ارے موضوع پڑھ کر آپ کیا سوچنے لگے ہیں، رکیے ہم سیاسی بھکاریوں کی نہیں بلکہ ان بھکاریوں کی بات کر رہے ہیں جو ہمیں گلی کوچوں،چوراہوں اور ٹریفک سگنلز پر نظر آتے ہیں. ویسے یہ بھکاری بھی سیاسی بھکاریوں سے کم نہیں ہیں، یہ بھی حقدار کا حق کھاتے ہیں اور ڈھٹائی میں ان سے بھی آگے ہیں، اگر انکو بھیک مانگنے سے روکا جائے تو بولتے ہیں کہ یہ ہمارا آباؤاجداد کے وقت سے زریعہ معاش ہے.
گویا بھیک یہ مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ پیشہ سمجھ کر مانگتے ہیں، جیسے کوئی ڈاکٹر بنتا ، کوئی پائلٹ تو کوئی استاد تو اسی طرح ان کے نزدیک بھکاری بننا بھی ایک پیشہ ہے. ان گداگروں میں اداکاری کا ہنر بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے، انکی دکھ بھری داستان سن کر سخت سے سخت دل پسیج جاتا ہے. اگر یہ اپنے اس ٹیلنٹ کو اداکاری میں آزمائیں تو کوئی نہ کوئی ایوارڈ ضرور جیت جائیں گے۔.
پاکستان میں 2.5-2 بلین گداگروں کی تعداد پائی جاتی ہے. پاکستان دوسری اقوام کی طرح اس کو اتنی اہمیت نہیں دے رہا ہے. بھکاریوں کی اتنی بڑی تعداد نے شہریوں کا باہر نکلنا محال کر دیا ہے، کسی سگنل یا چوراہے پر کھڑے ہوں تو ان کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے. معصوم بچے بھی اس کام میں شامل ہوتے ہیں اور انھیں تعلیم سے دور رکھ کر گداگری کی میراث سے نوازا جاتا ہے. معصوم ہاتھ کتابوں کی بجے کشکوک تھامے امداد کے منتظر ہوتے ہیں. بھیک مانگنے کی منڈی اتنی سادگی سے کام نہیں کرتی، پورا مافیا ہے اور جرائم کا سلسلہ بھی اس سے وابستہ ہے۔ یہ لوگ سمگلنگ، اغوا، منشیات کے کاروبار اور نقب زنی جیسے جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں.گداگری پاکستان میں غربت اور مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک کاروبار کی صورت میں پروان چڑھ رہی ہے. حکومت وقت کو ان کے خلاف سخت قوانین بنا کر اس ناسور کو جڑ سے اکھیڑنا ہو گا۔