ دھوکے بھی کسی نہ کسی مقام پہ آپ کو واپس لوٹا دیتا ہے، آپکی کی ہوٸ خیر اور نیکی بھی آپ کو کسی نہ کسی صورت میں آپکو دے دیتا ہے ، آپکا کیا ہوا صبر بھی کسی نہ کسی راحت کی صورت میں بخش دیتا ہے، آپکے دُکھ کے آنسوٶں کو خوشی کی آنسوٶں میں تبدیل کردیتا ہے. قدرت آپکا ہر عمل اپنے حساب میں سنبھال کر رکھتی ہے ۔
تو کیوں نہ ہم کندھا ڈھونڈنے کے بجاۓ کندھا بننا شروع کردیں۔ آج سے۔۔۔ابھی سے۔۔۔
ہم لوگوں کے لیے وہ کندھا بننا شروع کردیں جسکی ہمیں خود ضرورت ہے ۔ جو کندھا ہمیں چاہیے آنسو بہانے کیلیے، ہمت بڑھانے کیلیے۔ شاید دنیا کے ہر انسان کو یہ کندھا چاہیے ۔ شاید جتنا بوجھ آپکے دل پہ ہے ، اتنا ہی بوجھ ہم سے جڑے ہمارے اردگرد کے تمام انسانوں پر بھی ہے۔ تو کیوں نہ ہم انسانوں کے اَن کہے جذبات اور احساسات کو آج سے ہی محسوس کرنا شروع کریں۔ کیوں نہ ہم لوگوں کے اَن دیکھے آنسوٶں کو پڑھنا شروع کریں۔ کیوں نہ سب کی مسکراہٹوں کی پیچھے چھُپی ہوٸ درد کی شدت کو ہم آج سے ہی جاننا شروع کریں۔
آج سے ہم وہ کندھا بن جاٸیں جو ہر وقت ، ہر لمحہ ہر کسی کو میسر ہو ، ہم وہ کندھا بن جاٸیں جس پہ دوسرا انسان اپنے دل کا غبار دھو کر جینے کے لیے پھر سے کھڑا ہو سکے۔ ہم وہ کندھا بن جاٸیں جس سے معاشرے میں زندگی ”جینے“ کا احساس پیدا ہوسکے ، نہ کہ ”گزارنے“ کا۔
ہم وہ کندھا بن جاٸیں جس پہ سر رکھنے والا بھی خود کندھا بن جاۓ۔ یوں کندھے سے کندھے ملتے جاٸیں اور ایک امید کی لڑی بنتی جاۓ۔۔۔ جو معاشرے میں کھوۓ ہوۓ احساس، جذبات، حوصلوں، خوشیوں، رنگینیوں اور محبتوں کو اپنے اندر پِرو لے۔۔اور ایک پُر سکون اور کامیاب زندگی کی چمک ہر کونے تک پہنچا سکے۔ ایسی چمک جو اندھیروں کو بلکل مٹادے۔ جو معاشرے کے ہر خلا کو پُر کردے۔ جو انسان کو صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کہلاوانے کی حقدار بناۓ۔ شروعات بس ہم نے کرنی ہے۔ ہماری ذرا سی اُمید، ذرا سی حوصلہ افزاٸ ، ذرا سا سہارا کسی کو نٸی زندگی دے سکتا ہے ،
ہم نے کندھا ڈھونڈنا نہیں۔۔۔۔کندھا بننا ہے!!
از قلم:
دُعا لقمان