“سب کام میں ہی کروں”!( کچھ نہ کرنے کی نیت سے دوپہر کے ایک بجے اٹھنے والا نو کر کرموں )مالک کے پانی لانے کے حکم پر جواب دیتے ہوئے ۔ تاہم ،بوجھل قدموں سے پانی کے کولر کی طرف جاتے ہوئے” پتا نہیں آپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں ہم بھی انسان ہیں” ۔مالک پانی کا گلاس لینے کے بعدکرموںکو ہدایت کرتے ہوے؛” کل گھر میں کچھ مہمان آنے والے ہیں منشی جی سے مل کر ساری تیاریاں مکمل کر لو”۔ ہاں میں سر ہلانے کے بعد کرموں کچھ کہے بغیر منشی جی کی طرف چلا جاتا ہے ۔”منشی جی مالک کہہ رہے ہیں گھر پر کچھ مہمان آنے والے ہیں تو ان کی تیاریاں مکمل کر لو “۔
منشی جی کو پیغام دینے کے بعد دوپہر کے دو بجے ناشتہ کرنے کی نیت سے گھر کے کچن میں قدم رکھتا ہے۔ فریزر کے اندر موجود پانچ دن کی باسی دال، روٹی بغیر گرم کئے مزے سے کھانا شروع کر دیتا ہے۔ لہذا، اس ڈالر روٹی کے چکر میں دو بجے کا گیا چار بجے کچن سے باہرتشریف لاتا ہے ۔ جبکہ،مالک اور منشی اس تاک میں ہوتے ہیں کے آج کرموں واقعی مہمانوں کی میزبانی کی تیاری میں ابھی سے لگا ہوا ہے۔ مالک آواز لگاتے ہوئے؛ کرموں کیا تیاری مکمل ہوگئی ہیں؟ کرموں سر جھکائے ؛ “جی نہیں مالک ابھی تو میں ناشتہ کر رہا تھا”-اس پرمالک گرجدار آواز میں “نکمے یہ کونسا وقت ہے ناشتے کا دفع ہو جاؤ اور جلدی سے تیاریاں مکمل کرو”۔ کل سویرے ہی مہمان آ جائیں گے سمجھ گئے۔ “جی مالک” اس کے بعد، کرموں منشی اور کچھ دوسرے ملازمین کے ساتھ مل کر مہمانوں کے استقبال کے لیے گھر کو سجانے میں آخر لگ ہی جاتا ہے۔
رات کے آٹھ بج چکے ہیں؛ مالک رات کا کھانا کھانے کے بعد منشی اور تمام نوکروںکو اکٹھا کرتا ہے۔ اور کہتا ہےکہ:” تمام کان کھول کر سن لو کہ کل مہمانوں کے سامنے ناک مت کٹا دینا”۔ کرموں کو خاص نصیحت کرتے ہوئے اپنی خواب گاہ میں چلا جاتا ہے۔ جبکہ کرموں بھی صبح جلدی اٹھنے کی نیت سے اپنے بستر پر براجمان ہوکر لیٹ جاتا ہے اور کچھ ہی دیر بعد اونچے اونچے خراٹوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ تاہم ،اگلی صبح مہمانوں کی آمد شروع ہوجاتی ہے ۔اور کرموں بھی بالآخر مالک کے بار بار بلانے پر آ ہی جاتا ہے ۔گھر میں مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے مختلف پکوان پکے ہوئے ہیں اور مرغ مسلم کی خوشبو چاروں طرف پھیل چکی ہے ۔مگر ،کرموں کام پر کم اور کھانے کی خوشبو کی طرف زیادہ متوجہ ہے۔مہمانوں میں سے ایک خوش شکل نوجوان غصےسے کرموں کو آواز دیتا ہے۔” اوئے نکمے کیا کر رہے ہو سب کپڑے گندے کر دیے ہیں”۔
دراصل کرموں سالن کی ٹرے میز پر رکھنے کی بجائے بے دھیانی میں خوبصورت نوجوان کی جھولی میں انڈیل دیتا ہے۔ لہذا، اس بات پر مہمان شدید غصے میں آ جاتا ہے اور مالک بھی کرموں کی اس حرکت سے بے حد شرمندہ ہوتا ہے۔ بالآخر کرموں کو بےعزت کرکے اس کے نکمے پن کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے ۔تاہم ،کرموں گھر کے باہر بوجھل قدموں اور ایک پاؤ ںمیں جوتے کو گھسیٹتے ہوئے بڑبڑاتے ہوئے کہتا ہے۔” چاہے مجھے نکال دیا مگر نامرادوں نے مرغ مسلم کی خوشبو تک ہی محدود رکھا ایک بوٹی بھی نصیب نہیں ہونے دی کمبختوں نے”۔ آخرمیں ،”خدا تم سے غریب کا حق مارنے پر ضرور بدلہ لے گا” ۔اور اس طرح مالک کو کرموں جیسے نام نہاد ،منھ پھٹ اور کام چور نوکر سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