Skip to content

ہم بھی رشک آسماں تھے۔۔۔۔شاہ حسین

ہمارا عروج۔۔
ایک وقت تھا جب دنیا پر مسلمانوں کا راج تھا،ایک زمانہ تھا جب اسلام کا طوطی بولتا تھا،دنیا کے کونے کونے میں اسلام کے گیت گائے جاتے تھے۔
جی ہاں جب اندلس ہمارے پاس تھا،سمر قند،بخارا،بغداد پر ہماری حکومت تھی،رئی،ایران و فارس ہمارے زیر اثر تھا۔اندلس جو طارق بن زیاد نے کشتیاں جلا کر فتح کیا تھا ہمارے علم کا مرکز تھا،بغداد اسلامی قلعہ تصور کیا جاتا تھا،سمر قند اہل علم وہنر میں مشہور تھا،جب دنیا پر ہمارا راج تھا،دنیاہم سے خوف زدہ تھی،کفریہ طاقتیں یہاں آکر دھب جاتی تھیں،اسلامی فتوحات روز برو بڑھ رہے تھے۔تب اچانک تاریخ رک سی گئی اور ہم پیچھے کو چلنے لگے۔
ہمارا زوال کیسے شروع ہوا۔۔۔
یہ تاریخ ہے کہ لوگ فاتح قوم کو سرہاتےہیں ،انکی بود و باش اپنایا جاتا ہے اور انکی زبان و تعلیم میں مہارت حاصل کی جاتی ہے۔ایسا ہی کچھ اندلس میں بھی ہوا تھا۔یورپ نے علم و فن میں کمال حاصل کرنے کے لیے اندلس کا رخ کیاعربی زبان میں مہارت حاصل کرنے لگے اور اپنے ملک کا کر اپنی زبان میں عربی کے الفاظ ملانے میں فخر محسوس کرنے لگے۔عربی میں کمال حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا لیکن یورپ نے ایسا کر دکھایا اور اپنی علم کا ڈھنڈورہ پیٹنا شروع کیا۔
زبان سے بے رخی۔۔۔
سب سے پہلے ہم نے زبان سے بے رخی اختیار کی جس کی سزا آج تک ہمیں مل رہی ہے۔ترکی پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب عربی زبان پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔
تعلیم سے بے رخی ۔۔۔
دوسری بات جس نے ہمیں زوال کی طرف دھکیلا وہ تعلیم سے بے رخی تھی۔
اندلا جہاں دنیا علمی پیاس بجھانے آتی تھی،ہم نے ان مراکز کو بھلادیا تب یورپ نے آکر ہم سے ہمارا تعلیم چھین لیا،اہل علم اور علم ہم سے چھین کر لے گئے۔عمارت وہاں تھی،کتابیں بھی محفوظ تھیں لیکن علم میں کمال یورپ نے حاصل کیا اور ہم سے آگے نکل گیا۔
ہنر کی ناقدر۔۔۔۔
اندلس جہاں معماران قوم موجود تھے،جہاں فن کی دنیا میں اندلا نے تہلکہ مچائے رکھا تھا،فن تعمیر میں وہ لوگ یکتا اور فن تیغ زنی اور گھوڑ سواری میں سب سے آگے تھے۔پھر یورپ نے ہمیں سب کچھ بھلادیا اور ایسا بھلایا کہ پھر یاد نہیں آیا۔
یہی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ہم ثریا سے زمیں پر آگرے۔حالانکہ۔۔۔۔ہم بھی رشک آسماں تھے ابھی کل کی بات ہے۔
شاہ حسین سواتی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *