عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ کے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا سکتے ہیں کہ امریکہ اپنے دفاع پر سالانہ 500 ارب امریکی ڈالر خرچ کرتا ہے۔ دنیا امریکی فوج کو بہترین فوج مانتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس نمبر ون فوج کاحشر عراق اور افغانستان میں جو ہوا اس کو ہم امریکی اور نیٹو افواج رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔ جی ہاں دوستو یہ وہی امریکی فوج ہے ۔
جسے ایک عراقی بچے نے لاکھوں چنے چبوائے۔ اس چودہ سال مجاہد کی داستان سن کر آپ کے ہوش اڑ جائینگے۔ کہ کس طرح اس ننھے مجاہد نے تن تنہا چار سو کی فوج کو تگنی کا ناچ نچایا۔یہ 14 سالہ مجاہد جس کا نام مصطفی حسین ہے ہے سابق عراقی صدر صدام حسین کا پوتا ہے۔جو کہ امریکی فوج کے ساتھ آخری دم تک لڑتا رہا۔
دوستوں آپریشن میں حصہ لینے والے امریکی سولجر جنہوں نے آپریشن شروع کیا تو مصطفی حسین نے ان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ جس کی وجہ سے پانچ امریکی کمانڈوز موقع پر مارے گئے۔مصطفی حسین نے اکیلے 400 امریکی کمانڈوز کی پیش قدمی کو روکے رکھا۔فائرنگ کے شدید تبادلے کے دوران مصطفی کے والد اور چچا شہید ہو چکے تھے اور یہ ننھا مجاہد تن تنہا امریکی کمانڈوز پر آگ برسا رہا تھا۔اگرچہ مصطفی حسین بہت سال کم تھی مگر جنگی مہارت میں اپنی مثال آپ تھے۔دوستوں یہ ہر دو منٹ کے بعد اپنی پوزیشن اور جگہ بدل لیتا کہ امریکی سولجرز کو باور کروے کہ دشمن تعداد میں زیادہ ہے۔حالانکہ مورچے میں اکیلا مصطفی حسین ان کے ساتھ لڑ رہا تھا۔مسلسل چھ گھنٹے لگا تار مصطفی حسین امریکی فوج سے لڑتا رہا اس دوران امریکی فوج نے جنگی ہیلی کاپٹر طلب کیے مگر شدید بارش اور طوفان کی وجہ سے گن شب ہیلی کاپٹر کا آنا ممکن نہیں تھا۔اس دوران بیس امریکی فوج ہلاکاور متعدد زخمی ہو چکے تھے۔
امریکی کمانڈوز آپریشن کی نیت سے وہاں پہنچ تھے اب وہ اپنا دفاع کرنے کی حالت میں پہنچ چکے تھے۔فائرنگ کا تبادلہ اگلے چھ گھنٹے تک لگا تار جلتا رہا اور امریکی فوج پیش قدمی کے بجائے پیچھے ہٹتی رہی تھی۔اب چھ گھنٹے گزر چکے تھے مصطفی حسین کے ران اور کندھے پر ایم 16 کی گولیاں گھس چکی تھی لیکن پھر بھی یہ مجاہد دشمن کے آگے نہیں جوکا۔جس جگہ سے مصطفی فائرنگ کر رہاتھا اسی جگہ امریکی فوج نے ہیوی فائر شروع کیا ۔
مصطفی حسین کے جسم سے کافی خون بہہ چکا تھا اس لیے وہ اپنی پوزیشن تبدیل نہ کر سکا اور یوں جام شہادت نوش کیا۔
جب امریکی فوج مورچے میں داخل ہوئی تو ان کے لیے یقین کرنا مشکل تھا وہ تو چھوٹا بچہ تھا جس سے وہ چھ گھنٹے لگا تار لڑائی جاری تھی۔سب سے زیادہ حیرانی کی بات تھی وہ اکیلے لڑ رہا تھا۔