دینی قیادت کے لیے تزکیہ نفس کی ضرورت اور اس کے تقاضے

In اسلام
May 06, 2023
دینی قیادت کے لیے تزکیہ نفس کی ضرورت اور اس کے تقاضے

دینی قیادت کے لیے تزکیہ نفس کی ضرورت اور اس کے تقاضے

عبدالوحید شہزاد
نائب مدیر مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد ، پی ایچ ڈی سکالر ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد
awaheedshahzad@gmail.com
+923027286144

یہ تقریر جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان کے إعداد القيادة (3-1 مئی 2023) پروگر ام مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد میں پیش کی گئی ۔
تزکیہ نفس ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے انسان موت کے بعد ہی بری الذمہ ہوسکتا ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے اس امر سے وابستہ رہنے سے ہی کامیابی کی نوید سنائی ہے ۔

ہر شخص کے لیے اس عمل کو تھامے رکھنا ناگزیر ہے لیکن قیادت ومنتظم اور ذمہ دار شخص کے لیے اس عمل سے منسلک رہنے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے،اس لیے کہ منتظم لوگوں کے لیے اپنی دعوت کا عکس ہوتا ہے اور ان کے لیے قابل تقلید ہوتا ہے ۔ اگر قائد کا عمل اس کے قول سے مختلف ہو تو اس کی دعوت کی تاثیر ختم ہوئی جاتی ہے اور لوگ اس سے چھٹنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ اس نقص کو دور کرنے کے لیے قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے قول وعمل میں تضاد کو ناپسند قراد دیا ہے اور اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟۔

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ اے ایمان والو! (١) تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ (١)

اس لیے ناگزیر ہے کہ ایک منتظم اپنے عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاق کی اصلاح اور بہتری کے لیے کوشاں رہے بالخصوص داعی الی اللہ کےلیے یہ عمل فرض کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس عمل کی تاثیر دیرپا رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی سیرت آج تک زندہ وتابندہ ہےاور قیامت تک رہے گی۔ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کے بارے میں اللہ رب العالمین نے فرمایا : لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے (١)، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے ۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے خلفائے راشدین کے بارے میں فرمایا : فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ۔ تمہارے لیے میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت کی پیروی کرنا ضروری ہے ۔

تزکیہ نفس اور تطہیر قلب کے عمل سے رشتہ مضبوط کرنے کی صور ت میں ایک منتظم ان تمام امور سے اجتناب کرتا ہے جو اس کے لیے اوراس کی دعوت کے لیے مھلک ثابت ہوتی ہیں ،اپنی جان کی حفاظت کی طرح اس کی حفاظت کرتا ہے، اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے گبھراتا نہیں ہے۔اس کے مقابلے میں وہ شخص جو تزکیہ کے عمل سے اجتناب کرتا ہے اور اپنے نفس کی اتباع کرنا شروع کردیتا ہے، اور تکبر وبڑائی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں محروم ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ کا ایک فرمان مبارک نقل کیا جارہا ہے جس میں دو کردار سامنے آتے ہیں ایک کردار وہ جس نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر نہیں کی اور اپنی بڑائی کا اعلان کیا، دوسراے کردار میں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر اور ان کو اس کے راستے میں خرچ کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اونٹ! یا اس نے گائے کہی، اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی۔ چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا، پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟

اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آ گئے۔ فرشتے نے پوچھا، کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دیدے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی، گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی۔ پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں۔ فرشتہ نے کہا، غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے۔ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آ رہی ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اپنی اسی پہلی صورت میں اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں، سفر کے تمام سامان ختم ہو چکے ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں۔ میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کر سکوں۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو، اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔ فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔

اسی طرح سیدنا یوسف علیہ السلام کے قصہ کا اہم جزء تزکیہ نفس سے متعلق ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ اس عورت نے جس کے گھر میں یوسف تھے، یوسف کو بہلانا پھسلانا شروع کیا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازہ بند کر کے کہنے لگی لو آجاؤ یوسف نے کہا اللہ کی پناہ! وہ میرا رب، مجھے اس نے بہت اچھی طرح رکھا ہے۔ بےانصافی کرنے والوں کا بھلا نہیں ہوتا (١)۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی سیرت سے معلوم ہوا کہ ہمیشہ اللہ پناہ طلب کی جائے اور اس کے اوامر پر عمل کیا جائے اور نواہی سے اپنے آپ کو دور رکھا جائے۔ ممکن ہے اس عمل کے نتیجے میں وقتی طور پر نقصانات وتکالیف کا سامنا کرنا پڑے لیکن بعد میں حقیقی کامیابی ملتی ہے جس طرح سیدنا حضرت یوسف کو ملی۔
ایک منتظم، قائد اور ادارے کے سربراہ کے پاس کثیر یا قلیل تعداد مین لوگوں کی امانتیں ہوتی ہیں جن کی حفاظت کرنا اور ان کا درست استعمال کرنا اس کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے۔ اگر احساس ذمہ داری نہ ہو اور غفلت وتساہلی پرستی کا اظہار کیا جائے تو اس کے نتیجے میں اس کی دعوت، تنظیم، ادارہ متاثر ہوجاتا ہے اور لوگ اس سے چھٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔وقتی طورپر منتظم اپنی کامیابی تصور کرتا ہے لیکن در حقیقت اس کے تزکیہ وتطہیر سے دوری کے نتیجے میں اس کی ذات، تنظیم اور ادارے کے لیے بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے قیادت کے لیے تزکیہ کے عمل سے جڑے رہنا ناگزیر ہے۔

اللہ رب العزت ہمیں اخلاص نیت کے ساتھ دین اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین

/ Published posts: 17

دستبرداری : اس کیٹیگری کی تمام پوسٹس عوام کے نظریات اور خیالات پر مبنی ہیں ،نیوزفلیکس کی ٹیم ان تمام آرٹیکلز میں پیش کردہ حالات و واقعات کی درستگی کی ذمہ دار نہیں ہے۔