مسئلہ یہ تھا کہ مجھے آفس کی طرف سے دو مہینے کے کورس کی غرض سے کراچی آفس بھیجا جا رہا تھا اور امی جان بضد تھیں کہ یہ دو ماہ کسی ہوٹل کے بجائے تایا رفیق کے ہاں گزاروں۔۔امی جان انکے گھر کے سرد ماحول سے مجھے وحشت ہوتی ہے مجھ سے ان کے ہاں دو گھنٹے نہیں گزرتے آپ دو مہینے کی بات کر رہی ہیں۔تو پھر نوکری چھوڑ دو مجھے تمہیں کراچی بھیجتے ہوئے ہول اٹھ رہے ہیں وہاں کے جو حالات ہیں۔
امی جان وہاں کے حالات اب بالکل ٹھیک جان اور صرف کراچی پر کیا موقوف حالات تو کہیں کےبھی خراب ہوسکتے ہیں آپ بالکل نہ گھبرائیں۔ میں نے انہیں اطمینان دلایا۔وہاں ہوٹل میں اکیلے رہوگے تو لوگوں کی نظروں میں آؤ گے نہ بھئی میں تو ہول ہول کے مر جاؤں گی ثروت کا بھی فون آیا تھا کہ رہی تھی رمیز کو سیدھا ہمارے ہاں بھیجئے گا جب اپنا گھر موجود ہے تو کہیں اور جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
مگر امی۔۔۔
کوئی اگر مگر نہیں ا۔۔امی جان قطیعت سے بولیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ????۔۔۔۔۔۔ ????۔۔۔۔۔۔۔
تین دن بعد ہی میں کراچی اپنے تایا کے ہاں موجود تھا رسمی سے انداز میں مجھے خوش آمدید کہا گیا جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا کہ تایا کے ہاں گرمجوشی کا فقدان تھا تایا تائی حیات ہوتے تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی وہ بہت کشادہ دل اور پر خلوص لوگ تھے پتہ نہیں اولادوں میں یہ خصوصیات کیوں ناپید تھیں شاید غیر متوقع طور پر مالی حالات مستحکم ہوجانے کی وجہ سے یہ لوگ مغرور ہوگئے تھے ورنہ ہم نے تایا تائی کا دور بھی دیکھا تھا جب ان کے ہاں روٹی نہ تھی مگر محبت ضرور تھی اب تو یہ حال تھا کہ یہ لوگ غریب رشتہ داروں کو رشتہ دار نہیں بھکاری سمجھتے تھے۔
تایا کی نسبت میرے والد شروع سے ہی خوشحال تھے اور اب تو ہم اللہ کے فضل سے طبقہ امراء میں شمار ہوتے تھے یہی وجہ تھی کہ تایا کی فیملی شروع سے ہی ہم سے تھوڑا دبتی تھی اب بھی اصرار کر کے مجھے اپنے ہاں ٹہرنے پر رضامند کیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔????۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔????۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے یہاں قیام کے دوران ہی مجھے پتہ چلا کہ ہر مہینے کے وسط اور اختتام پر تایا تائی کے نام سے گھر کے دروازے پر ہی آٹا گھی اور بعض اوقات کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ مجھے یہ سن کر اور بعد ازاں دیکھ کر ازحد خوشی ہوئی۔۔۔۔مگر اس سب کے باوجود بھی پہلے دن سے ایک بات مجھے کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی اور وہ تھا راجہ ماموں کے ساتھ ان لوگوں کا بیزار اور بے حس رویہ۔۔
