تاریخ ہمشہ بہادروں کو یاد رکھتی ہے اور ان کے تاریخی کارنامے صدیوں تک یاد رکھے جاتے ہیں۔ آج میں آپ کو اس مرد مجھاہد کےبارے میں بتاوں گا جو پیدا تو پھولوں کے شہر پشاور میں ہو تھا اور اسکی قبر ترکی میں ہے اور ترکی والے اسکواپنا قومی ہیرو مانتے ہیں۔ تاریخ کے اس جنگجو کے کارنامے آج بھی زندہ ہیں آج تک اسکی بہادری کی ترکی میں مشالیں دجاتی ہیں۔
دوستوں اس بہادر سپوت کا تعلق پاکستان کے شہر پشاور سے تھا۔ عبدلراحمن 6 دسمبر 1886 کو پشاور میں پیدا ہوے آپ نے پشاور کے میونسپل بورڈ سکول سے ساتویں کا متحان پاس کیا آپ حافظ قرآن بھی تھے۔ مارچ 1906 میں آٹھویں جماعت میں آپ کو علی گڑھ بھیجا گیا اپریل 1908 میں جب آپ میٹرک میں تھے تو آپ نے حسرت موہانی کے رساسلہ اردو معلی ا میں آپ نے انگریز سامراجی کے خلاف آرٹیکل لکھا جس کی وجہ سے عبدلراحمن پشاوری کو سزا کے طور پر تین سال کیلیے علی گڑھ سے خارج کر دیا گیا۔ علی گڑھ سے نکا لے جانے کے بعد عبدلراحمن پشاوری نے شملہ کا رخ کیا وہاں پر ایک یورپی سکول میں دخلہ لے لیا۔ دوستوں تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جن انگریزوں کے خلاف آپ نے مضمون لکھا ان انگریزوں نے آپ کو تعلیم دلوائ اور مسلمانو کے سکول علی گڑھ سے انگریز کے خوف سے آپ نکال دیا گیا۔
شملہ میں تعلیم کے دوران آپ کو دل کی بیماری لاحق ہوگئ آپ علاج کیلیے دہلی میں تشریف لائے اور آپ کا علاج دہلی کے مشہور ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے کیا۔ دسمبر 1911 میں جب ڈاکٹر انصاری نے ترکوں کے علاج کیلیے ترکی کا سفر شروع کیا تو عبدلرحمن کی طبعیت اچانک سمبھل گئ۔ دسمبر 1912 میں آپ واپس علی گڑھ چلے گئے۔ دوستوں 1911 میں اٹلی کا طرابلس عرب پر حملہ اور ترکی کے خلیفہ وقت پر دباو ڈال کر اسکی خود مختاری کا لینا ارو 1912 میں ترکی پر حملہ کر کے بلقانی ریاستوں پر قبضہ کر لینا یہ وہ واقعات تھے جنہوں نے مسلمانوں کے دل اور دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
ان دنوں برصغیر کے مسلمانوں نے ترک بھائیوں کے علاج کیلیے ایک وفد بھیجا اور انکے ساتھ عبدلراحمن پشاوری نے بھی ترک بھائیوں کی مدو کلیلیے اپنا سامان باندھ لیا۔ دوستوں عبدلراحمن پشاوری جنگ کے دوران زخمی ترک سپاہیوں کو میدان جنگ سے اپنی پیٹھ پر سوار کر کے ہسپتال میں میتقل کرتے رہے۔ ترک سپاہی اور افسران عبدلرحمن پشاوری کے اس جزبہ انسانیت پہ آفرین کہتے۔ دوستوں جب برصغیر کے مسلمانوں کا وفد واپس آنے کلیلے تیار تھا اور اس وقت کے سلطان محمد خامس نے اس وفد کو رخصت کیا اور عبدلراحمن پشاوری کو اپنے پاس روک لیا اور پھر آپ نے ترک فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔
جب جنگ عطیم شروع ہوئ تو آپ کو لیفٹینٹ افسر کے طور پر خطرناک جنگ کے محاذ درے تانیال پر بھیج دیا گیا جنگ عظیم کے اختتام پر سفارتی مشن پر آپ کو جرمنی اور بغداد بھیجا گیا۔ جب مصطفی کمال نے ترک حکومت سمبھالی تو سب سے پہلے ترکی کو افغانستان نے کو تسلیم کیا اور مصطفی کمال نے بھی پہلے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے کا فیصلہ کیا اور عبدلراحمان پشاوری کو بطور سفیر بنا کرکابل بھیجا گیا۔ آپ دس سال بعد اپنے بھائیوں اور اپنے والدین سے کابل میں ملے۔ آپ 1923 میں کابل کو چھوڑ کر واپس ترکی چلے گئے۔ آپ مصطفی کمال کی حکومت کو پسند نہیں کرتے تھے اس لیے آپ کو سازش کے تحت شہید کرا دیا گیا آپ کی قبر اس قت ترکی کے ایک قبرستان میں واقع ہے
شکریہ۔