*ہیرا کھو گیا*
حضرت مولانا ساجد صاحب نوراللہ مرقدہ
گزشتہ جمعہ 25 دسمبر 2020 کی صبح طلوع ہوئی تو کس کو معلوم تھا ایک ایسا شخص جو ہر وقت اپنے چہرے پہ مسکراہٹ سجائے رہتا تھا اس نے آج اس دنیا فانی سے کوچ کر کے ابدی زندگی کی طرف کوچ کر جانا ہےاور موت بھی ایسی ہو کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت کرتے ہوئے جان دینا اس بڑی کوئی خوش قسمتی نہیں ہے
اگرچہ ہم اس خالق حقیقی کی بے پناہ نعمتوں میں سے ایک چھوٹی سے چھوٹی نعت کا بھی شکر ادا صحیح معنوں میں ادا نہیں کر سکتا تو اس خالق حقیقی کے گھر کی خدمت کرتے ہوئے اس مرد مجاہد نے اپنی جان اسی خالق حقیقی کے حوالے کر دی جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں تقریباً 10 سال سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے عربی ادب کا انکو بہت شوق تھا اس وجہ سے جامعہ کی ابتدائی کلاس میں وہ عربی کا تکلم بھی کرواتے تھے اور جامعہ میں جو بھی انکو خدمات ذمہ لگائی جاتی تو اس کو اپنی پوری ذمہ داری سے سرانجام دیتے تھے-میں نے بھی استا جی کے پاس پہلا درجہ اولی پڑھا تھا استاد جی جب ہم کو عربی تکلم کرواتے تھے تو انکی ایک بات ابھی بھی مجھ کو یاد ہے اور جب بھی کسی کتاب میں یا کسی ساتھی سے وہ لفظ سنوں تو استاد جی کی وہ بات وہ کلمات ذہن میں آ جاتے ہیں اور بڑا لطف آتا ہے
اور خواہش ہوتی ہے کہ کاش کہ وہ دن پھر سے لوٹ آئیں استاد جی جب بھی کلاس میں تشریف لاتے تو فرمایا کرتے تھے (مثنی مثنی یا اخی!) استاد جی ہم کو روزانہ کچھ نہ کچھ نصیحت فرما دیا کرتے تھے اور کبھی کبھی تو ہمیں لطائف بھی سنایا کرتے تھےاستاد جی نہایت ہی خوش اخلاق، نیک طبیعت اور نفیس تھے-تو ابھی ابھی ہمارے ششماہی امتحان ہوئے تھے تو استاد جی کی کرسی بالکل میری دائیں جانب میرے ساتھ ہوتی تھی امتحان کے بعد ہمیں 21 دسمبر 2020 سے یکم جنوری 2021 تک چھٹیاں ہو گئیں تو گزشتہ جمعہ جب استاد جی کی وفات کی خبر سنی تو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا اور تصور میں بھی یہ بات نہیں آرہی تھی کہ میرے استاد جی اب اس فانی دنیا میں نہیں رہے
اللہ تعالیٰ ہمارے استاد جی کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں
آمین ثم آمین
تحریر :حافظ سیف الرحمن
ہیرا کھو گیا
تحریر پڑھ کر اشک بار ہو گیا
اللہ مولانا ساجد رحمۃ اللہ کے درجات بلند فرمائے آمین
ameen