راجہ ماموں میری مرحومہ تائی کے سگے بھائی تھے بیچارے بوڑھے تھے انکا ایک ہی بیٹا تھا جس نے شادی کے بعد ان کو شادی کے بعد دردر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے گھر سے نکال دیا تھا بے حد سیدھے انسان تھے تایا تائی کے دور میں بھی وہ اکثر آیا کرتے تھے لیکن اب جب سے بیٹے نے نکالا تھا جب سے تو وہ کسی بھی ٹھئے یا فٹ پاتھ پر سو کر گزارا کر رہے تھے تاہم ایک وقت کا کھانا کھانے یہاں تایا کے ہاں آجاتے تھے اور میں دیکھ رہا تھا کہ وہ ایک وقت کا کھانا کھلانا بھی ان لوگوں کو شاق گزر رہا تھا۔
میں اکثر ان لوگوں کی نظر بچا کر راجا ماموں کے ہاتھ میں کچھ پیسے دے دیا کرتا تھا لیکن وہ شاید گھر کے ماحول کو ترس رہے تھے اس لئے ان سب کی ناگواری اور اکڑے ہوئے چہروں کو نظر انداز کر کے پھر آن موجود ہوتے یا شاید انہیں لہجوں اور رویوں کی سمجھ نہ تھی ان کی آمد پر مجھے اس طرح کے جملے سننے کو ملتے۔۔۔۔لو آگئے وہ پھر۔۔۔اب کھلاؤ انہیں ۔۔بھئی ایک دن نہ بھی آئے بندہ۔۔آپسمیں تبادلہ خیال ہوتا۔۔ناں جی! یہیں آکر ٹھونسیں گے ۔۔خوف خدا سے عاری لہجہ ہوتا۔۔مجھے اس ماحول اور باتوں سے کراہت آنے لگتی اکثر ایسا بھی ہوا کہ اپنے سامنے رکھی کھانے کی ٹرے میں نے راجا ماموں کو دیدی بس یوں ہی دن گزر رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔????????????۔۔۔۔۔۔۔۔۔????????????
ایکدن جبکہ دروازے پر کھانے کی تقسیم ہورہی تھی اور میں بھی بہت خوش تھا کیوںکہ اس بار اس نیکی میں پروردگار نے مجھے بھی شامل ہونے کی توفیق بخشی تھی۔۔میں آفس سے آکر کچھ دیر آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں لیٹا تھا کہ کچھ ہی دیر میں تایا زاد بھائی بہنوں کی آوازیں آنے لگیں۔۔۔بھئی آج تو کافی لوگوں میں کھانا تقسیم ہوا۔۔کریم بھائی کی آواز آئی۔ماشاءاللہ۔۔ماشاءاللہ اللہ میرے بھائیوں کو اور نوازے۔۔۔ثروت باجی بولیں۔واقعی یار اتنا سکون ملتا ہے ان لوگوں کو دیکر کہ جسکی حد نہیں۔۔اس مرتبہ ایاز بھائی بولے۔واقعی ہم کتنے لوگوں کو کھلانے کا وسیلہ بنے ہوئے ہیں۔۔۔شہروز بھی گویا ہوا۔۔۔۔میں تو چہرے دیکھتی ہوں ان لوگوں کے۔۔ایسی خوشی اترتی ہے ان کے چہروں پر کھانے کا پیکٹ لے کر کہ نا قابل بیان ہے ۔۔۔نزہت باجی نے کہا-ابھی یہی باتیں ہورہی تھیں کہ راجا ماموں کی مہین سی آواز سنائی دی اسلام و علیکم۔۔۔۔۔کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔اب آئے ہو ماموں جب کھانا بنٹ گیا۔۔ثروت باجی نے سخت لہجے میں کہا۔وہ بیٹا میں۔۔۔۔بس اتنا کہ کر وہ چپ ہوگئے۔۔
