ترکی اور سلطنت عثمانیہ کا نام سنتے ہی چند سوالات ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں کہ اس قوم کا تعلق کہاں سے تھا اور کس طرح انہوں نے قدیم تاریخ اور تہزیب کو ثقافت میں اپنے وجود اور نام کو زندہ رکھا اور ابھی تک اپنی عزت و وقار کو قائم رکھے ہوئے ہیں ۔
ترک قوم کی تاریخ بہت قدیم ہے جو 3000 سال قبل مسیح تک پھیلی ہوئی ہے ۔ترک قوم کو دنیا کی قدیم ترین قوموں میں جانا جاتا ہے ۔ان کا تعلق وسط ایشیا سے تھا ۔ترک قوم کو قدیم دور میں ترکمان کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔وسط ایشیا میں ان کے علاقے کو ترکستان کہا جاتا تھا ۔تاریخی لحاظ سے ترکستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔مشرقی ترکستان اور مغربی ترکستان،مغربی ترکستان میں آج کے دور کے علاقوں میں قازقستان،تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان ، کرغزستان اور روس کے سرحدی علاقے شامل تھے ۔جبکہ مشرقی ترکستان میں چین کے سرحدی علاقے جن میں سنکیانگ ، کاشغر اور منگولیا کا سرحدی علاقے شامل تھے۔
چھٹی صدی عیسوی میں پہلی بار اس علاقے میں ترک ریاست قائم ہو گئی تھی اور تقریباً آٹھویں صدی عیسوی یہاں اسلام کا دور دورہ ہوا۔عباسی خلافت کے زوال کے بعد ترک کے سلجوق قابض ہو گئے جبکہ بعد ازاں عثمانی ترک ایشیائے کوچک کو چھوڑ کر یہاں آباد ہو گئے ۔1299 میں عثمان اول نے عثمانیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی پھر ترکی کا دائرہ اختیار بڑھتا گیا اور صدی کے اختتام تک مصر، عرب ، شام ، عراق ، ہنگری اور طرابلس ت رسائی حاصل ہو گئی ۔ترکوں نے1669 میں جزیرہ کریٹک پر بھی اپنا پرچم لہرا دیا ۔لیکن سترہویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کا زوال شروع ہو گیا اور 1912 تک ہنگری ، کریمیا ، یونان، بلقاریہ، بلغاریہ ،بوسنیا اور البانیہ وغیرہ ترکی کی سلطنت سے آزاد ہو گئے ۔
پہلی جنگ عظیم میں ترکوں نے جرمنی کا ساتھ دیا لیکن کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور 1920 میں نوج ترکوں کے سلطان عبدالحمید کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور انقرہ کو حکومتی مرکز بنا لیا۔ پھر مصطفیٰ کمال اتاترک کی زیرقیادت ترک فوج یونان کو ترکی سے نکالنے میں کامیاب ہوئ اور 29 اکتوبر 1923 کو ترکی ایک آزاد جمہوری ملک بن گیا اور مکانیت اور خلافت کا اثر زائل کر دیا گیا۔دوسری جنگ عظیم میں ترکی نے کسی کا ساتھ نہ دیا اور غیرجانبداری کا مظاہرہ کیا۔1952 میں ترکی نیٹو کا رکن بن گیا ۔1957 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کامیابی ہوئی اور عدنان مندریس وزیراعظم بنا ۔پھر جنرل جمال نے عدنان مندریس کو 1960 میں تختہ دار پر لٹکا دیا اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔پھر اس کے بعد ترکی میں سیاسی رسہ کشی عروج پر پہنچ گئی اور 1979 میں مزید چھ صوبے مارشل لاء کے زیر عتاب آ گئے۔جنرل کنان نے11 ستمبر1980 کو اقتدار پر قبضہ کر لیا۔تاہم 1983 میں جمہوری حکومت کو بحال کر دیا گیا۔پھر اس کے بعد 1989 میں تزک اوزال ک سات سال کے لیے صدارت دی گئی۔مگر اپریل 1993 میں سابقہ وزیراعظم سلیمان ڈیمرل ملک کے صدر منتخب ہو گئے۔یوں ملک میں وزارتوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا۔
ترکی میں 1999 میں ایک خوفناک زلزلہ آیا جس میں چالیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے۔لیکن ترکی معاشی لحاظ سے اپنی حالت کو برقرار رکھنے میں جلد کامیاب ہو گیا۔جنوری 1999 میں بلند ایجوت اور ان کے بعد رجب طیب اردگان وزیراعظم بنے۔اس وقت ترکی میں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے۔ عبداللہ گل صدر اور رجب طیب اردگان وزیراعظم ہیں۔ترکی کا دارلحکومت انقرہ ہے جبکہ سب سے بڑا شیر استنبول ہے۔انتظامی لحاظ سے ترکی کو81 صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔جن میں سے19 صوبوں کی آبادی ایک ملین افراد سے بھی تجاوز کرچکی ہے جبکہ بقیہ صوبوں میں ہر صوبہ تقریباً ایک ملین سے پچاس لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔نسلی لحاظ سے ملک میں80% ترک نسل کے لوگ اور 20% کرد نسل کے لوگ آباد ہیں۔ ملکی آبادی98.7% مسلمانوں پر مشتمل ہے۔