کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے یہ جملہ خواجہ محمد آصف نے کچھ سال قبل اسمبلی کے فلور پر بولا تھا اور پھر یہ جملہ ہماری سیاست کا تکیہ کلام بن گیا اور ہر سیاسی پارٹی اور سیاسی لیڈر اپنے مخالف سے کہتا سنائی دیتا تھا کہ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے گھڑھی خدا بخش والے جلسے میں مریم نواز اور بلاول بھٹو کو ایک اسٹیج پر دیکھ کر ہر غیرت مند سیاسی کارکن یہ کہہ رہا تھا کہ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے یہ وہی گڑھی خدا بخش ہے جسے مریم نواز کے والد محترم میاں محمد نواز شریف نے نشان عبرت قرار دیا تھا یہ وہی گھڑی خدا بخش ہے جہاں مادر جمہوریت کی قبر ہے جسے میاں محمد نواز شریف نے برطانیہ کی ایجنٹ کہا تھا اور ان پر طرح طرح کے گھٹیا الزامات لگائے جو کسی شریف النفس انسان زیب نہیں دیتے اور پھر انہیں قبروں کے پاس مریم نواز چیخ چیخ کہ جمہوریت کا راگ الاپ رہے تھے اور یقینا ان قبروں سے آواز آ رہی ہوگی کہ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے
یہ مملکت خداداد بھی ہے جہاں سیاست ذاتیات سے شروع ہوکر ذاتیات پر ہی ختم ہو جاتی ہے
بحرحال کل گڑھی خدا بخش میں بلاول بھٹو زرداری نے بھٹو خاندان کے نظریے کو ایک نئی قبر کھود کر دفن کر دیا کل اسی جگہ بھٹو شہید کی قبر کے پاس آصف علی زرداری کے وہ الفاظ گونج رہے تھے کہ میں نے اور میری بیٹی نے میاں نواز شریف کو ایوان صدارت میں خوش آمدید کہا اور ان کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے اب خدا ہی جانتا ہے کہ بھٹو صاحب قبر میں یہ الفاظ سن کے کتنے بے چین ہوئے ہوں گے بھٹو کی پیپلز پارٹی کی ساری زندگی جابر سیاسی تاجروں کے خلاف جدوجہد میں گزری تھی وہ سیاسی تاجر آج ان کی قبر پر آ کے اپنے اقتدار کی جنگ لڑ رہے تھے ۔ اس جلسے کے بعد ایک بات کا تو اندازہ ہوگیا کہ بھٹو کا نظریہ اب دفن ہو چکا ہے اور اگر بھٹو کا نظریہ دفن ہو گیا تو تاریخ شاہد رہے گی کہ پیپلز پارٹی اپنی موت آپ مر جائے گی کیونکہ نظریے سے پیچھے ہٹنا کسی بھی فرد پارٹی یا تحریک کی موت کے مترادف ہوتا ہے اور اگر بھٹو کا نظریہ سیاست سے ختم کیا گیا تو یہ سکوت ڈھاکہ سے بڑا سانحہ ہو گا اور پھر ہمیشہ کے لئے غریب کی آواز دب کر رہ جائے گی اور یہ ملک پھر سے وڈیروں تاجروں اور جاگیرداروں کے ہاتھ کا کھلونا بن جائے گا