اب سالن روٹی چاول کچھ بھی نہیں ہے گھر میں۔۔ہم نے تو دعوت میں جانا ہے ابھی۔۔۔
میرے سامنے پھر بھی لحاظ برتا جاتا تھا لیکن میری عدم موجودگی میں راجا ماموں کی عزت نفس کے پرخچے اڑائے جا رہے تھے۔۔
اور انکا حلیہ تو دیکھو زرا۔۔کتنے میلے کپڑے ہورہے ہیں چلے آتے ہیں محلے والوں کے سامنے ہماری بے عزتی کروانے۔۔۔
واقعی ماموں ہر عید پر تمہیں نئے کپڑے دیتا ہوں آخر کہاں جاتے ہیں وہ کپڑے۔۔۔کریم بھائی نسبتاً دھیمی آواز میں بولے۔۔
بیٹا فٹ پاتھ پر سوتا ہوں نہ۔۔چوری ہوجاتے ہیں ۔۔۔انہوں نے مجرموں کے سے انداز میں کہا
کیا میرے کزنز کا بپھرنا اور راجا ماموں کا منمنانا فقط دو روٹی کی وجہ سے تھا۔۔۔مجھے خوف خدا سے جھرجھری سی آگئی میں یکدم کمرےسے باہر آگیا میرے باہر آتے ہی وہاں خاموشی چھا گئی اور راجا ماموں سر جھکائے وہاں سے چلے گئے۔۔۔۔
رمیز آج بہت زبردست چکن پلاؤ بنایا ہے میں نے جلدی سے آجاؤ ۔۔۔۔
ثروت باجی معاملہ سنبھالنے کو آگے بڑھیں۔
میں نے اس انداز میں انکی طرف دیکھا کہ ان کا چہرا پھیکا پڑ گیا۔۔
نہیں باجی مجھے بھوک نہیں ہے اور ویسے بھی آپ لوگوں کو دعوت میں جانا ہے آپ لوگ اپنی تیاری کریں۔۔
میں ان سب کو حق دق چھوڑ کر باہر چلا آیا تا کہ راجا ماموں کو ڈھونڈ کر انکی رہائش اور کھانے کا مستقل بندوبست کردوں
????????????
وہ روز اس سے اگلا روز اور اس سے اگلا روز لگاتار تین دن میں نے آفس سے آکر راجا ماموں کو ڈھہنڈنے کی کوشش کی لیکن کہیں ان کا پتہ نشان نہ ملا اور جب اسی طرح پورا مہینہ گزر گیا تو میرے تایا زاد بہن بھائیوں کے ضمیر بھی شاید ملامت کرنے لگے اسی لئےوہ بھی راجا ماموں کی تلاش میں سرگرداں نظر آئے مگر انھیں نہ ملنا تھا اور نہ ملے۔۔۔ میں اتنا بد دل ہوا کہ کورس مکمل کرنے کے لئے ہوٹل منتقل ہوگیا
????????????????????????????????
لاہور واپسی کے کچھ عرصے بعد میری شادی ہوگئی اور میں پہلے سے زیادہ مصروف ہوگیا لیکن راجا ماموں میرے ذہن کے پردے سے محو نہ ہوتے تھے دل میں آتا تھا کہ کراچی فون کرکے ان کے بارے میں پوچھوں مگر پھر یہ سوچ کر رک جاتا کہ مقتول کے بارے میں قاتل سے کیا پوچھنا۔۔۔ پورے دوسال گزر گئے اور آج ایک بار پھر وقت مجھے وہاں لے آیا تھا مگر اس بار امی جان اور میری بیوی نازیہ اور میرا پیارا سا بیٹا سمیر بھی میرے ساتھ تھے ہم شہروز کی شادی پر آئے تھے اور یہ بھی حسب سابق امی کا حکم تھا۔۔۔
یہ کیا ہورہا ہے۔۔نازیہ نے لوگوں کا ہجوم دیکھ کر کہا۔۔
غریبوں میں راشن اور کھانا تقسیم ہورہا ہے۔۔ میں نے عجب انداز میں کہا۔۔۔
یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔۔نازیہ بہت متاثر ہوئی ۔
اللہ پاک ان بچوں کے رزق میں اضافہ فرمائیں۔ امی جان دعائیہ انداز میں بولیں۔۔۔مگر میں دو سال پہلے کا واقعہ بھولا نہیں تھا چنانچہ گاڑی سے اتر کر کسی کو ڈھونڈنے کے سے انداز میں دونوں قطادوں کو اول تا آخر دیکھنا شروع کیا اسی دوران امی جان اور نازیہ اندر چلی گئیں۔
ارے رمیز بھائی اسلام و علیکم۔۔ شہروز نے آکر ہاتھ ملایا وعلیکم السلام کیا حال ہے ۔۔میں نے رسمی سے انداز میں کہا۔۔
بالکل ٹھیک الحمدللہ۔۔لیکن آپ کیا دیکھ رہے ہیں۔۔اس نے پوچھا۔
راجا ماموں۔۔۔ میں نے سوچا کہ شاید آگئے ہوں اور یہیں کہیں لائن میں کھڑے ہوں کھانے کے لئے۔۔۔ میں نے دانستہ طنزیہ ٹون میں کہا
نہیں رمیز بھائی ان کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔۔وہ کچھ شرمندہ سے انداز مین بولا۔
شہروز یہ سب کچھ باعث اجرو ثواب ہے مستحقین میں راشن کی تقسم۔۔کھانے کی تقسیم بہت احسن عمل ہے مگر تم جانتے ہو کہ اسکے سب سے زیادہ حقدار غریب رشتہ دار ہوتے ہیں امیر کے مال میں پہلا حق اس کے غریب رشتہ دار کا ہوتا ہے۔۔۔۔میں آج بھی نہ بولتا تو اللہ کی بارگاہ میں پکڑ ہوتی لہٰذا میں نے شہروز کا لحاظ بالکل نہ کیا۔۔
آپ صحیح کہ رہے ہیں رمیز بھائی آپ کی ناراضگی کا ہمیں اندازہ بھی تھا اور اللہ کو تو ہم مسئلہ یہ تھا کہ مجھے آفس کی طرف سے دو مہینے کے کورس کی غرض سے کراچی آفس بھیجا جا رہا تھا اور امی جان بضد تھیں کہ یہ دو ماہ کسی ہوٹل کے بجائے تایا رفیق کے ہاں گزاروں۔۔امی جان انکے گھر کے سرد ماحول سے مجھے وحشت ہوتی ہے مجھ سے ان کے ہاں دو گھنٹے نہیں گزرتے آپ دو مہینے کی بات کر رہی ہیں-تو پھر نوکری چھوڑ دو مجھے تمہیں کراچی بھیجتے ہوئے ہول اٹھ رہے ہیں وہاں کے جو حالات ہیں۔ امی جان وہاں کے حالات اب بالکل ٹھیک جان اور صرف کراچی پر کیا موقوف حالات تو کہیں کےبھی خراب ہوسکتے ہیں آپ بالکل نہ گھبرائیں۔ میں نے انہیں اطمینان دلایا۔
وہاں ہوٹل میں اکیلے رہوگے تو لوگوں کی نظروں میں آؤ گے نہ بھئی میں تو ہول ہول کے مر جاؤں گی ثروت کا بھی فون آیا تھا کہ رہی تھی رمیز کو سیدھا ہمارے ہاں بھیجئے گا جب اپنا گھر موجود ہے تو کہیں اور جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
مگر امی۔۔۔
کوئی اگر مگر نہیں ا۔۔امی جان قطیعت سے بولیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ????۔۔۔۔۔۔ ????۔۔۔۔۔۔۔
تین دن بعد ہی میں کراچی اپنے تایا کے ہاں موجود تھا رسمی سے انداز میں مجھے خوش آمدید کہا گیا جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا کہ تایا کے ہاں گرمجوشی کا فقدان تھا تایا تائی حیات ہوتے تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی وہ بہت کشادہ دل اور پر خلوص لوگ تھے پتہ نہیں اولادوں میں یہ خصوصیات کیوں ناپید تھیں شاید غیر متوقع طور پر مالی حالات مستحکم ہوجانے کی وجہ سے یہ لوگ مغرور ہوگئے تھے ورنہ ہم نے تایا تائی کا دور بھی دیکھا تھا جب ان کے ہاں روٹی نہ تھی مگر محبت ضرور تھی اب تو یہ حال تھا کہ یہ لوگ غریب رشتہ داروں کو رشتہ دار نہیں بھکاری سمجھتے تھے۔
تایا کی نسبت میرے والد شروع سے ہی خوشحال تھے اور اب تو ہم اللہ کے فضل سے طبقہ امراء میں شمار ہوتے تھے یہی وجہ تھی کہ تایا کی فیملی شروع سے ہی ہم سے تھوڑا دبتی تھی اب بھی اصرار کر کے مجھے اپنے ہاں
ٹہرنے پر رضامند کیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔????۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔????۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے یہاں قیام کے دوران ہی مجھے پتہ چلا کہ ہر مہینے کے وسط اور اختتام پر تایا تائی کے نام سے گھر کے دروازے پر ہی آٹا گھی اور بعض اوقات کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ مجھے یہ سن کر اور بعد ازاں دیکھ کر ازحد خوشی ہوئی۔۔۔۔مگر اس سب کے باوجود بھی پہلے دن سے ایک بات مجھے کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی اور وہ تھا راجہ ماموں کے ساتھ ان لوگوں کا بیزار اور بے حس رویہ۔۔
راجہ ماموں میری مرحومہ تائی کے سگے بھائی تھے بیچارے بوڑھے تھے انکا ایک ہی بیٹا تھا جس نے شادی کے بعد ان کو شادی کے بعد دردر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے گھر سے نکال دیا تھا بے حد سیدھے انسان تھے تایا تائی کے دور میں بھی وہ اکثر آیا کرتے تھے لیکن اب جب سے بیٹے نے نکالا تھا جب سے تو وہ کسی بھی ٹھئے یا فٹ پاتھ پر سو کر گزارا کر رہے تھے تاہم ایک وقت کا کھانا کھانے یہاں تایا کے ہاں آجاتے تھے اور میں دیکھ رہا تھا کہ وہ ایک وقت کا کھانا کھلانا بھی ان لوگوں کو شاق گزر رہا تھا۔
میں اکثر ان لوگوں کی نظر بچا کر راجا ماموں کے ہاتھ میں کچھ پیسے دے دیا کرتا تھا لیکن وہ شاید گھر کے ماحول کو ترس رہے تھے اس لئے ان سب کی ناگواری اور اکڑے ہوئے چہروں کو نظر انداز کر کے پھر آن موجود ہوتے یا شاید انہیں لہجوں اور رویوں کی سمجھ نہ تھی ان کی آمد پر مجھے اس طرح کے جملے سننے کو ملتے۔۔۔۔لو آگئے وہ پھر۔۔۔اب کھلاؤ انہیں ۔۔بھئی ایک دن نہ بھی آئے بندہ۔۔آپسمیں تبادلہ خیال ہوتا۔۔ناں جی! یہیں آکر ٹھونسیں گے ۔۔خوف خدا سے عاری لہجہ ہوتا۔۔مجھے اس ماحول اور باتوں سے کراہت آنے لگتی اکثر ایسا بھی ہوا کہ اپنے سامنے رکھی کھانے کی ٹرے میں نے راجا ماموں کو دیدی بس یوں ہی دن گزر رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔????????????۔۔۔۔۔۔۔۔۔????????????
ایکدن جبکہ دروازے پر کھانے کی تقسیم ہورہی تھی اور میں بھی بہت خوش تھا کیوںکہ اس بار اس نیکی میں پروردگار نے مجھے بھی شامل ہونے کی توفیق بخشی تھی۔۔میں آفس سے آکر کچھ دیر آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں لیٹا تھا کہ کچھ ہی دیر میں تایا زاد بھائی بہنوں کی آوازیں آنے لگیں۔۔۔بھئی آج تو کافی لوگوں میں کھانا تقسیم ہوا۔۔کریم بھائی کی آواز آئی۔ماشاءاللہ۔۔ماشاءاللہ اللہ میرے بھائیوں کو اور نوازے۔۔۔ثروت باجی بولیں۔
واقعی یار اتنا سکون ملتا ہے ان لوگوں کو دیکر کہ جسکی حد نہیں۔۔اس مرتبہ ایاز بھائی بولے۔
واقعی ہم کتنے لوگوں کو کھلانے کا وسیلہ بنے ہوئے ہیں۔۔۔شہروز بھی گویا ہوا۔۔۔۔
میں تو چہرے دیکھتی ہوں ان لوگوں کے۔۔ایسی خوشی اترتی ہے ان کے چہروں پر کھانے کا پیکٹ لے کر کہ نا قابل بیان ہے ۔۔۔نزہت باجی نے کہا
ابھی یہی باتیں ہورہی تھیں کہ راجا ماموں کی مہین سی آواز سنائی دی اسلام و علیکم۔۔۔۔۔
کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔
اب آئے ہو ماموں جب کھانا بنٹ گیا۔۔ثروت باجی نے سخت لہجے میں کہا۔
وہ بیٹا میں۔۔۔۔بس اتنا کہ کر وہ چپ ہوگئے۔۔
اب سالن روٹی چاول کچھ بھی نہیں ہے گھر میں۔۔ہم نے تو دعوت میں جانا ہے ابھی۔۔۔
میرے سامنے پھر بھی لحاظ برتا جاتا تھا لیکن میری عدم موجودگی میں راجا ماموں کی عزت نفس کے پرخچے اڑائے جا رہے تھے۔۔
اور انکا حلیہ تو دیکھو زرا۔۔کتنے میلے کپڑے ہورہے ہیں چلے آتے ہیں محلے والوں کے سامنے ہماری بے عزتی کروانے۔۔۔
واقعی ماموں ہر عید پر تمہیں نئے کپڑے دیتا ہوں آخر کہاں جاتے ہیں وہ کپڑے۔۔۔کریم بھائی نسبتاً دھیمی آواز میں بولے۔۔
بیٹا فٹ پاتھ پر سوتا ہوں نہ۔۔چوری ہوجاتے ہیں ۔۔۔انہوں نے مجرموں کے سے انداز میں کہا
کیا میرے کزنز کا بپھرنا اور راجا ماموں کا منمنانا فقط دو روٹی کی وجہ سے تھا۔۔۔مجھے خوف خدا سے جھرجھری سی آگئی میں یکدم کمرےسے باہر آگیا میرے باہر آتے ہی وہاں خاموشی چھا گئی اور راجا ماموں سر جھکائے وہاں سے چلے گئے۔۔۔۔
رمیز آج بہت زبردست چکن پلاؤ بنایا ہے میں نے جلدی سے آجاؤ ۔۔۔۔
ثروت باجی معاملہ سنبھالنے کو آگے بڑھیں۔
میں نے اس انداز میں انکی طرف دیکھا کہ ان کا چہرا پھیکا پڑ گیا۔۔
نہیں باجی مجھے بھوک نہیں ہے اور ویسے بھی آپ لوگوں کو دعوت میں جانا ہے آپ لوگ اپنی تیاری کریں۔۔
میں ان سب کو حق دق چھوڑ کر باہر چلا آیا تا کہ راجا ماموں کو ڈھونڈ کر انکی رہائش اور کھانے کا مستقل بندوبست کردوں
????????????
وہ روز اس سے اگلا روز اور اس سے اگلا روز لگاتار تین دن میں نے آفس سے آکر راجا ماموں کو ڈھہنڈنے کی کوشش کی لیکن کہیں ان کا پتہ نشان نہ ملا اور جب اسی طرح پورا مہینہ گزر گیا تو میرے تایا زاد بہن بھائیوں کے ضمیر بھی شاید ملامت کرنے لگے اسی لئےوہ بھی راجا ماموں کی تلاش میں سرگرداں نظر آئے مگر انھیں نہ ملنا تھا اور نہ ملے۔۔۔ میں اتنا بد دل ہوا کہ کورس مکمل کرنے کے لئے ہوٹل منتقل ہوگیا
????????????????????????????????
لاہور واپسی کے کچھ عرصے بعد میری شادی ہوگئی اور میں پہلے سے زیادہ مصروف ہوگیا لیکن راجا ماموں میرے ذہن کے پردے سے محو نہ ہوتے تھے دل میں آتا تھا کہ کراچی فون کرکے ان کے بارے میں پوچھوں مگر پھر یہ سوچ کر رک جاتا کہ مقتول کے بارے میں قاتل سے کیا پوچھنا۔۔۔ پورے دوسال گزر گئے اور آج ایک بار پھر وقت مجھے وہاں لے آیا تھا مگر اس بار امی جان اور میری بیوی نازیہ اور میرا پیارا سا بیٹا سمیر بھی میرے ساتھ تھے ہم شہروز کی شادی پر آئے تھے اور یہ بھی حسب سابق امی کا حکم تھا۔۔۔
یہ کیا ہورہا ہے۔۔نازیہ نے لوگوں کا ہجوم دیکھ کر کہا۔۔
غریبوں میں راشن اور کھانا تقسیم ہورہا ہے۔۔ میں نے عجب انداز میں کہا۔۔۔
یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔۔نازیہ بہت متاثر ہوئی ۔
اللہ پاک ان بچوں کے رزق میں اضافہ فرمائیں۔ امی جان دعائیہ انداز میں بولیں۔۔۔مگر میں دو سال پہلے کا واقعہ بھولا نہیں تھا چنانچہ گاڑی سے اتر کر کسی کو ڈھونڈنے کے سے انداز میں دونوں قطادوں کو اول تا آخر دیکھنا شروع کیا اسی دوران امی جان اور نازیہ اندر چلی گئیں۔
ارے رمیز بھائی اسلام و علیکم۔۔ شہروز نے آکر ہاتھ ملایا وعلیکم السلام کیا حال ہے ۔۔میں نے رسمی سے انداز میں کہا۔۔
بالکل ٹھیک الحمدللہ۔۔لیکن آپ کیا دیکھ رہے ہیں۔۔اس نے پوچھا۔
راجا ماموں۔۔۔ میں نے سوچا کہ شاید آگئے ہوں اور یہیں کہیں لائن میں کھڑے ہوں کھانے کے لئے۔۔۔ میں نے دانستہ طنزیہ ٹون میں کہا
نہیں رمیز بھائی ان کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔۔وہ کچھ شرمندہ سے انداز مین بولا۔
شہروز یہ سب کچھ باعث اجرو ثواب ہے مستحقین میں راشن کی تقسم۔۔کھانے کی تقسیم بہت احسن عمل ہے مگر تم جانتے ہو کہ اسکے سب سے زیادہ حقدار غریب رشتہ دار ہوتے ہیں امیر کے مال میں پہلا حق اس کے غریب رشتہ دار کا ہوتا ہے۔۔۔۔میں آج بھی نہ بولتا تو اللہ کی بارگاہ میں پکڑ ہوتی لہٰذا میں نے شہروز کا لحاظ بالکل نہ کیا۔۔
آپ صحیح کہ رہے ہیں رمیز بھائی آپ کی ناراضگی کا ہمیں اندازہ بھی تھا اور اللہ کو تو ہم ناراض کر ہی بیٹھے ہیں جس دن سے راجا ماموں ہمارے گھر سے بھوکے گئے ہیں اس دن سے ہم بہن بھائی کسی نہ کسی مصیبت کا سامنا کر رہے ہیں۔۔۔خود میں اکثر نیند سے چونک کر اٹھ بیٹھتا ہوں کاروبار میں بھی کمی ہوئی ہے۔۔۔ وہ نادم انداز میں کہ رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اگر چراغ تلے اندھیرا ہو تو اس چراغ کا مستقبل مخدوش ہی ہوا کرتا ہے۔۔۔
????????????????????
کر ہی بیٹھے ہیں جس دن سے راجا ماموں ہمارے گھر سے بھوکے گئے ہیں اس دن سے ہم بہن بھائی کسی نہ کسی مصیبت کا سامنا کر رہے ہیں۔۔۔خود میں اکثر نیند سے چونک کر اٹھ بیٹھتا ہوں کاروبار میں بھی کمی ہوئی ہے۔۔۔ وہ نادم انداز میں کہ رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اگر چراغ تلے اندھیرا ہو تو اس چراغ کا مستقبل مخدوش ہی ہوا کرتا ہے۔۔۔
????????????????????